عمران خان: تارکین وطن کو لوٹا جا رہا ہے


یورپین ممالک میں جانے والے اکثر پاکستانی غیرقانونی طریقوں سے یورپ پہنچتے ہیں اور وہاں جا کر طویل جدوجہد کرنے اور بھوک اور تکالیف دیکھنے کے بعد ان ممالک میں سکونت کے کاغذات حاصل کرتے ہیں۔ کچھ پاکستانی تو ایجنٹوں کے ساتھ ڈنکی لگا کر جاتے ہیں اور کئی ممالک کی بارڈرز اپنی جان خطروں میں ڈال کر کراس کرتے ہیں اور اپنی منزل یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔ کئی راستوں میں بارڈر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں، کئی بے رحم سمندری موجوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور کئی ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں اور بڑی مشکل کے ساتھ کچھ لوگ ہی یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

یورپ پہنچنے کے لئے دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ ترکی یا سائپرس کا ویزہ لے کر وہاں چلے جاتے ہیں اور محنت مزدوری کرتے ہوئے اگر کبھی کوئی جگاڑ لگے تو یورپ میں داخل ہو جاتے ہیں اور اٹلی، جرمنی وغیرہ میں پہنچ کر وہاں پر سکونت کے لئے کاغذات جمع کروا دیتے ہیں۔ یہ قدرے محفوظ اور بہتر راستہ شمار کیا جاتا ہے تاہم دونوں طریقوں سے مقصد یورپ پہنچ کر اپنے پاکستان میں مقیم خاندان کی غربت دور کرنا ہی ہوتا ہے۔

ایسے ہی ایک عزیز گزشتہ دنوں اٹلی سے پاکستان آئے۔ غیرقانونی طریقہ سے ڈنکی کے ذریعے کئی سال قبل اٹلی پہنچنے والے اس نوجوان کو اٹلی میں سکونت کے کاغذات مل گئے تھے جبکہ پاکستانی پاسپورٹ بھی اٹلی پہنچنے کے بعد ہی مل پایا تھا لہذا پاسپورٹ پر پاکستان سے بیرون ملک جانے کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ وہ عزیز اٹلی سے تمام قانونی لوازمات پورے کرنے کے بعد پاکستان پہنچے۔ اٹلی میں انہیں کسی نے نہیں روکا اور نہ ہی ان سے پیسے طلب کیے گئے مگر جیسے ہی اسلام آباد ائیرپورٹ پر وہ اترے، ایف آئی اے اہلکاروں نے اس نوجوان کو روک لیا اور اعتراض لگایا کہ آپ کے پاس پاسپورٹ پر اٹلی جانے کا ثبوت نہیں ہے لہذا آپ کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نوجوان کے مطابق ایف آئی اے کی ہی ایک باریش شخصیت نے نوجوان کو سائیڈ پر کر کے بتایا کہ پاسپورت میں دس ہزار روپے رکھ کر دے دو تو تمہیں اجازت مل جائے گی لہذا نوجوان نے پیسے رکھ کر دیے اور تمام قانونی پیچیدگیاں ختم ہو گئیں۔ وہ نوجوان میرپور آزادکشمیر پہنچا اور ایک ہفتے بعد واپس روانہ ہوا تو اسے جہاز میں سے اتار لیا گیا اور ایک بار پھر روک کر اس سے پیسوں کا مطالبہ کیا گیا۔ نوجوان نے اپنے گھر سے 40 ہزار روپے منگوا کر ایف آئی اے کے افسران کو تھمائے اور اٹلی چلا گیا۔

اسی طرح کا دوسرا واقعہ بھی میرپور کے ہی ایک شہری کے ساتھ پیش آیا۔ نوجوان قانونی طریقہ سے سائپرس گیا تھا اور سائپرس میں کئی سال محنت مزدوری کے بعد وہ جرمنی چلا گیا۔ نوجوان نے جرمنی میں سکونت کے لئے اپلائی کیا اور اسے وہاں کے کاغذات مل گئے۔ جرمنی ائیرپورٹ پر نوکری بھی مل گئی۔ شادی کے لئے نوجوان پاکستان آیا اس کے پاس 10 سال پہلے بنایا گیا پاسپورٹ جس پر وہ سائپرس گیا تھا موجود نہیں تھا جو نوجوان کے مطابق اسے یاد نہیں رہا تھا کہ ساتھ چاہیے ہے لہذا وہ پاسپورٹ جرمنی میں ہی رہ گیا تھا۔

نوجوان جب اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچا تو اسے ایف آئی اے اہلکاروں نے روک لیا اور پرانا پاسپورٹ دکھانے کا کہا جس پر نوجوان نے کہا کہ میرے پاس یہ دو پاسپورٹ موجود ہیں، جو پاکستان کے ہی سفارت خانے سے بنے ہیں پرانا پاسپورٹ جرمنی رہ گیا ہے جو میں آپ کو منگوا کر دکھا سکتا ہوں۔ کافی دیر تک ائیرپورٹ پر روکے رکھنے کے بعد ایک باریش شخصیت جو ایف آئی اے کے ہی اہلکار تھے نے نوجوان سے کہا کہ پاسپورٹ میں کچھ پیسے رکھ کر دے دو تمہارا کام ہو جائے گا۔

نوجوان نے صرف 20 یورو اس پاسپورٹ میں رکھ کر دیے جس کے بعد تمام قانونی پیچیدگیاں ختم ہو گئیں اور نوجوان ائیرپورٹ سے جان چھڑا کر گھر پہنچا۔ اس نوجوان نے یہاں شادی کرنے کے بعد ایک ماہ رکنا ہے اور پھر واپس جرمنی جانا ہے اور یقین ہے کہ جب وہ جرمنی کے لئے اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچے گا تو ایک بار پھر اسے قانونی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جرمنی بروقت پہنچنا نوجوان کی اپنی مجبوری ہے لہذا اسے شاید پچاس ہزار رشوت دے کر جان چھڑانا پڑے۔

یہ واقعات چوہدری نثار علی خان کی وزارت داخلہ کے دور میں ختم ہو گئے تھے اور احسن اقبال کے دور میں بھی ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لئے سخت پالیسیاں اپنائی گئیں تھیں یہی وجہ تھی کہ اس دور میں بہت کم ایسے واقعات سننے کو ملتے تھے مگر میرے ہی شہر کے دو نوجوان صرف ایک ہفتے میں ائیرپورٹ پر لوٹ مار کا شکار ہوئے ہیں جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سارے پاکستان میں تارکین وطن کو کیسے ائیرپورٹس پر خوش آمدید کہا جا رہا ہو گا اور کتنے لوگوں کو اس طرح لوٹا جا رہا ہو گا۔ موبائل لانے پر ٹیکس کے نام پر الگ رشوت لئے جانے کی باتیں زبان زد عام ہیں۔

تارکین وطن پاکستانی چاہے وہ یورپ میں ہیں، امریکہ میں ہیں یا پھر مشرق وسطیٰ میں، عمران خان کے لئے ان لوگوں نے بڑی محنت کی ہے، شوکت خانم کینسر ہسپتال کے چندوں سے لے کر نئے پاکستان کے قیام تک ان لوگوں کا پیسہ، وقت اور لگن کارفرما تھی۔ ہمارے مہان وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو چاہیے کہ ان لوگوں کے ساتھ ہونے والی لوٹ مار کو روکیں کیونکہ یہی لوگ باقی بچے ہیں جو ابھی تک آپ کی تبدیلی کے ساتھ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).