جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگے


کل اپنی بیٹی کو لائبریری لے کر گئی۔ لائبریری کے سامنے ہی ٹم ہارٹن ہے جو کینیڈا کی سب سے مصروف کافی شاپ ہے۔ واپسی پر بیٹی نے کہا چلیں ٹم ہارٹن چلتے ہیں۔ میں نے کہا چلو۔ یوں تو عا م طور پر ماں بیٹی کافی پیتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن میری توجہ میرے عقب میں بیٹھے ہوئے مرد اور عورت کی باتوں پر مبذول ہو گئی۔ دونوں آفس کولیگ لگ رہے تھے جو کافی بریک میں کافی پینے آئے تھے لیکن انتہائی دلچسپ باتیں کر رہے تھے۔ میں نے سوچا لکھ دیتی ہوں شاید کسی کے کام آ جائیں۔ باتوں سے پتہ لگا کہ عورت کا نام ساوتری اور مرد کا نام یوگی ہے۔ اب میں زیادہ تمہید نہیں باندھوں گی آپ بھی پڑھیں اور سوچیں کہیں ایسے کردار ہمارے بہت قریب تو نہیں۔

یوگی :بیوی کے سر میں درد کیوں ہوتا ہے؟ ٹھیک سوتے وقت۔ صبح ٹائم سے کیوں آفس آنا ہوتا ہے؟ سر میں رات میں کیوں سرسوں کا تیل لگایا جاتا ہے؟
ساوتری : تا کہ میاں پھسل جائے۔

یوگی : سردیوں میں نہانے سے کیوں موت آتی ہے؟
ساوتری : اور سوچو۔

یوگی: پیار بھری باتیں کرتے ہوئے، گروسری کیوں یاد آتی ہے۔
ساوتری : یار یہ تو میرے پتی کا بھی مسئلہ ہے۔

یوگی : دیپا کی بیٹی بھاگ گئی اس سے پتی کا کیا تعلق؟ سامنے والی پڑوسن کی بہو روٹھ کر میکے چلی گئی اس سے پتی کا کیا لینا دینا۔
ساوتری : جب میں لائن کرواؤں تو کہتے ہیں آ ج گھر میں ہر جگہ تمھارے بال پڑے تھے ویکیوم لگایا کرو روز۔ کھانے میں نمک تیز تھا سارے مسئلے اسی وقت یاد آ تے ہیں۔

یوگی : میری پتنی کو سارے ادھار والے پیسے یاد آتے ہیں جب ہم مل کر بیٹھتے ہیں۔ آپ نے میرے اتنے پیسے دینے ہیں۔
ساوتری : میرے پتی کو سیاسی امور۔ جب ذرا قریب ہو کر بیٹھوں سیاست پر ڈسکشن شروع ہو جاتی ہے۔

یوگی :کمیٹی پارٹی پر جس دن جانا ہوتا ہے تو پہچانی بھی نہیں جاتی۔ ورنہ روزہیما ماسی بنی پھرتی رہتی ہے۔ تیل لگا ہوا۔ ٹائٹ جوڑا بنا ہوا۔
ساوتری : میرے پتی کی ایک ییلو شرٹ ہے اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ میں تو پوچا بناؤں گی اس شرٹ کا۔

یوگی :لان کے وہی کپڑے۔ دیش کی آبادی کی طرح پھیل رہی ہے۔ پھر پوچھتی ہے میں موٹی تو نہیں لگ رہی۔
ساوتری : تمھاری پتنی سمارٹ ہے جھوٹے۔

یوگی : حلوہ پوری کے ساتھ ڈائٹ پیپسی نہ ملے تو ویٹر سے پھڈا۔ پھر بولتی ہے آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔
ساوتری : پہلے کیا کرتے تھے؟

یوگی : مجھ کو یاد ہے پہلے پیار کے دوران کسی کو چھت پر لگا گندا پنکھا یاد نہیں آتا تھا۔ ہائے پنکھا کتنا گندا ہو گیا ہے ناں۔ گئی بھینس پانی میں رومینس کی۔ اب بولتی ہے اگلے جنم میں بھی مجھ کو مانگو۔
ساوتری : میرے پتی کو بھی میرے سارے گھر گر ہستی کے سبق اسی وقت یاد آ تے ہیں۔

یوگی۔ میں ساتوں جنم میں آپ کی پتنی بنوں گی۔ ہے ناں؟ سارا موڈ غارت۔ میں کوئی سلیم، کلیم ہوتا تو حوروں کا ہی کوئی آسرا ہوتا۔ اب تو وہ بھی نہیں۔ کتنے بھاگوان ہیں سلیم کلیم۔ یہاں تو ساری حوروں پر بھی پابندی لگ گئی۔ اب پھر وہی بل اور گروسری۔

ساوتری : کئی بار تو اسی وقت کچن کی صفائی شروع کر دیتی ہوں۔ پتی پتنی کا رومانس شاید ایسا ہی ہوتا ہو۔ جب شادی نہیں ہوئی تھی تو ویلنٹائن ڈے کا ہی پتہ تھا اب تو بس چائے دے، روٹی دے، جینے دے۔

یوگی : و یسے ایک بات ہے میری پتنی کا بھائی، ابو اور رشتہ دار سب بہترین لوگ ہیں۔
ساوتری : میں تو چڑ جاتی ہوں ہیپی کپلز کی تصویر یں دیکھ کر فیس بک پر۔
یوگی : ہیپی کپلز تصویر میں ہی ہوتے ہیں
ساوتری : پتہ نہیں۔

یوگی : مجھکو بھی سامنے مشرا صاحب کی بیوی بہت پسند ہے۔ بینکاک جانے کو بھی جی چاہتا ہے۔ مگر سُنا ہے وہاں جانے سے نرکھ میں چلے جاتے ہیں اور پتنی کے ساتھ کو ترستے رہ جاتے ہیں۔ فیصلہ کرنا ہے کہ ترسیں یا نرکھ ہو آئیں۔
ساوتری : ترسنا ہی ٹھیک رہے گا۔ اس کی تو عادت ہے۔ نرکھ پتہ نہیں کیسا ہو؟ ویسے تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟

یوگی : شرم کیسی، میں شمالی لڑکا ہوں۔ شرم کیسی۔ فلموں میں ہیرو پیار کرتا ہوا نظر آیا۔ پتنی بولی دیکھا کیسے پیار کر رہا ہے اپنی پتنی کو آپ تو ایسا نہیں کرتے۔ میں نے بولا۔ اس کو پیار کرنے کے پیسے مل رہے ہیں۔ مجھ کو بھی ملیں میں بھی ایسے ہی پیار کروں گا۔ آزمائش شرط ہے۔ پھر سے بولی، بولا تھا ناں آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔

ویسے تم سے بات کر کے ہمیشہ دل ہلکا ہو جاتا ہے یہ بات کل انوشکا پڑوسن کو بھی بولی تھی وہ بہت خوش ہوئی۔
ساوتری : مجھے بھی تم سے یہی کہنا تھا۔ می ٹو۔

ڈس کلیمر:
اس کہانی کے دونوں کردار اتفاقیہ مضمون نگار کے ریڈار کی زد میں آ گئے۔ ۔ اتفاقیہ مماثلت کی میں قطعاً ذمہ دار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).