اوکاڑہ کے سیاسی کارکن رانا محمد اظہر کی یاد داشتیں


 

وہ زمانہ نہیں رہا جب ملازم بچوں کو بھولپن میں کہنا پڑتا تھا کہ صاحب کہتے ہیں، میں گھر پر نہیں ہوں۔ اب دروازے کی کال بیل کی بجائے سیل فون کا زمانہ ہے۔ لیکن مزے کی بات ہے کہ سیل فون سے رابطہ کرنے پر ویسا ہی جواب ملتا ہے، میں میٹنگ میں ہوں۔ حنا جمشید ساہیوال ڈگری کالج میں اردو ادبیات پڑھاتی ہیں۔ کالم نگار ان سے ملا تو نہیں۔ ان کی کچھ تصویریں اورتحریریں ضروردیکھی ہیں۔ اس باوقار خاتون کی نثر بھی باوقار ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اوکاڑہ کے معمر سیاسی کارکن رانا محمد اظہر سے ملاقات کے احوال لکھے ہیں۔ اس میں رانا محمد اظہر کی کتاب ”ایک سیاسی کارکن کی یاد داشتیں“ کا ذکر بھی ہے۔ سیاست کی منڈی میں گھاٹے کا بیوپار کرنے والے یہ دیوانے کالم نگار کو بہت عزیز ہیں۔

زیاں ہے عشق میں ہم جانتے ہیں مگر                 

معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے

کالم نگار کو اسی کتاب کی جستجو میں حنا جمشید سے فون پر بار بار رابطے سے ان کے میٹنگ میں ہونے کا پتہ چلتا رہا۔ آخر میسیج کیا، مجھے صرف رانا محمد اظہر کا رابطہ نمبر چاہئے۔ فی الفور مہربانی فرما دی گئی۔ بوڑھے اور بیمار رانا محمد اظہر نے اس کتاب کے لئے ساہیوال کے ذکریا خاں سے رجوع کرنے کو کہا۔ ذکریا خاں کو اس بھولی بسری کتاب کا ذکر بہت اچھا لگا۔ ان کے پاس کتاب کی آخری جلد محفوظ تھی۔ کمال مہربانی سے کتاب فوٹو اسٹیٹ کروا کے بھجوا دی۔ سو صفحات پر مشتمل اس تحریر میں پاکستانی سیاست کے بارے پڑھنے والوں کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔

رانا اظہر اور حنا جمشید

رانا محمد اظہر اس قافلہ سخت جاں کے مسافر ہیں جو 70ء کی دہائی میں اپنا ملک سنوارنے نکلا تھا۔ ان دنوں ابھی تعلیم فروشوں کی دکانیں سجی سنوری نہیں تھیں۔ تعلیم ارزاں تھی۔ معیار تعلیم کا یہ عالم کہ 1960ء میں میونسپل کالج اوکاڑہ کے پرنسپل ڈاکٹر عطا محی الدین کیمرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی تھے۔ ان دنوں کھیل کے میدان کے بغیر کسی درسگاہ کا تصور محال تھا۔ اسکول کے بچوں کو گیارہ بجے دودھ کا لبالب بھرا گلاس بھی مل جاتا کہ ابھی زبیدہ جلال جیسی ”معزز خواتین“ سیاست میں نہیں آئی تھیں۔ رانا محمد اظہر کو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، صفدر میر، پطرس بخاری، صوفی غلام مصطفی تبسم، پروفیسر حمید احمد خاں، عبدالمجید سالک، علامہ علاﺅ الدین صدیقی اور ڈاکٹر سراج الدین جیسے اساتذہ کو دیکھنے اور ان سے پڑھنے کے مواقع نصیب ہوئے۔ پھر پنڈی سازش کیس والے میجر اسحاق اور کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، عابد حسن منٹو اور سید افضل حیدر جیسے ہم جماعت اور ہم نشیں میسر آئے۔

