روحی بانو کو تنہا کیوں چھوڑا؟


کالج کے ابتدائی چار سال شعبہ نفسیات میں گزارے، اس دوران پڑھنے کے ساتھ ساتھ ناصرف پروفیسر سے مکالمے کا موقع ملتا، جس میں مختلف نفسیاتی اور ذہنی امور پر رہنمائی لیتے، بلکہ ہمیں نفسیاتی پریشانیوں اور امراض میں مبتلا افراد سے ملایا جاتا، فاؤنٹین ہاؤس میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا، زیادہ تر طلباء کا خیال تھا کہ مینٹل ہاسپٹل عرف عام میں پاگل خانہ لے کر جائیں گے مگر کہا جاتا کہ وہاں ذرا زیادہ بگڑے مریض ہوتے ہیں، آپ لوگ ان سے گفتگو نہیں کرسکیں گے۔ خیر یہ محض بہانہ تھا۔

ان دنوں ہمیں ایسے لوگوں سے ملنے کا بھی زیادہ اشتیاق رہا جنہوں نے نفسیات کی تعلیم لی اور کسی دوسرے شعبے سے وابستہ ہوگئے، ایک سنیئر پولیس افسر سے ملاقات ہوئی، جن کا نام ذہن سے محو ہوچکا ہے، ان سے بات چیت کے دوران اندازہ ہوگیا کہ واقعی انسان کو سمجھنے میں یہ مضمون کتنا معاون ہوتا ہے، ہمیں اداکارہ روحی بانو سے ملنے کاموقع ملا، ان کے بار ے میں بتایا گیا کہ وہ نفسیات کی طالبہ رہی تھیں، یہ بات 1986 کی ہوگی، وہ ٹی وی کا ایک بڑا نام بن چکی تھیں، ملاقات کے دوران اتنے نفیس انداز میں گفتگو کی، کوئی خاص موضوع نہیں تھا لیکن روحی بانو جیسے کوئی جہاندیدہ بزرگ کی طرح باتیں کرتی گئیں، میں ان کی شخصیت کے سحر میں جکڑ گیا، ان کا شمار اس دورے کے تعلیم یافتہ اور سلجھے فنکاروں میں ہوتا تھا۔

روحی بانو کو کسی بھی کردار میں دیکھا یا کبھی ویسے ملنے کا موقع ملا، نہ جانے کیوں عمومی تاثر یہی ہوتا کہ ہماری نفسیات کے شعبے کی سنیئر ہے اور جیسے وہ فن اداکاری میں بھی اس علم سے فائدہ اٹھاتی ہیں، یہ سب میرے جیسے جذباتی نوجوانوں کا محض گمان ہوسکتا ہے، لیکن بعد کے دنوں میں ہمیں بھی نان کمرشل سیاسی تھیٹر کرنے کا موقع ملا، اس دوران بھی یہ موضوع زیربحث آیا، لیکن یہ بھی واضح تھی کہ روحی بانو جیسے فنکار بڑے حساس تھے اور وہ کسی بھی کھیل میں اپنا کردار بڑی گہرائی میں جاکر ادا کرتے۔

عملی زندگی میں ابلاغ کا شعبہ منتخب کیا، یہاں بھی جب کبھی روحی بانو کا تذکرہ آتا، وہی مختصر ملاقات، ان کی شخصیت کاسحر اور یادیں تازہ ہوجاتیں، ایک بار فاروق ضمیر صاحب سے پریس کلب میں ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ روحی بانو ایم ایس سی سائیکالوجی کی طالبہ تھیں جب پاکستان ٹیلی ویژن کے کوئز شو میں پہلی بار آئیں، اس کے بعد انہوں نے روحی بانو کو ڈرامے میں کام کی پیشکش کی۔ فاروق ضمیر بتاتے ہیں کہ انہوں نے بہت کم فنکار دیکھے جنہیں کردار اپنے اوپر طاری کرنے کا فن آتا تھا۔ دیکھنے والے کو ایسے ہی محسوس ہوتا کہ حقیقی کردار ہے۔

وقت گزرا، روحی بانو کا چہرہ سکرین سے غائب ہوا، پھر ایک روز معلوم ہوا وہ بھی ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگئیں، فوری دھیان اسی روحی بانو کی طرف چلاگیا۔ فاؤنٹین ہاؤس میں موجود کئی مریض ذہن میں آ گئے، ایک دن یہ بھی خبر آگئی، روحی بانو فاؤنٹین ہاؤس میں مقیم ہیں۔ نہ جانے کیوں اس روز بہت پریشان ہوا، کیا حساس لوگ خاص کر نفسیاتی معاملات کو سمجھنے والے خود بھی انہیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اتنی سنجیدہ اور نفیس خاتون حالات کے چنگل میں پھنس گئیں۔

کسی نے عائلی زندگی، کسی نے بیٹے کے قتل، کسی نے کوئی وجہ اس صورتحال کا نتیجہ بتائی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اوائل جوانی میں ہی زندگی الجھنوں میں مبتلا رہیں۔ لیکن معاشرے نے خاص طور پر ساتھ کام کرنے والوں نے روحی بانو کتنا ساتھ نبھایا، یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے جب کوئی بحران آتا ہے ہم اپنے دوستوں ساتھیوں اور عزیزوں کو کیوں نہیں سہارا دیتے ان کی تنہایوں کو کم کرنے میں معاونت کیوں نہیں کرتے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اکیلے اور تنہا لوگ یوں ہی زندگی گزار جاتے ہیں اور پھر کہاجاتا ہے وہ ایسا ہی انسان تھا۔ وہ دوسروں سے دور رہتا تھا، اس کے خاندانی مسائل تھے۔ اسے یہ صدمہ تھا۔ کیا ہم ان صدمات میں سے نکالنے کے لئے کبھی آگے بڑھے۔ کبھی ان کی ڈھارس بندھائی، ان کا ہاتھ تھاما، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔

شاید ہم لوگ مصروف ہوگئے، اپنی ذات کے گرد گھومنے لگے، ہمیں اپنے مسائل سے فرصت نہیں ملتی، کسی اپنے کے بارے میں سوچ سکیں۔

روحی بانو تنہائی پسند تھیں، لیکن انہیں مزید اکیلا چھوڑنے میں معاشرے نے بڑاکردار ادا کیا۔ کاش ہم اپنوں کو ایسی تنہائی سے نکالنے میں مددگار ہوسکیں۔ اچھے لوگ اپنے آخری وقت بھی اچھے گزارسکیں۔ وہ دنیاسے تلخ یادوں کابوجھ ساتھ نہ لے جائیں۔ اور زندگی کاخاتمہ آسانی سے کرپائیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar