ماسٹر مدن: چودہ برس کی عمر میں لیجنڈ بننے والا فنکار


1940 کی دہائی برصغیر کی کلاسیکی موسیقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ دور کندن لال سہگل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ پردیپ قوی، بیگم اختر، جوتھیکا رائے، مبارک بیگم، ثریا، اوما ں دیوی اور زہرا بائی انبالے والی بھی اپنی مثال آپ تھیں جبکہ نور جہاں، محمد رفیع اور طلعت محمود، مکیش وغیرہ اپنی عمر کے ابتدائی سالوں میں تھے۔ ان سب نے خوب نام کمایا۔ تایخ گواہ ہے کہ کچھ لوگوں کو قدرت اپنی کمال مہربانی اور عطا سے ایسی صلاحیتوں سے نواز دیتی ہے کہ زمانہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔

اصل میں ایسے لوگ ستاروں بھری کہکشائیں ہیں جو انسانوں کے روپ میں زمین پہ اترتی ہیں۔ اسی دور میں ایک اور فنکار بھی منظر عام پہ آیا، بھلے لوگ اس کے نام سے زیادہ واقف نہیں مگران کی سحر انگیز آواز اور گائیکی آج بھی سمجھ کر سننے والوں کے لئے عجوبہ سے کم نہیں۔ ان کا نام ماسٹر مدن تھا جو بہت کم عمری میں ہی گزر گئے، صرف تیرہ سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گئے۔ اتنی کم سنی اور قلیل مدت میں انہوں قدرت کے عطا کردہ فن کے وہ جوہر دکھائے جس کی نظیر ملنا محال ہے۔ جیسے یہ خوبصورت غزل،

حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے

تو نے بنا دیا ہے محبت میں کیا مجھے

ماسٹر مدن 26 دسمبر 1927 میں قصبہ، خان خاناں، ضلع جالندھر میں سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یہ قصبہ اکبر کے مشہور رتن عبدالرحیم خان خاناں کے نام پر تھا۔ باپ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے۔ پہلی عوامی پرفارمنس صرف چار سال کی عمر میں کچھ ایسے دی کہ راتوں رات پورے ملک میں آگ کی طرح شہرت پھیل گئی۔ مرد، خواتین، پیرو جواں سب ان کی محفلوں میں دیوانہ وار آنے لگے۔ اس عمر میں بھی گرو نانک کا فوٹو اور گرنتھ صاحب ہر وقت اپنے پاس رکھتے۔

ان کی غیر معمولی گائیکی کی کارکردگی کی خبریں اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ ان کی محافل میں لوگوں کو جگہ ملنا دشوار ہو گئی اور شہرت کے حوالے سے ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کا محاورہ ان پر عین صادق ٹھہرا۔ پنجاب، یوپی، سی پی، شملہ، گجرات، بریلی غرض ملک کے طول و عرض کے لوگ ان سے محفل کے لئے ٹائم لینے کی خاطر قطاروں میں کھڑے نظر آتے۔ 1940 میں شملہ میں گا ندھی جی کا جلسہ اور ماسٹر مدن کی محفل ایک ہی وقت میں سج گئی مگر ان کی محفل میں گاندھی سے دو گنا زیادہ لوگ آئے۔ محفلوں میں انہیں بے شمار انعامات اور میڈلز سے نوازا جاتا جنہیں لے کر گھر جاتے تو گھر والے حیران و پریشان ہو جاتے۔ سات سال سے تیرہ سال تک پورے برصغیر میں اپنی آواز کا ان مٹ جادو جگا دیا۔ شملہ سینیٹوریم میں اک غزل کے یہ ا شعار کچھ اس انداز سے گائے کہ لوگ پوری زندگی بھلا نہ پائے،

یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے آیئے، آ جایئے آ جایئے

پھر وہی دانستہ ٹھوکر کھایئے پھر میری آغوش میں گر جایئے

میری دنیا منتظر ہے آپ کی اپنی دنیا چھوڑ کر آ جائیے

مگر 1942 کی وہ یادگار محفل کون بھول سکتا ہے جس میں آدھی رات کو لازوال ٹھمری ”بنتی سنو میری“ اس قدر دل اور روح سے گائی کہ سامعین وحاضرین پہ وجدان طا ری ہوگیا یہاں تک کہ کچھ لوگوں کے مطابق انہوں نے اس گیت کے دوران آسمان سے سفید لباس میں ملبوس پریا ں اترتی بھی دیکھیں۔ افسوس کہ یہ پرفارمنس ان کی آخری پرفارمنس ثابت ہوئی کیونکہ ان کی کارکردگی اور شہرت نے ہم عصر فنکاروں کے دلوں میں حسد اور جلن کے انگار سلگا دیے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی رات کسی ذریعے سے ماسٹر مدن کو کھانے میں زہر دے دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے مطابق کلکتہ ریڈیو سٹیشن میں انہیں زہریلا مشروب یا پارہ دیا گیا۔ مزید یہ کہ سخت ریاضت اورمحافل موسیقی کی بھرمار نے صحت ویسے ہی متاثر کر دی تھی۔ اس دن سے یہ سحر انگیز آواز خاموش ہونا شروع ہو گئی اور وہ کافی علیل ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے بھی زہر کی تصدیق کردی۔ ستم تو یہ ٹھہرا کہ ان کے مرض کو لاعلاج قرار دیا گیا اور چند روز بعد یہ عظیم فنکار اسی حالت میں صرف چودہ برس کی عمر میں 5 جون 1942 میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ان کی آخری رسومات ان کے تمام تمغوں اور انعامات سمیت ادا کی گئیں۔ ان کے گائے ہوئے گیتوں کی زیادہ معلو مات دستیاب نہ ہیں تاہم بڑی تگ دو اور تلاش کے بعد صرف آٹھ گانے مل پائے ہیں مثلاً

یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے،

راوی دے پرلے کنڈے وے مترا وسدائے دل دا چور،

باگاں وچ پینگاں پئیاں،

بنتی سنو میری

من کی من میں رہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).