کیا بنک ملازمین، سودخور شمار ہونگے ؟


مولوی صاحبان فرماتے ہیں کہ موجودہ بنکاری سسٹم، دراصل سودی نظام ہے۔ اور یہ کہ سود، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور یہ کہ سود، خدا کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے۔ اور یہ کہ سود کا کمتر درجہ بھی کراہت میں سگی ماں سے زنا برابر ہے۔ اور یہ کہ سود لینے دینے والے کے علاوہ، اس کے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے بھی اس وعید میں داخل ہیں۔

اب ایشو یہ ہے کہ اپنے بچوں کے لئے روزی روٹی کمانے والے لاکھوں بنک ملازمین، اسی وجہ سے مستقل احساس گناہ کا شکار رہتے ہیں۔ اس ذہنی دباؤ کے نتیجے میں ان کا ایک حصہ تو نوکری چھوڑ دیتا ہے جبکہ ایک حصہ، مزید گناہوں پہ جری ہو جاتا ہے ( کہ پاتے نہیں جب راہ، تو چڑھ جاتے ہیں نالے ) ۔ باقی ماندہ ملازمین، سودخوری کے طعنے سنتے جیتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان کا بنکاری نظام، وہی سودی نظام ہے جس بارے قرآن وحدیث میں وعید آئی ہے؟ کہیں ملتے جلتے نام وشکل کی وجہ سے ہم کسی خلطِ مبحث کا شکار تو نہیں ہیں؟

مثال کے طور پرنبی کریم کے زمانے میں گھروں میں لونڈی غلام ہوا کرتے تھے اور آج کی طرح ماہانہ تنخواہ پر گھریلو نوکررکھنے کا رواج نہیں تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ”غلام“ کے بارے میں احکام کو ”نوکر“ پر منطبق کر رہے ہوں؟ ( خیال رہے کہ ”لونڈی“ کے بارے میں احکام کو ”گھر کی ماسی“ پر لاگو کرنے سے ناگوار صورتحال درپیش ہوسکتی ہے ) ۔

باقی ساری دنیا کی طرح، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی گذشتہ ستر سال سے وہی معاشی نظام رائج ہے جس کو سودی نظام قراردے کر مولوی صاحبان، اس گناہ کبیرہ کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف زمینی صورتحال یہ ہے کہ اسی معاشی نظام سے ہی پبلک کو تنخواہیں اداکی جاتی ہیں۔ ( ان علماء کو بھی جو پارلیمنٹ، اوقاف یا سرکاری کمیٹیوں کے ارکان ہیں ) ۔ عوام بھی مروج ”سودی نظام“ سے کمائی کرکے، خیرات وچندہ دیتے ہیں جس سے مدراس اسلامیہ چلتے ہیں ( اور اسلام زندہ ہوتا ہے ) ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر، سراج الحق صاحب نے بطور صوبائی وزیرخزانہ، سود کی شرح مزید بڑھائی تھی ( ان کے حالیہ اتحادی اور اس وقت کے اپوزیشن ایم پی اے، مفتی فضل ٖغفور صاحب نے ہی یہ انکشاف فرمایا تھا ) ۔

درایں حالات، اس سوال پہ غورکرنا بہت اہم ہے کہ کیا پاکستان کا بنکاری نظام، واقعی سودی نظام ہے؟
پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سود کیا چیزہے اور اس قدر بڑا گناہ کیوں ہے؟

جناب نبی کریم کے زمانہ میں ( اس سے قبل بھی ) ایک معاشی نظام رائج تھا کہ کسی مجبور آدمی کو قرض درکار ہوتا تو وہ کسی دولت مند شخص سے ( سیٹھ یا مہاجن کہہ لیں ) ، ایک خاص میعاد کے لئے، اس شرط پہ ادھار لیتا تھا کہ اصل سے زائد رقم واپس کرے گا، چاہے اس کی ضرورت پوری ہو یا نہ ہو۔ ( آج بھی پاکستان کے بعض علاقوں، اسی ہیت کے ساتھ یہ رائج ہے ) ۔

اسلام، سوسائٹی کے ہرفرد کو، اس لحاظ سے فعال دیکھنا چاہتا ہے کہ اپنی صلاحیتیں، کائنات کی تسخیر میں صرف کرے ( جس کا اصل مقصد، انسانیت کی فلاح ہو) ۔ کوئی فرد بھی کام کیے بغیر، گھر بیٹھ کرنہ کھائے کیونکہ اس کی یہ مفت خوری، سوسائٹی کے لئے مزید قباحتوں کا سبب بنتی ہے۔ ( اسلام کو امیروں سے خواہ مخواہ کا بیرنہیں مگروہ کسی فرد کو بھی گردن کا پسینہ نکالے بغیر، امیرسے امیر تر ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا ) ۔

قرآن یہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں دولت کی گردش رک نہ جائے اور دولت، صرف ایک امیر طبقے میں ہی جمع ہوکرنہ رہ جائے۔ یہاں ”دولت کی گردش“ سے مراد ”پازیٹیو گردش“ ہے یعنی بزنس وغیرہ، جس کی وجہ سے کمزور طبقات کو ابھرنے کا چانس ملتا رہے ( یا کم ازکم ضمنی طور پر سماج کو فائدہ پہنچتا رہے ) ۔ یہ وضاحت اس لئے عرض کردی کہ ”عیاشی“ میں بھی دولت کی گردش تو ہوتی ہے مگر وہ ”نگیٹیو گردش“ ہے کیونکہ سوسائٹی ”تسخیر کائینات“ برائے ”فلاح انسانیت“ کے قرآنی آدرش سے محروم ہو جاتی ہے۔

