کچھ ذکر پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ماہر طبعیات ڈاکٹر ریاض الدین کا


اکتوبر 1947ء میں لدھیانہ کے ایک متوسط خاندان نے پاکستان کو ہجرت کی۔ اِس خاندان کی میزبانی کا شرف لاہور کو حاصل ہوا۔ اِس خاندان میں دو جڑواں بھائی، ریاض الدین اور فیاض الدین، بھی شامل تھے۔ ہجرت سے قبل دونوں بھائیوں کو انجمنِ اسلامیہ کی زیرِ نگرانی چلنے والے اسکول میں داخل کروایا گیا۔ ہجرت کے وقت دونوں کی عمریں بمشکل سترہ برس تھیں۔ جہاں ایک جانب دوسرے ہجرتی ابھی تک تقسیم کے سحر سے باہر نہ نکل پائے تھے، وہیں یہ دونوں بھائی ان حالات سے بے نیاز تحصیلِ علم کے خواب دیکھنے میں مصروف تھے۔ اپنا سب مال اسباب سرحد کی بے رحم لکیر کے اُس جانب چھوڑ آنے کے با وجود دل میں نئے وطن کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔

جہاں ایک جانب روزگار کی فکر چھائی ہو اور دوسری جانب سر پہ مستقل سائبان نہ ہو، وہاں تعلیم پہ اہمیت دینا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ مگر قسمت بھی شاید دونوں بھائیوں کی مدد کر رہی تھی کہ انہیں ایک ایسے گھرانے میں پروان چڑھایا جو تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔ دونوں بھائیوں کے جذبۂ تحصیلِ علم کو دیکھتے ہوئے ابتدائی طور پہ گورنمنٹ محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج لاہور میں داخل کروایا گیا۔ ایم اے او کالج میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد دونوں بھائی گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونی ورسٹی لاہور آ گئے۔

ریاض الدین نے پنجاب یونیورسٹی سے 1951 ء میں بی ایس سی ریاضی کا امتحان پاس کیا۔ اِس امتحان کی سب سے منفرد بات یہ تھی کہ ریاض الدین کو ڈاکٹر عبدالسلام کی نگرانی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ریاضی کے طالب علم کی حیثیت سے آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام سے، اُس دور میں، کوانٹم مکینکس جیسا قدرے مشکل اور پاکستانی ماحول کے لحاظ سے نسبتاً نیا مضمون پڑھا۔ اِس مضمون کی ایک اور خاص بات کچھ ان موضوعات اور رجحانات کا مطالعہ بھی تھا، جو کہ عمومی کورس میں شامل نہیں تھے۔

بعض مورخین کے مطابق ریاض الدین بی ایس سی میں کوانٹم مکینکس میں پاس ہونے والے ڈاکٹر عبدالسلام کے واحد شاگرد بھی تھے۔ کوانٹم مکینکس اور ریاضی میں ریاض الدین کی اِس متاثر کُن دلچسپی نے ڈاکٹر عبدالسلام کو بے حد متاثر کیا۔ 1951 ء میں ڈاکٹر سلام نے ریاض الدین کے لئے وظیفہ مقرر کروایا اور پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی میں داخلے میں ریاض الدین کی مدد کی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی ریاض الدین میں دلچسپی نہ صرف ریاض الدین کی علمی قابلیت پہ دلیل تھی بلکہ ڈاکٹر سلام کی دور اندیشی کا ایک مظاہرہ بھی، کہ انہیں لدھیانہ سے ہجرت زدہ طالب علم میں مستقبل کا ایک بڑا سائنسدان پنپتا نظر آ رہا تھا۔

ڈاکٹر سلام 1951 ء سے 1954 ء تک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں فزکس کے پروفیسر تعینات تھے مگر اُن کے پاس پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ ریاضی کے چئیرمین کا عہدہ بھی تھا۔ چونکہ ریاض الدین نے ایم ایس سی فزکس میں تحقیقی مقالہ کے لئے ریاضیاتی فزکس (Methods of Mathematical Physics) کو منتخب کیا، لہٰذا آپ کو ڈاکٹر سلام اور پروفیسر رفیع محمد چوہدری جیسے بڑے سائنسدانوں کے زیرِ سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ ریاض الدین نے یہاں بھی اپنی صلاحیتوں سے ڈاکٹر سلام کو متاثر کیا۔ 1953 ء میں شائع ہونے والے اِس مقالے نے ملک کے سائنسی حلقوں میں ریاض الدین کو متعارف کروایا۔ ریاض الدین ایم ایس سی میں پنجاب یونی ورسٹی کی جانب سے گولڈ میڈل کے حقدار قرار پائے۔

ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے ریاض الدین نے دنیا کی عظیم درسگاہوں میں سے ایک، کیمبرج یونی ورسٹی برطانیہ کا انتخاب کیا۔ تاہم 1956 ء میں کیمبرج جانے سے پہلے آپ نے کچھ عرصہ پنجاب یونی ورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ کیمبرج میں بھی ریاض الدین کی قابلیت اور ڈاکٹر سلام کی سرپرستی کی بدولت آپ کو وظیفہ کا حقدار قرار دیا گیا۔ سابقہ دلچسپی کے باعث آپ نے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالہ کے لئے نظری طبیعات (Theoretical Physics) کے تحت Charge Radius of Pion کا موضوع منتخب کیا۔ اِس مقالہ کے باعث 1959 ء میں کیمبرج یونی ورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ یہ مقالہ 15 مئی 1959 ء کو طبیعات کے ایک معتبر جریدے فزیکل ریویو میں شائع ہوا۔

ڈاکٹریٹ کی سند ملنے کے بعد آپ واپس پاکستان تشریف لے آئے اور 1959 ء میں اپنی مادرِ علمی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ تعلیمی مصروفیات کے باوجود آپ نے تحقیقی کام میں کمی نہیں آنے دی۔ قدرے محدود ماحول اور مواقع کے باوجود فزکس میں تحقیقی کام میں آپ اپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ 1963 ء میں مابعد ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں نارمن مارک (Norman Mark) اور مائیکل ڈف (Michael Duff) نے آپ کو راچسٹر یونی ورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ پروفیسرشپ کی دعوت دی۔ جسے آپ نے قبول کیا اور امریکہ عازمِ سفر ہوئے۔ یہاں آپ کا قیام دو سال پہ محیط تھا۔ 1965 ء میں ہی آپ کو پنسلوانیا یونیورسٹی میں فزکس پڑھانے کے لئے مدعو کیا گیا۔ آپ نے 1966 ء تک اِس عہدے پہ کام کیا۔

پاکستان واپس آنے سے پہلے آپ کچھ عرصہ کے لئے شکاگو تشریف لے گئے اور وہاں اپنے بھائی فیاض الدین، فہیم حسین اور پیٹر رٹولی کے اشتراک سے شکاگو یونی ورسٹی میں اضافیت پہ ایک گروپ تشکیل دیا۔ اِس گروپ نے قلیل عرصے میں کئی اہم تحقیقی مقالے شائع کیے ۔ 1966 ء میں ہی آپ نے فیاض الدین کے ساتھ مل کر فزیکل ریویو میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ ریاض الدین اور فیاض الدین کے کام سے بے خبر بعینہٖ یہی تحقیقی کام اُس دوران دو جاپانی سائنسدان کوارا بیاشی اور سوزوکی بھی کر رہے تھے۔ نظری طبیعات میں یہ مقالہ KSRF Relation کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ مقالہ نظری طبیعات دانوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2