ماں جی! آپ زندہ ہیں؟


(پانچ نومبر 2017) دفتر میں اطلاع ملتی ہے کہ بڑے صاحب تھوڑی دیر میں پہنچ رہے ہیں۔ سارے افسر اور سٹاف دروازے پر بڑے صاحب کا استقبال کرتے ہے اور پھر سب لوگ اُس کو اُس کے کمرے تک چھوڑ کے اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ چائے لے کر آنے والا لڑکا چائے رکھ کے واپس جانے لگتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ ڈی سی ہیڈکوارٹرز کو پیغام پہنچائیں کہ مجھ سے ابھی آ کر ملیں۔ ڈی سی ہیڈکوارٹر حاضر ہوتا ہے، آپ نے یاد فرمایا سر!

ڈی سی صاحب بہت کمال دفتر تیار کیا ہے آپ نے میرے لئے، مجھے بہت خوشی ہوئی یہ سب کام دیکھ کے! آئیے اب ذرا باقی افسران اور سٹاف کے بیٹھنے اور کام کرنے کی جگہیں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ سر آپ پہلے چائے پی لیجیے ورنہ یہ ٹھنڈی ہو جائے گی! ۔ میں ٹھنڈی چائے پینے کا عادی ہوں، آپ مجھے دفتر دکھایئے! اور پھر بڑے صاحب کو باقی افسران اور سٹاف کے بیٹھنے اور کام کرنے کی جگہیں بالکل پسند نہیں آتیں۔ ڈی سی صاحب یا تو سب لوگوں کو میرے دفتر جیسا ماحول دیجیے یا پھر مجھے بھی باقی لوگوں کے ساتھ بٹھائیے، میں ہرگز نہیں چاہوں گا کہ مجھے تو کام کے دوران تمام سہولیات اور بہترین ماحول میسر ہو جبکہ میرے ساتھ کام کرنے والوں کی عزت نفس سارا دن مجروح ہوتی رہے۔ اور پھر تمام افسران اور سٹاف کے لئے باقاعدہ دفتری سہولیات کا انتظام و اہتمام یکساں کر دیا گیا۔

(دسمبر 2017) چیف کمشنر ان لینڈ ریوینیو سرگودھا ریجن کے دفتر میں چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے وزارتِ خزانہ کے حکم پر ایک فیکس موصول ہوتا ہے کہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ان تمام افسران اور سٹاف کے نام فورا بھیجیں جنہوں نے موجودہ مالی سال کے لئے اپنا محصول وصولی کا ہدف پورا کرنے میں بہترین کارکردگی دکھائی اور ساتھ ہی اُن تمام افسران اور سٹاف کے نام بھی بھیجیں جن کی کارکردگی مایوس کُن رہی۔ فیکس کی عبارت پڑھ کے تمام افسران اور سٹاف کو میٹنگ روم میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا جاتا ہے اور چیف کمشنر اپنی بات شروع کرتا ہے، ”مجھے حکم نامہ موصول ہوا ہے کہ بہترین کارکردگی اور بدترین کارکردگی دکھانے والے ملازمین کے نام بھیجو، یہ کام اور ذمہ داری مجھ سے پہلے والے صاحب کی تھی مگر پھر بھی میں نے اپنی اور آپ سب کی طرف سے جواب تیار کر دیا ہے کہ یہاں افراد کام نہیں کرتے، جماعت (ٹیم) کام کرتی ہے اور میرے ساتھ کام کرنے والی پوری جماعت کی اجتماعی کارکردگی یہ ہے کہ اُس نے اپنے ہدف سے زیادہ محصول اکٹھا کر کے قومی خزانے میں جمع کروا دیا ہے اوراس بات کے لئے پوری ٹیم ہی مبارکباد کی مستحق ہے۔

اگر کسی کو میرے جواب سے اختلاف ہے تو وہ اپنا نقطہ نظر سب کے سامنے رکھ سکتا ہے ”۔ مگر ایسے جواب سے بھلا کس کو اختلاف ہو سکتا تھا، ہاں البتہ چیئرمین ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ کو شاید اس جواب سے شدید اختلاف تھا لہذا چیف کمشنر کو دوبارہ فیکس موصول ہوتا ہے کہ بہترین کارکردگی والوں کے نام بھلے ہی نہ بھیجیں مگر معمولی کارکردگی دکھانے والوں کے نام ضرور بھیجیں۔ بڑا صاحب دوسری بار جواب بھیجتا ہے کہ ایک گاڑی کو مل کر دھکا لگانے والے دس افراد میں سے یہ پتہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کس کی قوت زیادہ لگی اور کس کی کم، گاڑی کو رواں کرنے میں سب کا زور برابر شمار کیا جاتا ہے لہذا میں اپنا پہلا جواب آخری بار دہراتا ہوں کہ میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگوں نے یکساں محنت کر کے دیے گئے ہدف سے زیادہ رقم اکٹھی کر کے قومی خزانہ میں جمع کروائی ہے۔ میں اپنے ساتھ کام کرنے والے ہر ایک فرد کی ذاتی طور پر ذمہ داری لیتا ہوں اور میری طرف سے اس جواب کو آخری اور حتمی سمجھا جائے۔

(نو فروری 2018) وہ اپنے دفتر میں بیٹھا سامنے میز پر پڑی فائلوں میں گُم تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ یہ اُس کے سترہویں کامن کے ایک بیچ میٹ کا فون تھا جواُسے بتا رہا تھا، ”یار مُجھے نہیں لگتا کہ موجودہ لاٹ کے ساتھ تمہاری ترقی اکیسویں گریڈ میں ہو سکے گی، چیئرمین ایف بی آر، وزیر خزانہ اور وزیر اعظم سیکرٹیریٹ میں موجود کُچھ لوگ تم سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں“۔ اُس نے کوئی بھی جواب دیے بنا فون منقطع کر دیا اور اپنے پی اے سے بولا ’فون کی لائن مجھے اندر آفس میں دینا‘ !

