راولپنڈی میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی صورت حال


پچھلی حکومتوں میں ایسے منصوبے اور وارداتوں کو کاغذوں میں متعارف کروایا گیا کہ نظام میں بہتری خاک آنی تھی، مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ ماڈل ٹاون سانحہ سے لے کر سانحہ ساہیوال تک کی بھیانک کارروائی کے بعد اس بات کا یقین پختہ ہو چلا ہے کہ نظام صرف نعروں میں بدلتا ہے، عملی طور پر نصاب وہی چل رہاہے جو کہ پچھلے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ تبدیلی کے پرچار میں بھی ساہیوال میں وہی ہوا ہے جو کہ نواز لیگی قیادت کے خادم اعلی کے طاقت کے نظام میں ماڈل ٹاون سانحہ میں ناقابل یقین قتل وغارت ہوئی تھی۔

سانحہ ساہیوال کی کارروائی میں اندازہ کریں، ایک خاندان کو چوک میں دن دیہاڑے گولیوں سے بھون دیا گیا ہے، کار میں بچوں اور عورتوں کی موجودگی کو بھی لمحہ بھر کے لئے آڑے نہیں آنے دیا گیا بلکہ بچوں اور عورتوں کی موجودگی میں کارروائی کو اور تیزکر کے بدترین قتل وغارت کی مثال قائم کی گئی۔ ادھر حکومت اور اس کے وزیروں، مشیروں نے اندھا دھند محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی کارروائی کے حق میں وہ قلابے ملائے ہیں کہ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے لیکن وہ ہیں کہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے ایک کے بعد ایک بیان داغنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں پیچھے مڑ کر دیکھنے پر تیار نہیں ہیں۔

قوم تو ساہیوال سانحہ میں صدمہ میں تھی ہی لیکن حکومت کی سانحہ ساہیوال پر کی گئی بیان بازی کی واردات نے دکھی خاندان اورقوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کا کام کیا ہے۔ لوگوں کو ابھی تک اس بات پر یقین نہیں آ رہا کہ حکومت ایسے قاتلوں کی صفائیاں پیش کرنے کے لئے کیوں بے چین تھی جو کہ پورے ملک میں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد خوف پھیلانے اور پولیس نظام کو زمین بوس کرنے کے مرکزی کردار تھے۔

ابھی تک سمجھنے کی کوشش ہورہی ہے کہ آخر وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج سارے کام چھوڑ کر محکمہ انسداد دہشت گردی کے لئے اپنی خدمات بلامعاوضہ کیوں فراہم کر رہی تھی؟ اتنے بڑے سانحہ پر آخر محکمہ انسداد دہشت گردی کی قیادت کے لئے سہولت کار کا کردار کیوں ادا کیا گیا ہے؟ قیامت خیز سانحہ پر ان کو اتنی دیر قانون کا سامنا کرنے سے کیوں دور رکھا گیا ہے؟ ایسے دوسرے سانحہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اس راز سے پردہ اٹھنا چاہیے اور قوم کو ان سارے سوالوں کا جواب ملنا چاہیے جو کہ ساہیوال سانحہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔

پچھلی حکومتوں نے کاغذی کارروائیوں میں پولیس سمیت دیگر محمکوں بالخصوص تعلیم کے شعبہ میں بھی بہتری کی بجائے بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور کوئی اس بات کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں ہے کہ نوازلیگی دور حکومت میں جب تخت لاہور پر شہبازشریف براجمان تھے، اس وقت پنجاب میں محمکہ تعلیم میں ڈویثرنل ڈائریکڑ (ای ای) بنانے کا شاہی حکم صادر ہوا جب کہ پہلے موجود نظام میں کوئی ایسی خرابی نہیں تھی کہ ایک اور اتھارٹی بنا کر تعلیم کے شعبہ کو ایک اور الجھن میں ڈالنے کا فیصلہ کیا جاتا۔

بہرحال ان ڈویثرنل ڈائریکٹروں کے لئے فوری طورپر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسروں کے دفاتر سے عملہ کی پوسٹیں ختم کر کے وہاں پر موجود ضروری عملہ کو ڈویثرنل ڈائریکٹر آفس پہنچے کا حکم جاری ہوا۔ ادھر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفسیروں اور یونین کے لوگوں کی ایک نہ سنی گئی کہ یہاں کے ضروری عملہ کو دوسری جگہ بھیجنے سے ان کا کام متاثر ہو گا، یوں معاملہ پہلے دن ہی الجھ گیا تھا لیکن کس کی مجال تھی کہ شاہی حکم کے سامنے آواز اٹھاتا۔ پنجاب کے دیگر ضلعوں میں اس شاہی حکم سے کیا کھلواڑ ہوا ہے، اس بارے میں بھی وقت کے ساتھ پتہ چلتا جائے گا۔  تاہم راولپنڈی میں جو کچھ ہوا ہے، وہ کچھ یوں راقم الحروف تک پہنچا ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر (سیکنڈری) راولپنڈی سات تحصیلوں کے تقریبا 450 سکولوں، جن میں 44 ہائر سیکنڈری سکولز ہیں، کے معاملات کو دیکھتا ہے۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر راولپنڈی میں یکم جنوری 2017 تک جب کاغٖذوں میں ڈویثرنل ڈائریکٹر بنانے کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، اس وقت منظور شدہ پوسٹوں کی تعداد 60 تھی، جن میں ایک ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر، تین ڈپٹی ایجوکیشن آفسیرز، پانچ اسٹنٹ ایجوکیشن افسر ز، ایک بجٹ اینڈ اکاونٹس افسر، ایک سیکشن سپرپیڈنٹ، پانچ اسٹنٹس، پانچ سنیئر کلرک، بارہ جونئیر کلرک، کلاس فور بائیس اور ایک ڈرائیور شامل تھے۔ لیکن شہبازشریف کے ڈویثرنل ڈائریکٹر (ای ای) بنانے کی کارروائی کے بعد یوں ہواکہ 38 پوسٹیں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر راولپنڈی سے ختم کر دی گئیں اور یہاں حکم صادر ہوا کہ بائیس ملازمین کے ساتھ کام چلایا جائے۔

