آبادی کا بم اور ثاقب نثار کے مشورے


چیف جسٹس ثاقب نثار دوسال اپنی خود نمائی، انا پرستی اور طاقت کے اظہار کا ڈھول پیٹ پیٹ کر رخصت ہوئے۔ اپنی ذات کی شناخت بڑھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کوئی شعبہ بشمول صحت، تعلیم، بلدیتی ادارے اور صحافت سمیت خاندانی منصوبہ بندی تک میں قدم رنجہ فرماتے رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت سیاستدان اور میڈیا پورے ترنم کے ساتھ ان کے گن گاتے رہاحتٰی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کا دن آ گیا۔ ان کی ریٹئرمنٹ کے بعد ان کی خوشامد کا دور بھی ختم ہوا۔

افسوس ہے۔ اب تو ان کے بغیر خبرنامے اور ٹاک شوز بھی پھیکے پڑ گئے ہیں۔ ایک دن فرمایا کہ آبادی کا بم پھٹنے والا ہے۔ پوری قوم مل کر آبادی کنٹرول کرے۔ قبل ازیں آپ نے اپنے گھر سے آبادی کنٹرول کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیا بابا رحمتے اس اعلان سے پہلے آبادی بڑھانے کا ارادہ فرمائے ہوئے تھا؟ آپ نے علما اور دیگر طبقات کو حکم دیا ہے کہ آبادی کنٹرول کریں ورنہ؟ اس حکم میں آبادی کنٹرول نہ کرنے کی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔

ایسا حکم جسے نہ ماننے پر جیل یا کوڑے مارنے کی سزا تجویز نہ کی گئی ہو مشورہ کہلاتی ہے۔ عام الفاظ میں چیف صاحب نے پاکستانیوں کو آبادی نہ بڑھانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ اس سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے مشورے دینے کے لئے حکومت نے ہر گلی محلے اور گاؤں میں منصوبہ بندی سنٹر کھولے ہوئے ہیں اور وہ بھی ستّر سال سے اسی طرح کے مشورے دے رہے ہیں۔ حکومت ان کی تنخواہ کی مد میں اربوں روپے خرچ کرتی ہے مگر آبادی بے حساب بڑھتی جا رہی ہے جیسے پولیس کی نفری بڑھ رہی ہے، محکمے زیادہ ہو رہے ہیں، اسی رفتار سے کرائم بڑھ رہا ہے۔

جیسے حکومت میں معیشت دان بڑھتے جارہے ہیں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ میرا خیال تھا عدالت بچے پیدا کرنے والوں کی سزا مقرر کرے گی۔ کم از کم نوٹس تو ضرور ڈالے گی۔ نوٹس ڈالتی تو لاکھ دو لاکھ بندے اپنے چھ چھ سات سات بچے اٹھائے سپریم کورٹ پیش ہوتے۔ کئی وکیل فیض یاب ہوتے۔ ریلوے اور بس کمپنیوں کا منافع بڑھ جاتا۔ سپریم کورٹ کے باہر گول گپے اور سموسے پکوڑوں کی رہڑھیاں لگ جاتیں۔ کچھ نہ کچھ لوگوں کا روزگار لگ جاتا لیکن اس نے بھی مشورہ دے ڈالا۔

ہمارے ملک میں ڈاکٹر کے سوا ہر بندہ مفت مشورے دینے کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اللہ نہ کرے کوئی بیمار پڑے۔ تیمار دار ایک آدھ نسخہ یا ٹوٹکا بتائے بغیر واپس جانا گوارہ نہیں کرتے۔ کئی تو بضد ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے ان کے مشورے پر عمل کیا جائے۔ آبادی بڑھانے والی جوان نسل کسی کی بات ماننے پر البتہ تیار نہیں۔ بلکہ لوگ بابا رحمتے کی عمر میں بھی نانا دادا بننے کے چکر میں رہتے ہیں۔ خود تو بچے پیدا کرنے کی عمر سے نکلے ہوتے ہیں مگر اپنے جوان بچوں کو اس کام لگا دیتے ہیں۔ بڑے خوش ہوتے ہیں۔ مٹھائی بانٹی جاتی ہے نانا بننے پر یا دادا۔

اپنی فیملی کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنے کا نام خاندانی منصوبہ بندی کہلاتا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے ایک سیمینار ہو رہا تھا۔ ایک مقرر نے اپنی تقریر کا مضمون یوں باندھا۔ فرمایا کہ آبادی کنٹرول کرنے کے دو طریقے ہیں۔ اوّل یہ کہ شرح اموات بڑھا دی جائے۔ دوسرا یہ کہ شرح پیدائیش کم کر دی جائے۔ ہماری بدقسمتی سے یہاں تین بچے پیدا ہوتے ہیں تو ایک شخص مرتا ہے۔ کسی نے آواز لگائی! اگر بچے کم پیدا ہوئے تو مرنے والے بھی اسی شرح سے کم مریں گے۔

مقرر نے اس بات کا برا نہ مانا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے نیم حکیموں اور عطائیوں نے شرح اموات بڑھانے کی پوری کوشش کی ہے۔ دیہات کی دائیوں اور لیڈی ہیلتھ ورکروں نے بھی بچوں کی اموات بڑھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ دم کرنے والے مولوی اور جنات رکھنے والے عامل بھی اس حوالے سے پوری یکسوئی کے ساتھ کام کر رہے ہیں لیکن شرح اموات اتنی نہیں بڑھ سکی جتنی شرح پیدائیش۔ دراصل بچے پیدا کرنے والی نسل جوان ہے۔