لائن ملتے ہی اُس نے ایک نمبر گھمایا اور دوسری طرف سے ہیلو کی آواز سنتے ہی مخاطب ہوا، ماں جی سے بات کرواؤ! تھوڑی دیر بعد دوسری طرف سے ایک بارعب نسوانی آواز آئی، ہیلو! آواز کان پڑتے ہی وہ گویا ہوا ’ماں جی! آپ زندہ ہیں؟ ہاں! جن کے تیرے جیسے بیٹے ہوں وہ مائیں کبھی نہیں مرتیں! اچھا، اگر آپ زندہ ہیں تو مجھے لوگ کیوں کہہ رہے ہیں کہ میری ترقی کے کوئی امکانات نہیں ہیں؟ اور اس کے ساتھ ہی فون منقطع کر کے وہ دوبارہ اپنے سامنے میز پر پڑی فائلوں میں گم ہو گیا۔

ان تینوں کہانیوں میں بڑا صاحب، چیف کمشنر اور فائلوں میں مصروف شخص کوئی الگ الگ لوگ نہیں بلکہ تینوں واقعات ایک ہی شخص ڈاکٹر بشیر اللہ خان مروت کے ہیں جو اس وقت ایف بی آر سرگودھا ریجن کا چیف کمشنر ہے۔ بشیر اللہ خان مئی 1961 میں لکی مروت کے ایک گاؤں دلو خیل، محلہ میاں خان خیل کے مروت گھرانے میں عبد الطیف خان کے گھر پیدا ہوا اور اٹھائیس سال کی عمر میں نومبر 1989 میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے پاکستان سول سروس میں آ گیا۔

بشیراللہ مروت نے اپنی پوری سروس کے دوران ”میں“ پر دھیان نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ”ہم“ پر زور دیا ہے، اُس نے کبھی سٹاف کو ماتحت نہیں سمجھا، کبھی کسی کی ہتک یا توہین اور تحقیر نہیں کی۔ مالی معاملات سے زیادہ انتظامی معاملات کو اہم سمجھا۔ کبھی کسی کی چھٹی نہیں روکی، کسی سائل کو بلاوجہ کے چکر نہیں لگوائے، کسی کی پنشن کی عرضی کو سرخ فیتے کی نذر نہیں ہونے دیا۔ اُس کو اپنے ساتھ کام کرنے والے نائب قاصد سے لے کر ہر بڑے افسر تک کا پورا نام یاد ہوتا ہے، اُس نے کبھی اپنی ذات یا اپنے مفاد کو اپنے فرض سے نہیں ٹکرانے دیا۔ ایک بار اس سے ملنے کے بعد کوئی بندہ اُس کی شخصیت سے متاثر ہوئے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔

ڈاکٹر بشیراللہ خان مروت کا بڑا بھائی کرنل (ر) امیراللہ خان مروت 2013 سے 2018 تک این اے 27 سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسببلی کا رکن رہا۔ اپنے بھائی کی سیاسی وابستگی کی بدولت پچھلے پانچ سال میں نون لیگی حکومت نے ڈاکٹر بشیر اللہ خان کا سات دفعہ تبادلہ کیا، ہر بار اُس کو ایسی جگہ تعینات کیا گیا جہاں وہ کوئی کارکردگی دکھانے لائق ہی نہ رہے مگر آسمان جس کا دوست ہو جائے اُسے پھر کسی بات کا خوف نہیں رہتا۔

یہی وجہ تھی کہ اُسے جب دوست نے فون کر کے بتایا کہ تمہاری ترقی اکیسویں گریڈ میں شاید نہیں ہو سکے گی تو اُس نے سٹاف کو بلا کر گالیاں نہیں دیں کہ تمہاری وجہ سے میرا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، نہ اس نے کسی وزیر مشیر سے گزارش کی کہ خدارا میری ترقی نہ روکی جائے، بلکہ اُس نے صرف اپنی والدہ کو فون کیا یہ تسلی کرنے کے لئے کہ میرے لئے دعا کرنے والے لب کہیں خدانخواستہ خاموش تو نہیں ہو گئے، اور پھر جب اس کو یقین ہو گیا کہ اس کی اصل قوت اس کی ماں اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے تو وہ ہر فکر سے بے فکر ہو گیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ اکیس فروری 2018 کو اسی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ڈاکٹر بشیر اللہ کو اکیسویں گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ بیشک ڈاکٹر بشیر اللہ خان مروت جیسے افسران اس ملک کا نہ صرف سرمایہ ہیں بلکہ اس ملک کے بہتر مستقبل کی امید اور نوید ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).