جب بابا حیدر زمان کا اکسایا ہوا ہجوم ہمیں مارنے پر تل گیا


بظاہر ٹی وی پروڈکشن ایک بے ضرر، دلچسپ اور آسان سا کام ہے لیکن بعض اوقات اس میں موت کو قریب سے دیکھنا پڑتا ہے۔ آپ پرسکون اور معمول کے مطابق گزرتی زندگی کو چھوڑ کر ایک دم آگ میں چھلانگ لگاتے ہیں اور جسمانی طور پر بچ بھی جائیں تو نفسیاتی طور پر ایک شدید اضطراب سے گزرتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب میں اوورکوٹ پہن کر ریکارڈنگ میں بیٹھا ہوا تھا تو میرے ڈی او پی نوید حیات نے کہا کہ آپ وہ نہیں رہے جو آج سے پانچ سات سال پہلے تھے۔ اس ایک فقرے نے گویا یادوں کے دریچے کھول دیے۔

صوبہ ہزارہ کی تحریک زوروں پر تھی اور لوگ سڑکوں پر اپنا صوبہ مانگ رہے تھے جبکہ زرداری اور نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کرنے کے بدلے سرحد کو خیبر پختونخوا نام دے رہے تھے یعنی کھلم کھلا دھاندلی ہو رہی تھی ہزارہ والوں خلاف۔ بابا حیدر زمان جو ہمیشہ نواز شریف کے خلاف الیکشن ہارتا تھا ہزارہ والوں کا ہیرو بنا ہوا تھا۔ عبدالرؤف صاحب ( ہمارے استاد، باس اور پچاس منٹ کے اینکر) نے کہا کہ ہزارہ جا کر پروگرام کرتے ہیں۔

اگلے دن ہم ایبٹ آباد پہنچ گئے تاکہ لوکیشن اور لوگ دیکھ لیے جائیں لیکن وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ اے این پی کا تو کوئی شخص وہاں باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ لوگوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ ہم نے عبدالرؤف صاحب سے اجازت لی کہ ہمیں ڈاکیومنٹری بنانے دیں اور خود آنے کا رسک نہ لیں کیونکہ پروگرام تو مخالف مؤقف کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ ڈاکیومنٹری بناتے بناتے ہم نے اے این پی والوں سے رابطہ کیا جو بابا حیدر زمان کے منعقدہ جلسے کے مقام سے ذرا ہٹ کر ایک گلی میں کسی ہوٹل میں چھپے ہوئے تھے۔

ہم کیوں کہ جلسہ ہی کے شاٹس بنا رہے تھے لہذا وہیں سے گلی کی طرف کھسکنا شروع ہو گئے۔ جوں جوں ہم گلی کی جانب ہوتے گئے توں توں بابا حیدر زمان مرحوم کی تقریر کا رخ بدلتا گیا اور وہ یہ کہنا شروع ہو گیا، ”نہیں میرے بچو! نہیں! انہیں کچھ مت کہنا۔ یہ قصور وار نہیں۔ یہ تو اپنا کام کرنے آ ئے ہیں۔ انہیں کیا کہ ہم پر قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ انہوں نے تو سب کو ہی دکھانا ہے۔ جھوٹ بھی اور سچ بھی۔ انہیں جھوٹ سے بھی ملنے دو میرے بچوں۔ ہم انہیں کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ جو چاہیں دکھا دیں۔ دن کو رات کر دیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں“۔

ہم یہ باتیں سنتے سنتے اس ہوٹل تک جا پہنچے جہاں اے این پی والے چھپے بیٹھے تھے۔ میں اور سہیل شیخ ( جو اب پروڈیوسر ہیں خبرناک کے ) آخری لوگ تھے جنہیں اندر داخل ہونا تھا۔ میں نے اندر داخل ہونے سے پہلے ایک اچٹتی نظر گلی میں داخل ہوتے مجمع پر ڈالی لیکن کچھ سوچے سمجھے بغیر اندر داخل ہو گیا۔ مجھے اپنے کام میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے سخت چڑ ہوتی ہے اور اس مجمع کو نظر انداز کرنا بھی اسی سوچ کا شاخسانہ تھا۔

