کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں


حکومت کی توجہ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے پر مرکوز ہے لہٰذا وہ جہاں کہیں سے ممکن ہو سکتا ہے مدد و تعاون حاصل کر رہی ہے مگر اس کے سیاسی حریفوں کو اعتراض ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے یہ تو انداز بھکاریوں ایسا ہے۔ وہ نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب تک ہم ایک بار بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں آ سکے اگرچہ اکہتر برس میں بعض حکمرانوں نے یہ کوشش کی کہ وہ کسی سے قرض وغیرہ نہ لیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے!

دراصل ہمارا نظام سرماریہ دارانہ و جاگیردارانہ ہے جو چند خاندانوں کو تمام سہولیات فراہم کرتا ہے لہٰذا وہ ہی سوچ بچار اور فیصلوں کے لیے موزوں سمجھے جاتے ہیں اس میں عام آدمی کو شریک نہیں کیا جاتا کہ وہ اکثریت کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرے جو ریاست کو دوسروں کے دست نگر ہونے سے محفوظ بناتی ہو۔ اس نظام میں چونکہ چند بڑے انتظامی امور نمٹانے کی اہلیت و قابلیت ظاہر کرتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فصیل سے باہر نہیں نکلتے اور خود کو ہی منظم و طاقتور بناتے چلے جاتے ہیں جس سے آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت و نا انصافی کے دائرے میں مقید زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے نتیجتاً حساب کتاب کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے کہ آج تک جتنے بھی قرضے لیے گئے اور امدادیں حاصل کی گئیں وہ عام آدمی کو آسائشیں بہم نہیں پہنچا سکیں مگر اہل اختیار و اقتدار کو بڑے بڑے دولتمندوں کی قطار میں کھڑا کر گئیں!

اب پی ٹی آئی کی حکومت جس کے سربراہ عمران خان ہیں اپنے تئیں نیک نیتی سے معیشت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے مبینہ طور سے ملکی خزانے میں اربوں ڈالرز آ رہے ہیں کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے۔ شاید اسی لیے جو اصلاحاتی بجٹ پیش کیا گیا اس میں ٹیکسوں کی بھرمار کے بجائے ان میں کمی کی گئی ہے۔ جو غربت ختم تو نہیں کر سکیں گے مگر اس میں اضافے کا سبب بھی نہیں بنیں گے مگر حزب اختلاف کی طرف سے اب بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے کیا ہو گا حکومت کو یہ بھی کرنا چاہیے تھا اور وہ بھی اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ ابھی چھ ماہ ہوئے ہیں اس نے بہتری کے لیے آگے بڑھنا شروع کر دیا ہے۔

نعیم الحق معاون خصوصی وزیراعظم پاکستان کالم نگاروں کو اکرم چوہدری کی طرف سے ایک مقامی ہوٹل میں دیے گئے ظہرانے میں بتا رہے تھے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی وہ ایسے اقدامات نہیں کر سکے جو انقلاب برپا کر دیتے اور غریب عوام کو فوری ریلیف دیتے مگر وہ انہیں مسائل کی یلغار سے بچانے کی بھی تدابیر کر رہے ہیں انہیں چین، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے حوصلہ افزائی کی پوری امید ہے لہٰذا عوام کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ پچھلی حکومت نے اقتصادیات کو نحیف ونزار کر کے رکھ دیا تھا مگر اب بھلے دن آنے والے ہیں کوئی تشویش کی بات نہیں !

لہٰذا کہا جا سکتاہے کہ وہ دور بیت گیا جو صرف مخصوص افراد کی فلاح کے لیے تھا اب عام آدمی کو بھی سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا بشرطیکہ یہ حکومت اپنے پانچ برس کرتی ہے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ایک دو برس میں ہی اسے بھول بھلیاں میں جانا پڑ جاتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسا نہیں بھی ہو سکتا کیونکہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ حالات اب کی بار خراب ہوتے ہیں تو معاملات کو دیکھنا بے حد مشکل ہو جائے گا لہٰذا حکومت مقررہ مدت پوری کرے گی اور حالت موجود بھی تبدیل ہو گی ویسی مگر نہیں جس طرح کا وعدہ عمران خان نے اپنے خطابات میں عوام سے کیا تھا؟

