خاص لوگوں کی باتیں


آج ایک صاحب سے ملنا تھا، ان سے فون پر پوچھا کہاں آؤں، بولے آپ کہاں ہیں، بتایا کہ انارکلی کے اشارے پر۔ کہنے لگے پاک ٹی ہاوس ہی مل لیتے ہیں آپ پہنچیے، میں بس آیا۔ میں نے پاک ٹی ہاوس کے سامنے پارکنگ میں گاڑی پارک کی اور ٹی ہاوس کے دروازے پر سگریٹ سلگائے کھڑا ہو گیا، سوچا اندر جانے سے پہلے ذرا ایک سگریٹ ہی پی لوں۔ مغرب سے ذرا پہلے کا وقت تھا۔ شائد جمعہ کے دن کی وجہ سے مال روڈ پر ٹریفک کم اور بھلی معلوم ہو رہی تھی۔

ابھی بمشکل دو یا تین کش ہی لگائے ہوں گے کہ یکا یک الیکٹرک وہیل چئیر پر سوار ایک دبلی پتلی لڑکی فٹ پاتھ سے ہوتے ہوے پاک ٹی ہاوس کے دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ دروازہ پر کوئی وہیل چئیر ریمپ (wheelchair ramp) نہیں تھا۔ میں تجسس سے دیکھنے لگا کہ یہ کیسے اندر جائے گی۔ ابھی اسی تجسس میں تھا کہ اس نے مجھے کہا کہ وہیل چئیر اٹھا کر اندر کر دیں۔ میں نے فورا سگریٹ پھینکا اور یہ سوچتے ہوے وہیل چئیر کی جانب لپکا کہ اسے کہاں سے پکڑ کر اٹھاوں کہ وہیل چئیر بھی اندر چلی جائے اور لڑکی بھی نہ گرے۔

شاید میری اس کشمکش کو بھانپ کر وہ مسکراتے ہوے بولی کہ اندر سے کسی کو بلا لیں۔ اس کی یہ بات مجھے کچھ مناسب لگی اور میں فورا اندر سے ایک ویٹر کو بلا لایا۔ لڑکی نے ہمیں طریقہ سمجھایا کہ ویٹر وہیل چئیر کے اگلے پہیے سے اٹھائے اور میں پیچھے لگے ہوے ہینڈلز سے۔ ہم دونوں اناڑی حکم کی تعمیل کرنے لگے اور لڑکی بڑبڑانے لگی کہ پتہ نہیں کب accessible بنائیں گے عمارتوں کو یہاں۔ میں فورا بولا کہ کم از کم پاک ٹی ہاوس کو تو ضرور accessible ہونا چاہیے۔ لڑکی اپنی وہیل چئیر سمیت اندر آچکی تھی اور اب ہماری مدد کی محتاج نہ تھی۔

میں اسے بتانے لگا کہ یورپ میں تو وہیل چئیر پر بیٹھا شخص اپنے گھر سے نکل کر بغیر کسی کی محتاجی کے سفر کرسکتا ہے، بلڈنگز میں جاسکتا ہے اور قدرے سہولت کے ساتھ اپنے کام کاج نمٹا لیتا ہے۔ وہ بتانے لگی کہ وہ بھی یہاں یہی جدوجہد کر رہی ہے کہ آج جن مشکلات کا اسے اور اس جیسے دیگر افراد کو سامنا ہے کل آنے والے ایسے لوگوں کو ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ اکثر یہاں آتی ہے۔ اس نے بتایا کہ نہیں وہ پہلی بار آئی ہے۔ اسے خصوصی افرد کے حوالے سے وہاں ہونے والی ایک میٹنگ میں مدعو کیا گیا تھا۔ میٹنگ 6 بجے شروع ہونی تھی اور جن صاحب سے مجھے ملنا تھا وہ بھی ابھی نہیں پہنچے تھے۔ لہذا مجھے اس سے کچھ باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔

تمام گفتگو کے دوران وہ مسلسل مسکراتی رہی اور بارہا ہنساتی رہی۔ اسے میری بیٹیوں کے نام بہت یونیک لگے۔ اس نے بتایا کہ اسے بچے بہت پسند ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کے کیسے اس نے سپیڈو بس میں معذور افراد کو سوار نہ کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور بالآخر انتظامیہ کو خصوصی افراد کے لیے سفری سہولیات کا بندوبست کرنا پڑا۔ اور یہ کہ اب بہت سے خصوصی مرد و خواتین اس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور وہ اب تک تقریبا 15 ایسے افراد کے لیے مینوئل وہیل چئیرز کا بندوبست بھی کر چکی ہے۔ وہیل چئیرز کا بندوبست کرنے میں اس کی ترجیح معذور خواتین ہوتی ہیں۔

