فراڈ تو نہ کریں


آج دنوں بعد صبح سویرے دھوپ نکلی ہے۔ تیز، سنہری اور گرمائش سے بھرپور۔ گزرے ہفتے کی ابتدا سورج کی آنکھ مچولی سے ہوئی مگر پھر اس نے ایسی کہر کی چادر اوڑھی کہ ماحول کے ساتھ دل کے نہاں خانوں میں بھی تاریکی اتر آئی۔ جذبات بھی موسم کی طرح سرد پڑ گئے نہ کچھ کہنے کو دل چاہتا نہ سننے کو۔ دو حرف لکھنا گویا پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہو چکا تھا۔ یار لوگ ایسے موسم کو خوب انجوائے کرتے ہیں بلکہ سرمایہ و وقت برباد کر کے بالائی علاقوں میں پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔

یہ جاننے کے باوجود کہ سردی میں پرانی چوٹ پھر سے درد دینا شروع کر دیتی ہے۔ شاید یہ یقین ان کی بے فکری کی بنیاد ہو کہ ایسی چوٹوں کا شافی علاج آج موجود ہے اور سیکنڈز میں افاقے کے لیے پین کلر اسپرے بھی۔ مجھ ایسے کچھ درد دل سے مجروح مگر ایسے بھی ہیں جن کی چوٹوں کے لیے نہ کوئی دوا کارگر ہوتی ہے اور نہ دعا۔ ایسی ٹیسیں بس اندر ہی درد دیتی ہیں اور جسم کو سلگائے رکھتی ہیں تا آنکہ قدرت ہی اپنا رحم کرے۔ چند سال پیشتر ایسے ہی دنوں میں دل کو بہلانے کی خاطر چند نا مکمل افسانے اور کچھ مکمل غزلیں لکھیں، پھر اچانک ان سے بھی دل اچاٹ ہو گیا اور ایسا ہوا کہ دوبارہ ایسی کسی صنف پر طبع آزمائی پر مائل نہ ہو کر دیا۔ لفظوں سے مخاطب کو متاثر اور کاغذوں پر قلم کی گھسیٹا کاری سے ہوائی قلعے تعمیر کرنے کا چونکہ بچپن سے چسکا لگ چکا تھا، لہذا اس سے مکمل تو پیچھا نہ چھوٹا لیکن غالب کے کہے پر عمل کیا اور لفظوں کے انتخاب سے خود کو رسوا ہونے سے بچانے کی خاطر کرنٹ افیئرز تک قلم اور زبان کو محدود کر لیا۔

اپنے موضوع کی طرف پلٹنا ہی لہذا مناسب، حالیہ اہم واقعہ حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا ضمنی بجٹ ہے جسے وہ معاشی اصلاحاتی پیکج کہلوانے پر مصر ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے محظ پانچ ماہ کے دوران یہ دوسرا ضمنی بجٹ پیش کیا ہے، جواز یہ کہ معیشیت ورثے میں تباہ حال ملی سو اسے ٹریک پر چڑھانے اور رواں کرنے کے لیے کچھ خطرناک جھٹکے ناگزیر ہیں۔ مجوزہ مقصد میں کتنی کامیابی ملتی ہے یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا کم از کم یہ ضرور واضح ہے کہ حکومتی کارپردازان کو بھی یقین ہو چکا کہ انکلوژرز میں بیٹھ کر تبصرے تنقید کرنا اور مفت مشورے نوازنا بہت آسان جب کہ فیلڈ میں پرفارم کرنا مشکل۔ جیسے اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے اسی طرح محروم طبقے کے دکھ درد سمجھنا انقلابی حکومت کے معاشی افلاطون اسد عمر کی سمجھ سے آگے کی چیز۔ بنیادی طور پر وہ کارپوریٹ سیکٹر کے نمائندے ہیں اور ضمنی بجٹ میں بھی انہوں اس سیکٹر کے مفادات کے تحفظ کی مقدرو بھر کوشش کی۔

گذشتہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا، اس کے سامنے دو بڑے چیلنج تھے۔ ایک ملک میں چہار سو پھیلی دہشت کی فضا کا خاتمہ، دوسرا توانائی کے بحران پر قابو پانا۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ گذشتہ حکومت بہت سی روایتی اور غیر روایتی مشکلات کے باوجود ان امتحانات سے عہدہ برآ ہونے میں کامیاب رہی۔ یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں کہ اگر اس کے ماتحت ادارے کماحقہ تعاون نہ کرتے تو تنہا حکومت یہ بار گراں اٹھانے میں ناکام رہتی۔

موجودہ حکومت کو بھی اپنی ابتدا سے دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ یعنی ملک کی دگرگوں اقتصادی صورتحال میں بہتری لانا اور ملک کو درپیش پانی کی کمی کے مسئلے پر، جو دیگر تمام مسائل کی بنسبت مستقبل قریب میں قوم کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بننے والا ہے، قابو پانا۔ پچھلی حکومت بڑی حد تک اپنا ٹارگٹ صرف اس وجہ سے پورا کرنے میں کامیاب ہوئی کہ اس کی سوچ میں یکسوئی تھی اور غیر ضروری محاذ آرائی سے احتراز بھی۔ موجودہ حکومت کو اس وقت ریاستی اداروں کی جتنی سپورٹ حاصل ہے شاید ملکی تاریخ میں کسی سیاسی حکومت کو نہ ملی ہو۔