اس میں جوش ہے، ولولہ اور تازگی ہے۔ مرنے والی نسل زیادہ تر بوڑھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ نسل تھکی ہوئی ہے۔ مرنے میں بھی اتنی دیر لگا دیتی ہے کہ شرح اموات بڑھ نہیں سکتی۔ مقرر نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا پہلے تو قدرت خود ہی شرح اموات بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ طاعون کی ایک وبا پوری دنیا کی فیملی پلاننگ کر دیا کرتی تھی۔ چیچک کی وبا کروڑوں لوگوں کو ابدی نیند سلا کر باقی دنیا کو سکھی کر جاتی۔ سیلاب اور زلزلے اچھی خاصی فیملی پلاننگ کردیا کرتے تھے۔ اس حساب سے سائینس نے شرح اموات پر قابو پاکر آبادی بڑھانے کا کام کیا ہے۔ اب آبادی کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، نئے آنے والے بچوں کا راستہ روکا جائے یعنی ان کی شرح پیدائیش کم کردی جائے۔

یہ سیمینار کنڈوم بیچنے والی ایک کمپنی نے منعقد کرایا تھا اس لئے مقرر نے فیملی پلاننگ کے طریقے بتانے شروع کر دیے۔ اس نے کنڈوم کے فوائید بتاتے ہوئے کہا ”یہ فیملی پلاننگ کا محفوظ طریقہ ہے“۔ اس کا نہ عورت کو کوئی نقصان ہے نہ مرد کو۔ ایک صاحب جو بڑے دھیان سے تقریر سن رہے تھے کہنے لگے ”مجھے تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کنڈوم استعمال کرتے کرتے میرے چھ بچے ہو گئے۔ مارکیٹ میں اتنے گندے کنڈوم ملتے ہیں کہ کھولنے میں اتنی دیر لگ جاتی ہے کہ نئے بچے کی بنیاد رکھی جا چکی ہوتی ہے“۔

مقرر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا! ہر کام میں جلدی اچھی نہیں ہوتی۔ صاحب نے ایک اور نقص نکالتے ہوئے کہا ”جناب یہ پھٹ بھی تو جاتا ہے“۔ مقرر نے پھر سمجھایا ”یہ نازک چیز ہوتی ہے۔ اسے افراتفری میں استعمال نہیں کرتے۔ اس کی قوت برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے“۔ سیمینار میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جن کے چھ چھ سات سات بچے تھے۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی کہ آبادی کنٹرول ہوتی ہے یا نہیں۔ کمپنی نے چونکہ کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا اس لئے ان کا دھیان کھانے کی طرف زیادہ اور تقریر کی طرف کم تھا۔ دراصل یہ لوگ خوب کھاتے ہیں اور خوب بچے پیدا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو برملا کہتے ہیں کہ چین اور انڈیا نے آبادی کی وجہ سے غلبہ حاصل کیا ہے اور انڈیا سے ہمارا مقابلہ چل رہا ہے۔ وہ زیادہ بچے پیدا کرکے انڈیا کو شکست دینا چاہتے ہیں۔

خاندانی منصوبی بندی کے طریقے بتانے اور مفت مشورہ جات کے لئے بہبود آبادی پروگرام کے علاوہ محکمہ صحت کا لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام بھی مصروف عمل ہے۔ یہ لڑکیاں گھر گھر خواتین کو منصوبہ بندی کی طرف راغب کرتی ہیں لیکن کہیں خاوند تو کہیں ساس آڑے آجاتی ہے۔ اس حوالے سے مردوں پر کام نہیں کیا گیا۔ ان پر کام کیا جائے تو جائز کے ساتھ ناجائز بچوں کی پیدائش بھی رک جائے گی۔

خاندانی منصوبہ بندی پر سب سے زیادہ یورپ میں عمل ہوا ہے۔ وہاں دو فائیدے ہوئے ہیں۔ اول یورپ میں ناجائز بچوں کی پیدائش رک گئی ہے۔ جس رفتار سے یورپ میں ناجائز بچے پیدا ہو رہے تھے، آدھے سے زائد یورپ ناجائز اولاد پر مشتمل ہوتا۔ دوسرا وہاں آبادی وسائل کے حساب سے کم ہو گئی ہے۔ لہٰذا یورپ خوشحال ہے۔ ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ یورپ میں سیانے ہی سیانے ہیں، بیانا کوئی نہیں لہٰذا بوڑھے کتے بلیوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ہمارے بوڑھے تو پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں لئے پھر رہے ہوتے ہیں۔

یورپ میں بوڑھے مصیبت میں آگئے ہیں۔ ان سے کھیلنے اور گپ شپ لگانے والا کوئی نہیں۔ اولڈ ہومز میں سوشل ورکر ان کا آخری سہارا ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا اقوم متحدہ کو یورپ میں بچے پیدا کرنے کے لئے امدادی ٹیمیں بھیجنی پڑیں گی۔ امدادی پیکیج دینے پڑیں گے جیسے تیسری دنیا اور پاکستان میں اقوام متحدہ کی ٹیمیں آبادی کنٹرول کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).