رانا محمد اظہر 1961ء میں اوکاڑہ تحصیل میں بطور وکیل آئے۔ موسیقی، ڈرامہ اور ادب سے بھی دلچسپی رہی۔ 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اب یہ اوکاڑہ پیپلز پارٹی کے کنوینر تھے۔ سیاست میں بہت سرگرم رہے۔ پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس کا ذکر کرتے ہیں۔ آج یہ کتنی عجیب بات لگتی ہے کہ لاہور میں منعقد اس تقریب میں لاﺅڈ اسپیکر کااستعمال نہیں ہوا۔ اس اجلاس کے صدر ملک اسلم حیات تھے اور اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ملک حامد سرفراز نے سر انجام دیئے۔ بھٹو نے جے اے رحیم کا نام پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے لئے پیش کرتے ہوئے ان کا تعارف پارٹی کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی کے طور پر کروایا۔ بھٹو نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ جے اے رحیم Muslim Jurisprudence  کے مصنف سر عبدالرحیم کے صاحبزادے ہیں۔ وہ علم اور کتاب کا زمانہ تھا۔ سو ایسے حوالے معتبر سمجھے جاتے تھے۔

جے اے رحیم نے اپنی مختصر تقریر میں مارکسزم کوغیر طبقاتی اور غیر استحصالی معاشرے کی تشکیل کا علم قرار دیا۔ ان کے بعد بابائے سوشلزم شیخ رشید غریب کسانوں اور مزارعوں کے ساتھ اپنے جذباتی لگاﺅ لئے اسٹیج پر آئے۔ آج یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ اجلاس میں دوپہر کی بریک ہوئی اور ہمارے رانا محمد اظہر پنڈال سے چائے کی تلاش میں باہر نکل آتے ہیں۔ اس کے بعد رانا محمد اظہر کی اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کی تنظیمی سرگرمیوں کی داستان ہے۔

اوکاڑہ کے حق بازار کی ایک گلی میں گھر کی بیٹھک میں بنی چائے کی دکان ان کی سرگرمیوں کا مرکز ٹھہرتی ہے۔ 1969ء میں اوکاڑہ میں بھٹو کے جلسہ عام کا کل خرچہ مبلغ 3000/- روپے بتایا گیا ہے۔ اس چندہ میں بیس اور پینتیس روپے دینے والے غریب ریڑھی والے بھی شامل ہیں۔ پھر 70ء کی الیکشن کمپین میں کارکنوں سے کہا جاتا ہے ”روٹی اپنے اپنے گھر سے کھائیں، ہمارے پاس یہاں کوئی انتظام نہیں ہے“۔

کالم نگار کو یاد آرہا ہے کہ اس الیکشن میں گوجرانوالہ میں بھٹو کے جیالے کھانا مسلم لیگی کیمپوں سے کھا لیا کرتے تھے۔ مسلم لیگی امیدوار قومی اسمبلی عزیز ذوالفقار کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ اس زمانہ میں یہاں سے صوبائی اسمبلی کے مسلم لیگی امیدوار خان غلام دستگیر خان تھے۔ ان کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کے بھاری اکثریت سے جیتنے والے امیدوار ”سائیکل سوار“ اسماعیل ضیا تھے۔ آج کل کے ممبران اسمبلی کے برعکس موت تک وہ سائیکل سوار ہی رہے۔

رانا محمد اظہر نے سیاسی جماعتوں کا المیہ لکھ دیا ہے۔ ”آج ہماری سیاسی جماعتیں عوام کی جماعتیں نہیں ہیں۔ سیاست چند امراء کا شغل ہے۔ ان کے حاشیہ بردار سیاسی کارکن کہلواتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے کاموں کی خاطر ان سے چمٹے رہتے ہیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں برادری ازم کو بہت ہوا ملی ہے۔ ڈرگ مافیا، قبضہ مافیا اور پولیس دلال معزز پیشے بن چکے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ خود منتخب نہ ہو سکیں تو بھی دھڑے کے اہم ممبر ہوتے ہیں۔ ان کے کام سرکارے دوارے نکلتے رہتے ہیں۔ ایسا کلچر جمہوری قوتوں کے راستے کی دیوار ہے“۔ پھر اس ”راجپوت کہانی “ کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ جب بھٹوکی بیٹی بے نظیر بھٹو اقتدار حاصل کرنے کے ارادے سے معافی تلافی لینے امریکہ روانہ ہو ئیں تو رانا محمد اظہر نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا۔

مِری ندیم محبت کی رفعتوں سے نہ گر

بلند بامِ حرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).