اس کے باوجود ابتدائی پانچ ماہ میں اسٹاک مارکیٹ کی ریکارڈ تنزلی، بازاروں کی ویرانی، شرح سود میں ریکارڈ اضافے، افراط زر اور ملکی کرنسی کی بے توقیری کی وجہ یہ ہے کہ، وزیران با تدبیر بیشتر نوجوان ہیں اور اشتعال سے بھرے ہوئے بھی۔ سرمائے کی نفسیات ہے افراتفری اور خوف کی فضا میں وہ ٹھکانہ چھوڑ جاتا ہے۔ یہاں کوئی روز ایسا نہیں گزرتا جب انتقام سے بھرپور در فنطنی سننے کو نہ ملے یا ہنگامہ دکھائی نہ دے۔

عوام کو علم ہونا چاہیے کہ انقلابی زبانوں کی شعلہ افشانی کے باعث اب گروتھ ریٹ 8۔ 2 کی سطح تک گر چکا ہے جو پچھلے سال مئی تک 8۔ 5 فیصد سالانہ تھا اور تمام عالمی ریٹنگ ایجنسیز توقع کر رہی تھی کہ معاشی پالیسیز میں تسلسل قائم رہا تو با آسانی اگلے سال سات فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ یاد رکھیں ملکی آبادی میں اضافے کی شرح بھی سالانہ 3 فیصد کے لگ بھگ ہے اس لیے گروتھ کی شرح کو منفی نہیں تو ختم سمجھیں۔ اسی طرح اس وقت شرح سود چھ فیصد سے کم تھی جو اب دس فیصد کی حد چھونے کے قریب ہے۔

مہنگائی کی شرح 2۔ 3 پر چھوڑی گئی تھی جو بڑھ کر آٹھ فیصد ہو چکی۔ صرف گزرے پانچ ماہ میں 1400 ارب کے نئے نوٹ چھاپے جس سے افراط زر بڑھا، واضح رہے اتنے نوٹ پچھلے پورے مالی سال میں نہیں نکالے گئے۔ بجلی کی قیمت میں بیس فیصد اضافہ ہوا، گیس تین گنا بڑھ گئی۔ سرکلر ڈیٹ میں روز بروز پھر بھی اضافہ جاری ہے۔ ایکسپورٹ کو سہارا دینے کے نام پر روپے کی قدر چالیس فیصد گرائی البتہ ایکسپورٹ میں تو پھر بھی اضافہ نہ ہوا لیکن مہنگائی کے تازیانے سے غریب عوام کی کمر ضرور ٹوٹ گئی۔ ملک کے ہر کونے میں بازار سنسان پڑے ہیں کاروباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی۔ یہاں تک دیہاڑی دار، پرچون اور سبزی فروش طبقے کے کاروبار بھی مندی کا شکار ہیں۔

بجٹ سازی کا مقصد کیا ہوتا ہے، اپنے اخراجات کی فہرست بنائی جائے اور انہیں پورا کرنے کے لیے آمدن کا جائزہ۔ پھر اگر آمدن اور اخراجات میں فرق نظر آئے تو اس مقدار کو کنٹرول کرنے کے لیے ذرائع آمدن مزید تلاش کیے جائیں۔ محولا بالا بجٹ کا مقصد بھی سننے میں یہی آیا تھا کہ ”دوست ممالک“ سے استعمال نہ کرنے کی شرط اور ساڑھے تین فیصد شرح سود پر حاصل کیے قرضے کے باوجود دو سو ارب مزید درکار ہیں۔ ہمارے ملک میں انگریزی فہم لوگ کتنے ہیں یہ سب کے علم میں ہے لہذا، مشکل انگریزی اصطلاحات میں اسد عمر صاحب نے قوم بجٹ تقریر میں قوم کو بتایا کہ ہم نے فلاں فلاں سیکٹر کو بالکل ٹیکس سے چھوٹ فراہم کر دی ہے، یہ اطلاع مگر نہیں دی کہ پھر بجٹ پیش کرنے کا مقصد یعنی ریوینیو کس طرح جنریٹ ہوگا۔

بھولے عوام کو خبر ہو کہ یہ تمام چھوٹ کارپوریٹ سیکٹرز کے لیے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر آٹو موبائل انڈسٹری کے دباؤ پر تھوکا چاٹتے ہوئے نان فائلرز پر گاڑیوں کی خریداری پر عائد قدغن ختم ہو چکی۔ اب لا محالہ مذکورہ رقم جس کی خاطر یہ محفل جمی تھی بتدریج غریب عوام پر بالواسطہ محصولات میں اضافے کے ذریعے پوری کی جائے گی۔ انقلابی حکومت سے دست بستہ التماس ہی کی جا سکتی ہے اگر کوئی ریلیف نہیں فراہم کر سکتے تو عوام کو درست حقائق تو کم از کم بتادیں کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کا مزید ہوشربا طوفان آنے والا ہے تاکہ اس صدمے سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).