دیار غیر میں وطن کی مہک کا المیہ


مغرب میں مصنوعات کی کھپت کے لئے تشہیر ایک اہم شعبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر قصبے میں علاوہ علاقائی اور قومی اخباروں کے ایک آدھ ہفتہ وار اخبار بھی نکلتا ہے جس میں کمرشل اشتہارات کے علاوہ پیدائش اموات کے اشتہارات اور کچھ مقامی خبریں بھی درج ہوتی ہے۔ یہ اخبار ہر گھر میں مفت تقسیم کیے جاتے ہیں اور لوگ ایک نظر ڈال کر کوڑا دان میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی کچھ اس اخبار کے ساتھ جو جنوری 1996 کا دوسرا شمارہ تھا۔ اس میں ایک لڑکی کے متعلق مختصر سی خبر تھی۔

دسمبر 1979 میں مجھے مقامی لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا اس ملک میں آتے ہی ممبر بن گیا تھا۔ اس دور میں آج کی انٹرنیٹ کی سہولت تو نہیں تھی اور مطالعہ کے لئے معمولی ممبرشپ فیس پر لائبریری سے کتب کا میسر آجانا ایک بہت بڑی نعمت ہوتی تھی۔ اس روز دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی اور دھوپ میں یورپی لوگوں کا موڈ ٹھنڈ کے باوجود ذرا خوشگوار ہو جاتا ہے۔ لائبریری کے کاؤنٹر پر کتاب لینے کے لئے مجھ سے پہلے لائین میں ایک بچی جس کی عمر کوئی تیرہ چودہ سال کی ہوگی کھڑی تھی۔ اس کے کالے اور لمبے بال جو اس دور میں یورپ میں دیکھنے کو کم ہی دکھائی دیتے تھے دلچسپی کا باعث بنے اور ان میں کچھ اپنائیت سی محسوس ہوئی۔ جب اس کا نام پوچھا تو وہ مسلمانوں والا تھا۔ مزید تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ اس کے والد صاحب بھی ایک پاکستانی ہیں جبکہ والدہ یورپین ہے۔ والد مستقل پاکستان میں ہی رہتے ہیں کیونکہ والدین ایک دوسرے سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ وہ مجھے بیٹیوں کی طرح ہی دکھائی دینے لگی تھی۔ کبھی کبھار مارکیٹ میں سودا سلف خریدتے ہیلو ہیلو ہو جاتی تھی

اسی قصبہ میں ایک سرکاری ملازم اور ان کی اہلیہ جو ایک ڈاکٹر کے ہاں ملازمہ تھیں ان کے مشفقانہ روّیہ کی وجہ سے ان سے سلام دعا بڑھ گئی۔ یہ لڑکی انہی کی ہمسائیگی میں اپنی نانی اماں کے ہاں رہتی تھی۔ کچھ سالوں کے بعد پتہ چلا کہ اس لڑکی کی والدہ جس کے ساتھ اس کا واجبی سا تعلق تھا اور کسی اور شہر میں تھیں وہ وفات پا گئی ہیں۔ اب والد نے لڑکی پر اپنا حق جمانا جائز سمجھا۔ اور کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح لڑکی اپنے ایک کزن سے بیاہی جائے۔ اسی غرض سے اس نے تعلق بڑھانا شروع کر دیا۔ ساجدہ بے شک یورپین ماں سے تھی تاہم اس کے اندر ایک قسم کی مشرقیت بھی پائی جاتی تھی۔ ایک طرف تعلیم کا دباؤ تھا تو دوسری طرف والد کی طرف سے ہاتھ پیلے کرنے کا بھی۔ اپنی صحت کا اندازہ لگاتے ہوئے نانی نے اپنا مکان جس میں رہتی تھیں اس ایک ہی وارث نواسی کے نام اپنی زندگی میں لگا دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کی نانی اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور لڑکی تن تنہا حالات سے نبردآزما ہے۔ اگلی ملاقات میں اس نے خبر دی کہ لڑکی کا باپ پاکستان سے آیا ہوا تھا اور وہ ہمیں مختار نامہ دے گیا اس مکان کی دیکھ بھال کا۔

لڑکی جس کے نام مکان ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کو مختار بنانا۔ یہ کیونکر ممکن ہے۔ میری حیرانی پر انہوں نے حیران ہو کر پوچھا آپ کو نہیں پتہ کہ یہ مکان اب اس لڑکی کے باپ کے نام منتقل ہو گیا ہے۔ قانون کے مطابق اب اس لڑکی کا وارث جب اس کا خاوند یا کوئی بچہ نہیں ہے تواس کا باپ ہی بنتا ہے۔ کیونکہ لڑکی نے حالات کی تنگی برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے ٹرین کے نیچے آ کر خود کشی کر لی تھی۔ اسی واقعہ کی خبر اس اخبار میں تھی جو میں نے سرسری نظر ڈال کر کوڑا دان میں پھینک دیا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).