مگر سود کا نظام ایسا ہوتا ہے کہ امیر آدمی کو بزنس کا رسک لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور وہ گھربیٹھ کر صرف پیسہ پر ہی پیسہ بناتا رہتا ہے جس کی بنیاد پر سوسائٹی میں ایک مفت خور، کاہل مگر دولت مند طبقہ وجود میں آتا چلا جاتا ہے جو عموماً عیاش اور ظالم ہوتے ہیں۔

پھربات عیاشی تک نہیں ہے بلکہ یہ مفت خور مافیا، صرف پیسے کی بنیاد پر، عالمی بزنس کو کنٹرول کرلیتی ہے اور اپنی مرضی سے منڈیوں کے بھاؤ طے کرتی ہے۔ پھر ساری انسانیت، اپنی بنیادی ضروریات کے لئے بھی، ان کے رحم و کرم پہ آ جاتی ہے جبکہ خدا اپنی مخلوق کو اس عیاش اور ظالم طبقہ کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔ سود چونکہ عالمی ننگ وفقر کا بنیادی سبب ہے، اسی وجہ سے یہ بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔

مگر آپ غور کیجئے گا کہ موجودہ بنکاری نظام، اس سودی نظام سے مختلف ہے جو فتح مکہ سے لے کر، گذشتہ صدی تک اس دنیا میں رائج رہا ہے۔ (اور اب بھی فردی شکل میں باقی ہے ) ۔ اس لئے کہ اس بنکاری نظام میں دو بنیادی سٹیک ہولڈر ہی اپنی حقیقت میں ان سے مختلف ہیں جو زمانہ نبوی میں موجود تھے۔ یعنی سود پررقم دینے والا مہاجن ( یا سیٹھ ) اور قرض لینے والا ضرورت مند ( یا محتاج ) ۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔

بنک میں قرض خواہ اور قرض دہندہ کا سٹیٹس بدلتا رہتا ہے۔ کبھی تو عام لوگ، بنک کو قرض دیتے ہیں ( یعنی اکاونٹ کھولتے ہیں ) اس شرط پرکہ مقررہ میعاد بعد زیادہ پیسہ واپس لے سکیں۔ اور کبھی عام لوگ بنک سے قرض لیتے ہیں اس شرط پر کہ ایک میعاد بعد زیادہ پیسہ واپس کریں گے۔ بادی النظر میں یہ سود ہی لگتا ہے مگر ”علت“ پر غور کرنے سے شاید نتیجہ مختلف نکلے گا۔ ( بنیادی بات یہ کہ فی زمانہ، بنک اور کسٹمر، ہر دوفریق میں کوئی مجبور وبے کس نہیں ہوتا جس کی بنا پر کہا جائے کہ اس کا خون چوسا جارہا ہے ) ۔

چونکہ پاکستان کے معاشی سسٹم میں دو طرح کا بنکاری نظام مروج ہے (سرکاری اور پرائیوٹ) تو آگے ان دونوں بارے الگ الگ بات کرتے ہیں۔
موجودہ سرکاری بنکاری میں، نہ صرف یہ کہ زمانہ جاہلیت والے ”سیٹھ“ کا وجود نہیں ہے بلکہ دولت کا یک فردی ارتکاز بھی نہیں ہوتا۔

عوام جس سرکاری بنک سے ”سود“ پہ قرض لیتے ہیں، وہ دراصل خود عوام سے ہی قرض لے رہے ہوتے ہیں ( پبلک بنک عوام کے ٹیکسوں سے وجود میں آتے ہیں ) ۔ یہ تقریباً ایسی صورت ہے جیسا کہ محلے میں کمیٹی ڈالی جاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنک کو اصل قرض سے زیادہ پیسہ واپس کیا جاتا ہے ( جسے وہ منافع کہتے ہیں ) مگر وہ بھی ایک ”سیٹھ“ کی جیب میں نہیں جاتا بلکہ اس منافع کا ایک حصہ، بنک کے ملازمین کی معاشی بہتری میں صرف ہوتا ہے۔ (یہ صورتحال، دور نبوی والی نہیں ) ۔

یہ بنک ملازمین کسی سیٹھ کے گھر کے خاندانی منشی نہیں ہوتے بلکہ عوام میں سے ہی میرٹ پہ سلیکٹ کیے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کی تاحیات ملازمت نہیں ہوا کرتی بلکہ بنکوں کے سربراہ بھی ریٹائر ہوجایا کرتے ہیں جس کا مطلب یہ کہ یہ ایک مافیا نہیں بن جاتا۔ (یہ صورتحال بھی، دورنبوی والی نہیں ) ۔

البتہ اس منافع ( یا انٹرسٹ) کا ایک حصہ حکومت کوجاتا ہے جو ظاہر ہے کہ کسی خاص فرد کو امیر سے امیر ترنہیں بناتا بلکہ عوام ہی کی فلاح کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ (یہ صورتحال بھی، دورنبوی والی نہیں ) ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2