منٹو کا بشن سنگھ


لیونارڈود ا ونسی (Leonardo Da vinci) کی شخصیت کے متعلق پڑھنے سے اس کی ذات سے متعلق پراسراریت کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے۔ اس کا بنایا ہوا مونالیزا کا پورٹریٹ چودھویں صدی کے اٹلی میں نسوانی جمالیات کے رجحان جاننے میں مدد دیتا ہے۔ کسی فن پارے کے عمرانی و نفسیاتی تجزیے سے اس فنکار کی شخصیت کے متعلق کچھ اصولوں کا استخراج کرنا، اس کے فن کی تفہیم میں آسانی دیتا ہے۔ نفسیاتی تنقیدکے ذریعے کسی ادبی تخلیق میں موجودکردار، واقعات اور دیگر جزئیات کے مطالعے سے تخلیق کار کی نفسی اساس کی دریافت اور تخلیقی صلاحیت کا بہتر اندازہ ممکن ہوتا ہے۔ جدید نفسیات کی روشنی میں ”لاشعور“ کے دخل نے فنکاروں کے طریقہ اظہار میں تبدیلی پیدا کردی ہے۔ سگمنڈ فرائڈکے نظریہ لا شعور اور ژونگ کے بمطابق اجتماعی لاشعور (collective unconciousness) کی روشنی میں افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کا مطالعہ سعادت حسن منٹو کے فن کی تفہیم میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔

افسانہ اپنے موضوع کے اعتبار سے تقسیم ہند کے المیے اور مابعد تقسیم رونما ہونے والے واقعات کا احاطہ کرتا ہے۔ سماجی و تاریخی حوالے سے یہ پہلو کافی بار زیر بحث آچکا ہے لہذا اس تحریر کا مقصد زیر غور کہانی کے کردار بشن سنگھ اور اس کے ظاہری رویوں کی تشکیل کرنے والے داخلی محرکات اور نفسی کیفیات کا احاطہ کرنا ہے۔

افسانے کا مرکزی کردار بشن سنگھ جسے پاگل خانے میں پندرہ برس ہوچکے ہیں۔ پاگل یا ذہنی طورپر متاثر شخص کے خیالات یا جذبات کامادی اظہار کسی شعوری پیشکش کا نتیجہ نہیں ہوتاہے۔ اس شخص کا لاشعور اس کے شعور پہ منجمد فلیش کی مانند غالب آچکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے افسانے میں بشن سنگھ کی زبان پر عجیب وغریب الفاظ کی تکراردکھائی گئی ہے۔ یہ عجیب و غریب الفاظ سگمنڈ فرائڈ  کے مجوزہ طریق کار تحلیل نفسی کی روشنی میں حافظے کی لغزش یا میموری لیپسز ہیں جنہیں فرائڈئین سلپ  بھی کہتے ہیں۔ سائیکو اینالسز یا تحلیل نفسی کے طریق کار کے مطابق اشاروں یا سوالات کے ذریعے اکساکرنفسیاتی مریض سے اظہار خیال کروایا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں مریض کچھ الفاظ یا جملے بڑبڑاتا ہے۔ ان غیرو اضح باتوں کا مریض کے ذاتی و سماجی کوائف سے موازنہ کرکے ربط پیدا کیا جاتاہے۔

”اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین“
افسانے کے مرکزی کردار بشن سنگھ کے یہ بظاہر لایعنی جملے دراصل اس کے اجتماعی لاشعورمیں سمٹے برصغیر کے اندر بولی جانے والی مختلف زبانوں کے مبہم امیجز  ہیں۔ جوبشن سنگھ کے لاشعور سے لفظوں کی قے کی صورت میں نکلتے ہیں۔ یہ لفظوں کا قے ہی بشن سنگھ کے اظہار کا واحد وسیلہ ہے۔ یہی اس کا کتھارسس ہے۔

بشن سنگھ برصغیر کے تہذیبی لا شعور کا مظہر ہے۔ وہ تہذیبی لا شعورکا حامل کردار جو مغلیہ سلطنت کو اپنی ترک شناخت اورفارسی زبان کے ساتھ بیساکھیوں کے سہارے کھڑا دیکھتا ہے۔ اس کے بعد جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کو پنجاب کے سنگھاسن پہ بیٹھا دیکھا تو پنجابی پرچار اور پگ پہ لگے قومیت کے داغ کو دھونے کی کوشش کرتا ہے اور دوسری جانب بازار میں مال بیچنے آنے والا اب انگریزی میں بحث کرنے لگا ہے۔ وہ بریک فاسٹ میں بلڈی انڈین چپاتی کی بجائے ڈبل روٹی کھانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس لسا نی میتھیمیٹکس سے ابھی نکلنے نہ پایا تھا کہ اخبار سے پتہ چلا کہ ہندی اور اردو کی بھی آپس میں بن پڑی ہے۔ تہذیبی ولسانی شناخت کے بحران کے بعد اب برصغیر جغرافیائی تغیر کی چاک پہ کوزے کی مانند گھوم رہا تھا اور ان سب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شے تھی،

”اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈپاکستان“

افسانے کے آخر میں بشن سنگھ شیزوفرینیا کی ایک خاص قسم کا مریض دکھایا گیا ہے۔ جب اسے سرحد پار جانے کے لیے ہدایات دی گئیں مگر وہ اپنی جگہ نہ چھوڑنے پہ مصر رہا اور ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس حالت کو شیزوفرینیا کی ایک قسم  کیٹاٹونیا کہتے ہیں۔ جس میں متاثرہ شخص اپنے جسم اور اعصاب کو اکڑا لیتا ہے۔ اس شخص کو اپنے اردگرد کے افراد سے عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے، لہذا وہ جہاں کھڑا یا بیٹھا ہوتا ہے اسی جگہ کو اپنے لیے عافیت جانتا ہے۔ اس تناظر میں نفسیات اور علم الادویہ کی روشنی میں منٹو کا افسانہ مزید نکھر کر سامنے آیاہے۔ شمس الرحمان فاروقی اسی ضمن میں کہتے ہیں کہ ”ادیب، مصور یا بت تراش کے وہ کارنامے جو دھندلکوں میں نقطہ بن کر چمٹ جاتے ہیں نفسیات کی روشنی سے حسین تخلیق بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ “

فرائڈ نے اپنے ایک لیکچر میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادیب خیال آرائی اور روزخوابی کے عالم میں اپنی محرومیوں کا مداوا تلاش کرتے ہیں مگر عام انسان اور ادیب میں فر ق یہی ہے کہ ادیب ان احساسات کو مسرت بخش جامہ پہنا کر آرٹ کی صورت میں ڈھال دیتا ہے۔ نفسیاتی حوالے سے افسانے کے کردار بشن سنگھ کا تجزیہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو اپنے عہد کی جدید نفسیات کے رموز سے بخوبی آگاہ تھے۔ فرائڈ، ژونگ اور ایڈلر کے بالترتیب لاشعور، اجتماعی لاشعور اور احساس کمتری جیسے مضامین کوافسانے کے قالب میں ڈھالنا سعادت حسن منٹو کے کمال فن کی خبر دیتا ہے۔

مونا لیزا کے خاکے سے لیونارڈو کی نفسی حالت کا بیان ہونا یا بشن سنگھ کے ذریعے منٹو کے ذہنی رجحانات سے پردہ اٹھ جانا، یہی امر آرٹ کو زندگی بخشتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).