بہرحال حزب اختلاف کا یہ کہنا ہے کہ انتظامی حوالے سے بھی حکومت خاصی کمزور نظر آتی ہے جبکہ انتظامیہ پر اس کی اپنی گرفت متزلزل تھی یا پھر اس نے دانستہ اسے ڈھیل دے رکھی تھی تاکہ دونوں مل کر عوام کو قابو کر سکیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر موجودہ حکومت پر انگلیاں اس لیے اٹھ رہی ہیں کہ اس نے تو عوام سے آتے ہی سب ٹھیک کرنے کا کہا تھا جو ابھی تک ویسے کا ویسا ہے اگر وہ اس کے لیے غور و فکر کرتی تو سانحہ ساہیوال نہ ہوتا۔ ۔

اس قدر لاقانونیت کا مظاہرہ کیا گیا کہ دل دہل جانا ہے دل تو اس وقت بھی دہل گیا تھا جب ماڈل ٹاؤن سانحہ پیش آیا تھا مگر اب جب انصاف والی حکومت آئی ہے تو اس کی موجودگی میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر پولیس کا محکمہ راہ راست پر آجائے تو پچاس فیصد مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں مگر ابھی تک اس میں کوئی اصلاحات نہیں کی جا سکیں جو لوگوں کو توقع تھی لہٰذا ان کا کہنا جائز ہے کہ ابھی تک وہی نظام ہے اور حکومت بھی وہی ہے؟

خیر حکومت جہاں معاشی بہتری کے لیے دن رات مصروف عمل ہے تو وہاں اسے اداروں کو عوام دوست بنانے کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز کرنا ہوں گی کیونکہ حکومت کے طویل المدتی پروگراموں کو عوام بعد میں دیکھیں گے فی الوقت روز مرہ کی مشکلات جو انہیں پریشان کر رہی ہیں انہیں دور کیا جائے اور اس کے ل یے حکومت کو کسی بھاری بجٹ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جتنے بھی سرکاری محکمے ہیں ان سے عوام کا واسطہ پڑتا ہے لہٰذا جب اہلکار ان سے جیب گرم کرنے کو کہتے ہیں تو وہ ان سے پوچھتے ہیں تبدیلی سرکاری کا انہیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا جواب میں کہتے ہیں کہ اس کے اندر جو لوگ بیٹھے ہیں وہ خود کو تو پہلے تبدیل کر لیں۔

اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حکومت معاشی حالت کو جتنا بھی درست کر لے وہ عوام کو دوسری پریشانیوں سے نجات نہیں دلوا سکے گی لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ آہنی ہاتھ کو حرکت میں لائے۔  جہاں بہت بڑا بگاڑ جنم لے چکا ہے جس کو عام گفتگو سے نہیں خاص گھونسے سے ٹھیک کرنا ہو گا۔ دیدہ دلیری کی حد ہو چکی ہے کہ دن دیہاڑے نہتے لوگوں پر پولیس کے لوگ گولیاں برسا دیتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ پنجاب حکومت کا وزیر ان کا دفاع کرتا ہے۔

ایسے کچھ نہیں ہو گا اور پھر کہیں یہ نہ ہو کہ لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ”اپنے سامان کی حفاظت خود کرنے لگیں“۔ بات سوچنے کی ہے ریاست کہاں ہو گی اس کے ادارے کدھر ہوں گے آخر کب تک لوگ مظالم برداشت کر سکتے ہیں لہٰذا حکومت کو اپنے وزیروں مشیروں کو فعال اور عوام دوست بنانے کی طرف دھیان دینا ہو گا بلاشبہ وہ عوام ہی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے اور ناراض دوستوں کو راضی کر کے ان کا اعتماد حاصل کر رہی ہے مگر وہ عوام کے ماتھے کو بھی چھو کر دیکھے کہ وہ کیوں انگارے کی مانند دہک رہا ہے؟

حرف آخر یہ کہ عمران خان وزیراعظم پاکستان جس لگن، محنت اور دیانت سے وطن عزیز کو آگے لے جانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں، اس پر انہیں شاباش دینی چاہیے۔ وہ وطن عزیز کو دنیا میں نمایاں دیکھنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں جو ایک روز ضرور مجسم ہو گا!

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پُر افشاں ہوئے تو ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).