یوں جہاں ساٹھ پوسٹوں کے ساتھ کام چلانے میں دشواری تھی، وہاں ملک عدالت کے مطابق اب بائیس کے سٹاف کے ساتھ معاملات چلانے کے بعد کیاصورتحال ہو سکتی ہے؟ اس بات کو سمجھنے میں کسی بڑی سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل نکتہ ملک عدالت نے آخر میں بتایا اور راقم الحروف حیرت زدہ رہ گیا وہ یہ تھاکہ ڈویثرنل ڈائریکٹر (ای ای) بنانے کا فیصلہ کاغذی کارروائی ثابت ہوا مطلب آج تک صرف اتنا ہوا ہے کہ راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر سمیت پنجاب بھر کے اہم ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسروں کے دفاتر میں پوسٹوں کو ختم کر کے ڈویثرنل ڈائریکٹر کے نام پر ملازمین کو ادھر بلا لیا گیا تھا لیکن ادھر ان کی کارروائی کاغذوں تک محدود رہی اور یوں جانے والے ملازمین نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے رہے ہیں۔

اب ان میں سے کوئی کہیں دن پورے کر رہا ہے اور کوئی کہیں اپنی نوکری بچانے کے چکر میں ہے جبکہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر راولپنڈی کے دفترسمیت دیگر پنجاب کے دفاتر پوسٹوں کے خاتمہ کے بعد مشکلات حل کرنے کی بجائے خود سٹاف کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ افسوس ناک صورتحال یوں ہے کہ تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت کے پاس بھی وقت نہیں ہے کہ وہ اس اہم ایشوپر کوئی فیصلہ لے اور پنجاب بالخصوص راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر ز کے دفاتر میں سٹاف کی کمی وجہ سے جاری صورتحال سے تعلیمی نظام کو جو خطرات درپیش ہیں، ان سے بچاجاسکے۔

واردات کی یہ کہانی تو اہم تھی لیکن جاتے جاتے ضلع راولپنڈی کے تعلیمی نظام کے ساتھ جو ایک اور بھیانک صورتحال چل رہی ہے اس کے بارے میں ایک اور کہانی بھی پڑھ لیں، اس وقت جب پڑھے لکھوں کی بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں دھکے کھارہی ہے، والدین اپنی جمع پونجی خرچ کرنے کے بعد بچوں کو تعلیم اس لیے دلاتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر ان کے بڑھاپے کا سہارابنیں گے لیکن یہ تو اسوقت ہوگاجب ان کو روزگار ملے گا، بڑی دیر سے یہ کہانی سننے کو ملتی رہی ہے کہ پوسٹیں نہیں ہیں، نوکریاں کہاں سے دیں۔

اس وقت ضلع راولپنڈی کے 40 کالجز میں لیکچررز، پروفیسرز کی 500 پوسٹیں خالی ہیں اور نان ٹیچنگ اسٹاف کی 400 سیٹیں خالی ہیں۔ مجموعی طورپر راولپنڈی کے چالیس کالجز میں 900 پوسٹیں خالی ہیں۔ کالج میں لیکچررز کی آخری بھرتی تین سال قبل ہوئی تھی اور نان ٹیچنگ اسٹاف کی آخری بھرتی آٹھ سال قبل 2010 میں ہوئی تھی۔ ضلع راولپنڈی کے ان کالجز میں لائبریرین کی بھی 60 فیصد سٹییں گزشتہ پندرہ سال سے خالی پڑی ہیں۔ مستقل لائبریرین نہ ہونے کی وجہ سے لائبریریوں کا نظام کلرکوں کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ ضلع بھرکے کالجزمیں جدید اور نئی کتب کا نظام بھی ختم ہو چکا ہے۔ گزشتہ دس سال سے کالجز میں لائبریریوں کو کتب نہیں دی گئی ہیں۔ اندازہ کریں، جب اتنی بڑی تعداد میں لیکچررز اور پروفیسروں کی پوسٹیں خالی ہوں گی، نان ٹیچنگ اسٹاف اتنا کم ہوگا اور لائبریریوں کو کلرک چلا رہے ہوں گے تو تعلیم کا کیا حال ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).