ایتھنز کے آسٹرے سیزم کی جگہ نیا قانون


کہتے ہیں کہ تقریباً پانچ سو برس قبل مسیح میں یونان کے شہر ایتھنز میں ”آسٹرے سیزم“ کا ایک رواج موجود تھا جس کے تحت شہر والے اپنے رہنما یا اہم فرد کی کسی عہدے پر مسلسل موجودگی سے تنگ آجاتے تو آسٹرے سیزم کے ذریعے اُسے دس برس کے لئے جلاوطن کر دیتے۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ سال کے دسویں مہینے کے چھٹے دن آسٹرے سیزم کرنے کا اعلان کیا جاتا۔ تمام شہری ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑوں کو ووٹ کی پرچی کے طور پر استعمال کرتے اور اُن پر اپنے ناپسندیدہ فرد کا نام کندہ کرتے۔

جب تمام شہری یہ کر لیتے تو شہر کا پریزائڈنگ افسر ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑوں کو دیکھ دیکھ کر مختلف ناموں کی ڈھیریاں لگاتا۔ جس نام کی ڈھیری سب سے بڑی ہوتی اُس کے ٹکڑوں کو بطور ووٹ گنا جاتا۔ آسٹرے سیزم کے لئے اُس فرد کے خلاف کم از کم 6 ہزار ووٹ پڑنا ضروری تھے۔ جس پر بھی آسٹرے سیزم ثابت ہو جاتا اُسے اگلے دس روز میں شہر کو چھوڑ دینا لازم ہوتا۔ اگر وہ خود دس برسوں سے پہلے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اُس کی سزا موت قرار پاتی۔

البتہ ایتھنز کی اسمبلی یا جیوری ضرورت پڑنے پر آسٹرے سیزم کے تحت جلاوطن فرد کو واپس بلا سکتی تھی۔ تاہم اُس کی جلاوطنی کے دوران اُس کے عہدے میں کمی نہ کی جاتی، اُس کی جائیداد پر قبضہ نہ کیا جاتا اور نہ ہی پراپیگنڈے کے ذریعے اُسے بدنام کیا جاتا۔ قدیم یونان پر تحقیق کرنے والے برطانیہ کے مشہور سکالر ”پی جے روڈز“ نے آسٹرے سیزم کو ”باوقار جلاوطنی“ لکھا ہے۔ ہسٹری کی کتابوں سے مندرجہ بالا حقیقت پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ جب سے انسانی معاشروں میں فلاحی حکومت کا تصور منظر عام پر آیا اس وقت سے ہی دو مسائل کا سامنا رہا ہے۔

پہلا یہ کہ جو شخصیات حکومت کا حصہ ہوتی ہیں ان کے اندر اپنی حکومت کو طول دینے کی خواہش موجود رہتی ہے۔ اس کی وجہ اختیارات کا نشہ یا حکومتی سہولتوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوسکتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کی عوام ایک ہی شخصیت یا ایک طرح کی شخصیات کو لمبے عرصے تک حکومت میں دیکھ کر تنگ آجاتے ہیں۔ اس کا سبب اُن حکومتی اراکین کا لمبی مدت تک طاقتور اختیارات کے باعث بدعنوانیوں میں مبتلا ہونا یا عوامی انسانی نفسیات ہوسکتی ہے۔

اختیارات کے باعث بدعنوانیوں میں مبتلا ہونے کا مطلب تو واضح ہے۔ البتہ عوامی انسانی نفسیات کا نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی جب انسان کسی کو مسلسل دیکھتا رہے اور اس کی جگہ جلد نئے آنے کی امید بھی نہ ہو تو ایک خاص عرصے کے بعد انسانی نفسیات اُس سے بیزار ہو جاتی ہے، خواہ وہ اُس انسان کے لئے ویسے ہی فائدے مند کیوں نہ ہو جیسے کہ وہ شروع میں تھا اور انسان نے اُس کو پسند کرکے قبول ہی کیوں نہ کیا ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ایک ہی جگہ پر ایک ہی طرح کے انسانوں کے ساتھ بہت لمبے عرصے تک کام کرتا رہے تو وہ اس روٹین سے اُکتا جاتا ہے جس کے بعد ہمیں یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ایک ہی طرح کے چہرے روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