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی شخص لوہے کے گیٹ کو تالا لگا رہا تھا لیکن وہ سہیل شیخ نہیں تھا۔ میں نے جلدی سے مڑ کر سہیل کو دیکھا تو وہ تیزی سے سڑک کراس کرتے ہوئے عجیب عجیب آوازوں کی گھٹن سے بچتا ہوا بھاگ رہا تھا۔ اسی اثنا میں گیٹ بند ہو گیا اور میں اوپر کی منزل پر پہنچ گیا جہاں بہت سے لوگ سر پر سرخ ٹوپیاں پہنے کسی کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔ اتنی دیر میں ایک پتھر میرے پاؤں میں گرا اور اس کے ساتھ شیشے کی کرچیاں بھی۔

میں نے نوید حیات سے کہا کہ اس پتھراؤ کو ریکارڈ کر لے۔ نوید نے کیمرہ فوکس کرنا چاہا ہی تھا کہ پانچ چھ پتھر اس تنگ سے ہوٹل کی لابی میں گرے اور کئی دوسرے شیشے ٹوٹنے لگے۔ ”جیو والو! باہر نکلو ورنہ مار دیں گے“، ”جیو والو! تم زندہ نہیں بچو گے“ ان کلمات کے ساتھ لتھڑی ہوئی گالیاں اور پتھر ہمیں گھیر چکے تھے۔ اگر نیچے والا گیٹ ٹوٹ جاتا تو ہجوم نے اندر آ جانا تھا اور یہی سوچ کر کے یہ ہجوم ہمیں نہیں چھوڑے گا ہم نے اوپری منزلوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا تاکہ زندگی کے لیے جتنا وقت مل سکے مل جائے۔

باہر ہجوم یہ سمجھ کر بکھرا ہوا ہے جیسے ان کا صوبہ ہم نے کسی کھائی میں پھنیک دیا ہے۔ بھاگتے بھاگتے ہم درمیان والی منزل کے ایک کمرے میں گھس گئے اور اندر سے دروازہ لاک کر لیا۔ میں اور نوید حیات اپنی سانسیں بحال کر رہے تھے کہ کیلوں کے ڈھیر کے پیچھے سرسراہٹ ہوئی۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے دیکھا تو ایک نوجوان پٹھان سہما ہوا بیٹھا تھا۔ ”کیلا کھاؤ“ اس نے بے ساختہ کہا اور ہم ہنسی، اضطراب اور تشویش کی ملی جلی کیفیت سے مسکرانے لگے۔

پتھر گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور گیٹ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا تھا۔ نوید حیات نے زور لگا کر کمرے میں لگی ایک جالی توڑ ڈالی اور مقصد گلی میں کودنا تھا۔ مجھے نذر محمد یاد آگئے جو نور جہاں کے بستر سے سیدھے گلی میں کود گئے تھے اور پھر کرکٹ نہ کھیل سکے۔ میں نے نوید حیات سے کہا کہ اگر باہر گلی میں کودے تو ٹانگیں ٹوٹ جائیں گی۔ پتھروں کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں اور دل کو دھڑکا لگا ہوا تھا۔ باہر گاڑی میں سہیل شیخ ادھر ادھر فون گھما کر توجہ دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ معاً مجھے خیال آیا خورشید ندیم صاحب نے اپنے ایک دوست کا نمبر دیا تھا جو غالباً ایڈیشنل آ ئی جی تھے اور ایبٹ آباد میں تعینات تھے۔

