بھوکوں کا فرقہ


مجمع سے شور بلند ہو رہا تھا، مارو مارو کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ ایک مسلکی عبادت خانے کے داخلی دروازے کا احاطہ تھا، لگ یوں رہا تھا کہ آج کوئی خاص تقریب ہے۔ کسی سے پوچھا تو اس نے بھی تصدیق کی کہ آج خاص تقریب ہے اس لئے خصوصی کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ داخلی دروازے کے باہر احاطے کے ایک کونے میں دیکھا تو واقعی بڑی بڑی دیگیں چڑھی تھیں۔

دیگوں کی بہتات سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں تھا کہ کتنی اقسام کے کھانے بن رہے ہیں، لوگوں نے اس تقریب کے لئے لباس بھی خصوصی پہنے تھے ”تجسس ہوا کہ آخر ماجرا کیا ہے میں بھی دیکھوں، لوگوں کے رش سے جگہ بناتا ہوا مجمع میں اندر داخل ہوا تو ایک شخص کو پورے اہتمام کے ساتھ بری طرح پیٹا جا رہا تھا، اس کے پھٹے کپڑے، گھسے جوتے اور حلیہ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ مار کھانے والے شخص کا تعلق کسی خاص فرقے اور مسلک سے نہیں البتہ بھوکوں کے فرقے سے ہو سکتا ہے۔

وہ فریادیں کر رہا تھا کہ اللہ کے لئے معاف کرو، لیکن اس کی معافی کی التجائیں صدا بہ صحرا ثا بت ہو رہی تھیں۔ ایک شخص جو حلیہ سے مسلکی پیشوا لگ رہے تھے، اس شخص کو مارنے کی خصوصی ہدایات دے رہے تھے، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے کہا اس بے چارے کو کیوں مار رہے ہو، میرا یہ کہنا تھا کہ کئی نفرت آلود نگاہوں کا مرکز بن گیا، ایک طرف سے آواز آئی آپ کون ہوتے ہو، اپنا کام کرو جاو، ایک اور آواز آئی۔ یہ بھی لگتا ہے باہر کا آدمی ہے۔ باہر کے آدمی سے ان کی مر اد میں ان کے مسلک کا نہیں، میں نے ان آوازوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا آخر اتنی بے رحمی سے اسے کیوں مار رہے ہوں چھوڑو اسے، میرا یہ کہنا تھا کہ کچھ اور لوگوں نے بھی میری آواز میں آواز ملائی۔

مجھے حوصلہ ہوا مزید آگے بڑھا، مار کھانے والے کو ان کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہوا، کچھ اور لوگوں نے بھی میرا ساتھ دیا، اسے مجمع سے کافی دور لے آیا، پوچھا کہ تمہیں کیوں مارا؟ صاحب جی، مجھے نہیں معلوم کہ یہاں کسی خاص مسلک کے لوگ جمع ہیں، مجھے تو بھوک نے ستایا تھا، غریب آدمی ہوں، قسم قسم کے کھانے دیکھ کر بہک گیا، مجھ سے رہا نہ گیا، کھانا ابھی شروع نہیں ہوا تھا میں نے کھانا بنانے والے سے کہا بھائی مجھے تھوڑا کھانا دو بھوک لگی ہے۔ اس نے جواب دیا، تقریب ختم ہونے میں بہت دیر ہے کھانا تقریب کے بعد ملے گا۔ اتنے میں ایک نوجوان نے پوچھا، لگتا نہیں آپ ہمارے مسلک سے ہو، میں نے کہا بھائی مجھے اتنا پتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، یہ فرقے اور مسلک میں نہیں جانتا، اور فی الحال تو صرف بھوکا ہوں، یہ کہنا تھا کہ اس نوجوان نے اتنی زور سے تھپڑ رسید کیا کہ مجھے لگا کہ میرے جبڑے ٹوٹ گئے، بس پھر کیا تھا کہ ہر طرف سے مکوں اور لاتوں کا نشانہ بن کر رہ گیا۔

اس مظلوم شخص کی باتیں سن کر مجھے روسو کا ایک واقعہ یاد آیا ایک دفعہ روسو شہر سے باہر گیا آنے میں دیر ہو گئی شہر کے دروازے بند ہو گئے تھے اس نے سوچا دروازے تو بند ہوگئے ہیں، اب اس شہر میں کیا رہنا۔ دور ایک بستی نظر آئی وہاں وہ ایک چرچ میں چلا گیا۔ روسو پروٹسٹنٹ فرقے سے تھا۔ ”کہاں سے آئے ہو“ پادری نے پوچھا ”جنیوا سے،“
”اچھا پروٹسٹنٹ ہوں گے“ روسو نے کہا ”فی الحال تو میں بھوکوں کے فرقے سے ہوں“

سنو جو بھوک ہوتی ہے۔
بہت سفاک ہوتی ہے!
کسی فرقے کسی مذہب سے اس کاواسطہ کیسا
تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے
تو وہ تہذیب کے بے رنگ کاغذ کو
تمدن کی سبھی جھوٹی دلیلوں کو
جلا کر راکھ کرتا ہے۔

نظر بھوکی ہو تو پھر چودھویں کا چاند بھی روٹی سا لگتا ہے
خودی کا فلسفہ۔
جھوٹی دلیلیں سب شرافت کی
محض بکواس لگتی ہیں۔

حقیقت میں یہی سب سے بڑا سچ ہے
کہ یہ جو بھوک ہوتی ہے
بڑی بدذات ہوتی ہے۔

سوچتا ہوں کہ دنیا میں تمام فرقوں، مسلکوں اور مذاہب کے لئے مذہبی پیشوا بھی ہیں، مذہبی ٹھکیدار بھی ہیں، عبادت خانے بھی اور کتابوں کا ذخیرہ بھی لیکن شاید دنیا میں ایک ہی بد نصیب فرقہ ایسا ہے جس کی نہ کوئی رکھوالی کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص ٹھکانہ ہے۔ ہاں البتہ اس مظلوم فرقے کی محرومیوں کے قصے سنا سنا کر ضرور سیاست اور مسلک کے ٹھکیدار اپنی دکانیں چمکاتے ہیں اسی فرقے کے نام پرغربت کی پستی سے امارت کی بلندی تک پہنچتے ہیں لیکن بھوک اور افلاس میں مبتلا فرقے کی تقدیر نہیں بدلتی ہے۔

تمام مذاہب کی کتابیں اور تعلیمات میں تو تاکید تو یہ ہے کہ، بھوکے کو کھانا کھلاو، یتیموں اور بے سہاروں کا سہارا بنو، ہمارے نبی رحمت العالمین ﷺکی تعلیمات تو یہ ہیں۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میرے خیال سے آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ جو پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے۔ ”(بخاری و مسلم)

مسلکوں اور فرقوں کے خول میں محصور یہ لوگ اگر اسلام کے حقیقی تصور اور انسانیت کی فلاح کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بنتے تو دنیا کتنی خوبصورت ہوتی، پھر ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کے بجائے اس سے اس کا مسلک پوچھا جائے،
بھوکے سے کسی نے پوچھا، آپ ہندو ہو کہ مسلمان، جواب آیا، بھوکا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).