گویا انسانی نفسیات میں نئی چیز کی خواہش فطری اور لازمی ہے۔ یہی فطری نفسیاتی خواہش عوام لمبے عرصے تک قائم رہنے والے حکمرانوں کے خلاف بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ اسی انسانی نفسیات کے تحت عوام چاہتے ہیں کہ اُن کے حکمران بدلتے رہیں۔ مسلسل مسلط رہنے والے حکمرانوں سے جان چھڑانے کے لئے پرانے یونانیوں کے مندرجہ بالا آسٹرے سیزم والے طریقے کے پیچھے بھی ایک وجہ مذکورہ انسانی نفسیات ہی تھی۔ جدید ہوتی دنیا میں آسٹرے سیزم کے طریقے کا متبادل انتخابات اور حکومت کی مدت کے تعین کی شکل میں ڈھونڈ لیا گیا۔

اس عمل میں بھی شخصیات نے لمبی مدت تک حکومت میں رہنے کے کئی راستے تو تلاش کر لئے مگر پرانی چیز کی جگہ نئی چیز والی خواہش کی عوامی انسانی نفسیات نہ بدل سکے جس کے باعث حکومتوں کی تبدیلی کے غیر جمہوری، سازشی اور بدامنی والے طریقے اپنائے جانے لگے۔ پاکستان میں بھی یہی کشمکش شروع سے جاری ہے۔ سابقہ 70 برسوں میں ایک بھی حکومت ایسی نہیں جو اپنی مدت مکمل کرسکی ہو۔ تاہم 2008 ء سے 2018 ء تک دو اسمبلیوں نے اپنی مدت ضرور مکمل کی لیکن ان کے اندر بھی مخصوص شخصیات کی حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کرسکیں۔

پاکستان کے حوالے سے ایک جیسے چہروں سے بیزار ہوجانے والوں میں عوام سے زیادہ کچھ دوسرے لوگ جلدی بیزار ہو جاتے ہیں اور عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر حکومتی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پسندیدہ حکومتی چہرے لانے کے لئے انسان کو بندر اور بندر کو انسان بنانے کے سب تجربے کیے جا چکے ہیں لیکن اب بھی ایک ہی چہرے کی حکومت کا پانچ برس تک ٹھیک ٹھاک چلتے رہنا بہت مشکوک نظر آتا ہے۔ مضبوط ہاتھوں کے ذریعے حکومتی تھیٹر میں ایک ہی کردار کے لئے اداکار بدلنے کی بجائے اگر اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے قوانین میں ایک تبدیلی کر لی جائے تو چہروں میں مسلسل تبدیلی آتی رہے گی جس سے عوام کی نئی چیز والی نفسیاتی خواہش اور پرانی چیز کو سبق سکھانے والی کچھ دوسرے لوگوں کی ضد بھی پوری ہو جائے گی۔

اس ضمن میں تجویز یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی اپنی زندگی میں کل ملا کر صرف دو مرتبہ کسی بھی اسمبلی یا سینیٹ کا رُکن منتخب ہو۔ بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ میں کوئی بھی دو مرتبہ سے زائد امریکی صدر نہیں بن سکتا۔ مثال کے طور پر مریم نواز کے ابھی مڈل ایج ہونے اور بلاول بھٹو کے ابھی نوجوان ہونے کے باعث اُن کے سامنے باربار منتخب ہونے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اِن دونوں کے لمبے عرصے تک انتخابی عمل میں رہنے سے عوامی انسانی نفسیات اور کچھ دوسروں کی تجربوں والی خواہش میں بیزاری پیدا ہوگی اور اِن سے چھٹکارے کے لئے اِن کے آباؤ اجداد سے چھٹکارے والے طریقے ہی اپنائے جائیں گے۔

اگر آئین میں درج انتخابات میں شرکت کی اہلیت کے قانون میں ترمیم کردی جائے تو مریم نواز، بلاول بھٹو یا کوئی اور دو مرتبہ سے زیادہ منتخب ہی نہیں ہوسکے گا۔ یوں اپنے دیسی آسٹرے سیزم کے ذریعے ناپسندیدہ سیاست دانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انہیں پھانسی چڑھانے، جلاوطن کرنے یا نیب کے حوالے کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی اور ہمارے دیسی آسٹرے سیزم کی جگہ مناسب نیا قانون آجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).