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ الیکٹرک وہیل چئیر تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے کی اور امریکن مینوئل وہیل چئیر تقریبا 15000 روپے میں نیلا گنبد سے مل جاتی ہے۔ ہسپتالوں والی وہیل چئیرز کو بازو اونچے ہونے کی وجہ سے عام استعمال کے لیے وہ مناسب نہیں سمجھتی۔ اس نے بتایا کہ ایک بہتر الیکٹرک وہیل چئیر جس پر 20 میل تک کا سفر ممکن ہوتا ہے تقریبا 250000 روپے میں ملتی ہے۔ اس کے پاس 20 میل والی الیکٹرک وہیل چئیر بھی ہے تو سہی لیکن آج کل خراب ہے۔

مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ پاکستان میں الیکٹرک وہیل چئیرز کی مرمت کا کہیں بھی کچھ خاص انتظام نہیں۔ اسے اپنی وہیل چئیر کی مرمت کے لیے لمز کے کچھ سٹوڈنٹس کی مدد لینا پڑتی ہے۔ ان سٹوڈنٹس نے سپیشل وہیل چئیرز کے کچھ پراجیکٹس کیے ہوے ہیں۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ضرورت پڑنے پر وہ سٹوڈنٹس مرمت میں ہمیشہ بخوشی اسکی مدد کرتے ہیں۔

تصور کیجیے کہ ایک خاتون، پھر معزور اور پھر پاکستان میں۔۔۔! لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے وہ اعتماد سے بھرپور اور ایک پرعزم لڑکی لگی جس کی باتوں اور مسکراہٹ میں کہیں بھی کوئی احساس محرومی نہیں تھا۔ اس کے پاس یہ وہیل چئیر چند برس پہلے ہی آئی ہے اور بقول اس کے اس نے اس کی زندگی بدل دی ہے ورنہ تو اسے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ چاند رات کیسی ہوتی ہے اور اس رات بازار کیسے لگتے ہیں۔ مارچ میں اس کی سالگرہ آتی ہے اور پچھلے سال سے وہ اب اپنی سالگرہ بھی منانے لگی ہے۔ وہ صاحب جن سے مجھے ملنا تھا پہنچ گئے میں آٹھ گیا اور اس سے اجازت چاہی۔ اس نے جلدی سے اپنے بیگ میں سے ایک “پان بہار” نکالی اور میری طرف بڑھائی اور کہا کہ یہ آپ کے لیے۔ میں نے قبول کی اور شکریہ ادا کیا۔

واپسی پر سارا راستہ یہی سوچتا آیا کہ کیسے لوگ ہیں ہم کہ پارکس اور پبلک عمارتوں کو خصوصی افراد کے لیے accessible  بنانے کا سوچتے تک نہیں۔ مستقل ریمپ نہیں بنا سکتے تو portable ramps رکھنے تک کی زحمت نہیں کرتے کہ ضرورت پڑنے پر لگایا جا سکے اور بعد میں پھر بھلے ہٹا لیا جائے۔ لیکن پھر اس کی بات یاد آئی کہ ریمپ کو کیا رونا یہاں تو آزادانہ نقل وحرکت کے لیے لوگ مینوئل وہیل چئیرز کو ترس رہے ہیں جو کہ تقریبا 15000 روپے میں نیلا گنبد لاہور میں دستیاب ہوتی ہے۔

اس باہمت لڑکی کا نام عائشہ ملک ہے۔ اس کی ٹائم لائین پر خصوصی افراد، ان کی زندگی اور مسائل کے بارے میں چیزیں پوسٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اگر آپ میں سے ان ایشوز کو جاننے اور سمجھنے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہو تو اسے فالو کر سکتا ہے۔ اسی طرح خصوصی افراد کے لیے کوئی ایکٹویٹی کا اہتمام کرنا چاہیں یا پھر نیلا گنبد سے ایک وہیل چئیر خرید کر کسی منتظر کو گفٹ کرنے کا موقع حاصل کرنا چاہیں تو اس میں بھی عائشہ آپ کی مدد کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).