خورشید ندیم صاحب نے بتایا تھا کہ وہ بڑے ادب دوست ہیں اور ان سے مل کر خوشی ہو۔ اب صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں نے انہیں فون ملا دیا۔ شوکت صاحب نے فون اٹھاتے ہی کہا، ”زہے نصیب ذیشان صاحب! خورشید صاحب نے بتایا تھا کہ آپ عام میڈیا والوں کی طرح ادھر ادھر جھک مارتے نہیں پھرتے بلکہ بڑے مقصد کو لے کر چلتے ہیں“۔ میں نے بغیر تمہید باندھنے کہا، ”سر! میں ایبٹ آباد کے ایک ہوٹل میں اے این پی والوں کے ساتھ پھنسا ہوا ہوں اور بابا حیدر زمان کے حامی اس کے اکسانے پر باہر پتھر مار رہے ہیں“۔

شوکت صاحب کا سارا ادبی ذوق کافور ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی والوں سے تو کہا گیا تھا نہ کسی کو ملنے آنے دیں اور نہ ہی خود ملنے جائیں۔ میں نے عرض کی کہ ہمیں لاہور واپس جانا تھا اس لیے اے این پی والوں سے یہ کہا کہ پھر نہ کہیے گا یک طرفہ ڈاکیومنٹری بنا دی ہے۔ خیر شوکت صاحب نے کہا کہ وہ کسی طرح پولیس کو اندر بھجواتے ہیں لیکن مجمع کے بہر حال منتشر ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ پندرہ منٹ بعد پولیس آ ئی اور ہم ان کے حصار میں ہوٹل سے باہر نکل کر پولیس گاڑی میں بیٹھ گئے جنہوں نے تھوڑی دور جا کر ہمیں چھوڑ دیا۔

اس کے بعد کیا ہونا چاہیے تھا۔ واپس لاہور کی راہ ناپتے؟ سارا بجٹ غارت ہو جاتا۔ دھبہ لگ جاتا سارے کام پر۔ کہیں چھپ جاتے اور حالات بہتر ہونے کا انتظار کرتے۔ بجٹ سے تجاوز کر جاتے اور ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جاتی۔ بھیس بدل کر رات کو اسی ہوٹل میں جاتے تو روشنی کم ہوتی کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک کیمرہ تھا جو وہاں ہمارے نمایندہ سردار صاحب نے ادھار دیا تھا۔ صرف ہزارہ والوں کا موقف لے کر آجاتے اور کسی اے این پی والے کو لاہور سٹوڈیو بلا لیتے لیکن اس طرح کام ڈنگ ٹپاؤ لگتا۔

طے یہ پایا کہ اے این پی والے بھیس بدل کر ایک ایک کر کے نکلیں اور دن کی روشنی میں نتھیا گلی پہنچیں اور وہاں ان کا موقف ریکارڈ کیا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ یاد رکھیں ٹی وی پروڈکشن ایک جنگ کی طرح ہوتی ہے۔ ایک بار وقت ہاتھ سے نکلا تو آپ کہیں کے نہیں رہتے لیکن بابا حیدر زمان کا رویہ میں کبھی نہیں بھولا۔ ایسی سازشی ذہنیت کے ساتھ آپ کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ بڑا کام کرنے کے لیے واقعی بڑا ہونا یا بن کر دکھانا ضروری ہے۔

جو تڑپ ہزارہ والے اس وقت دکھا رہے تھے، مصنوعی تھی بالکل وسیب کے لیے تڑپ کی طرح۔ اس واقعہ کے بعد بابا حیدر زمان بہت عرصہ حیات رہا لیکن غیر متعلق ہو کر۔ انقلابی نعروں کے پیچھے وقتی ابال، کھوکھلے دعوے اور جعلی جوش کو دیکھنے والی آنکھ پہلے ہی بتا دیتی ہے کہ انقلابی نعروں کی دراڑوں میں پانی پڑا ہوا ہے۔ حکومت وقت بھی ایسی ہی ذہنی بدحالی کا شکار ہے۔ انجام دیوار پر لکھا ہے۔ آپ پڑھنا نہ چاہیں تو اور بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).