ذکر چترال میں ریستوران کی مالک خاتون کا


زندگی میں کچھ نیا کرنے کے لیے صلاحیت اور محنت کا عمل دخل یقیناً ہوتا ہے مگر مردوں کے معاشرے میں ایک خاتون کے لیے کچھ منفرد کرنا، جو مردوں کے لیے چیلنج کی مانند ہو، کے لیے قابلیت اور جستجو کے علاوہ بے پناہ ہمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ شاہدہ پروین ان گنی چنی باہمت اور با صلاحیت خواتین میں سے ایک ہے جو چترال جیسے پسماندہ اور رجعت پسند معاشرے میں ریستوران کھولنے جیسے انٹرپرینرشپ کام کا کامیابی سے آغاز کر چکی ہے۔

اپنی ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد دوسرے نوجوان لڑکیوں کی طرح ٹیچنگ کے شعبے میں، جسے خواتین کے لیے سب سے موزوں جانا جاتا ہے، ملازمت حاصل کرنے کے لیے ریس میں لگنے کی بجائے شاہدہ نے کچھ مفرد کرنے کا سوچا۔ ایسے میں روایتی چترالی کھانوں پر مشتمل ریستوران قائم کرنے کا آئیڈیا اسے سب سے زیادہ موزوں لگا۔ شاہدہ کے بقول اس کی سب سے بڑی انسپیریشن اس کی ماں ہے جنھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر سکول میں کنٹین چلا کر اپنے تمام بچوں کو یونیورسٹی تک پڑھایا جو کہ ایک پسماندہ اور روایتی علاقے میں بذات خود ایک بہت بڑی ایچومنٹ ہے۔

اپنی ماں اور بھائی سے مشاورت کے بعد شاہدہ نے گرانٹ کے لیے کے پی حکومت کی پروجیکٹ ”ایمپکٹ چیلنج“ اور لمز یونیورسٹی کو پروپوزل جمع کیے۔ یوں سیڈ منی حاصل کرنے کے بعد ”نان کیفے“ کے نام سے اپنے ریستوران کا افتاح کیا۔ ”نان“ کھوار زبان میں ماں کو کہتے ہیں اور ماں سے انسپریشن کی بدولت اس ریستوران کا نام بھی ماں کے نام سے منسوب ہے۔

شاہدہ کے بھائی طاہر الدین کے بقول یہ ریستوران اپنی نوعیت کے لحاظ سے پورے صوبے میں منفرد ہے جہاں چترال کے ہر قسم کے نایاب ہونے والے روایتی کھانوں کے علاوہ فاسٹ فورڈ بھی گاہکوں کو پیش کی جاتی ہے۔ تاہم اس کی سب سے منفرد خاصیت یہ کہ یہ ریستوران ایک خاتون اور اس کی ماں کی ملکیت ہے جہاں کچن سے لے کر کاؤنٹر تک منیجمنٹ خواتین کے پاس ہے۔ صرف ویٹر اور باہر سے سامان لانے کے لیے مرد ملازم رکھے ہیں۔ جسے صحیح معنوں میں اگر خواتین کی ایمپاورمنٹ کہا جائے تو بالکل درست رہے گی۔

موجودہ دور میں خواتین کی حقوق اور ایمپاورمنٹ کی تحریکیں اور نعرے بلند کرنے والے تو بہت ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو نعروں سے ہٹ کر حقیقی میدان میں خواتین کو ایمپاور کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوں گے۔ اکثر اقدامات زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو پڑھانے یا کسی سروس سیکٹر میں ملازمت دلانے تک محدود ہیں۔ اپنے ذاتی کاروبار شروع کرنے جیسے آئیڈیاز ابھی بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ایسے میں طاہر جیسا نوجوان، جو روایتی مردوں سے ذرا ہٹ کے سوچتا ہے، کی کاوش قابل ستائش ہیں۔ طاہر، جو کہ ڈیولپمنٹ سڈیز میں ایم فل کر چکے ہیں، کے مطابق معاشرے کی بہبود کے لیے نوجوانوں کو کچھ مختلف کرنے ہوں گے۔ ان کے بقول چترال میں یونیورسٹی تک پڑھے ہوئے نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سروس سیکٹر میں جابز تلاش کرنے کی بجائے انٹرپرینیرشب کے ذریعے وہ اپنے اور معاشرے کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکتے ہیں۔ ”نان کیفے“ کا قیام ان کی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

طاہر کے بقول بہن اور ماں کی ملکیت پر مشتمل اس ریستوران میں ان کا کردار صرف اخلاقی سپورٹ اور حوصلہ افزائی تک محدود ہے، وہ اپنا پی ایچ ڈی ایسے چھوٹے بڑے پروجیکٹس پر کرنے کا عزم رکھتے ہیں جس سے خواتین کو حقیقی معنوں میں ایمپاور بنایا جا سکے۔ خواتین ڈھابے کا قیام ان کے اگلے پروجیکٹ میں شامل ہے، جو خواتین عملے پر مشتمل خواتین کو صحت بخش تفریح مہیا کرے گی۔

موجودہ دور میں کمرشلائزیشن کی بدولت جہاں روایتی کھانے معدوم ہوتے جا رہے ہیں وہاں ان روایتی چیزوں سے منسلک پیار و محبت سے بھی ہم آہستہ آہستہ محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ماں، بہن اور بھائی کے تکون پر مشتمل روایتی ”نان کیفے“ جیسے سوشیو ایکنامک پروجیکٹ نہایت ہی قابل ستائش کاوش ہے جو کہ نوجوانوں خاص کر چترال کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).