شادی میں تاخیر، ادھورے جذبوں کے پورے روگ


پاکستان کا سماجی ڈھانچہ جن بنیادوں پر کھڑا نظر آتاہے وہ نہ توریاستی مذہب اسلام کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور نہ ہی اس خطے برصغیر کے قدیم مذہب ہندوازم سے پاک ہو سکا ہے۔ ملکی اکثریت یعنی 97 فیصد کلمہ گو مسلمانوں پر مشتمل ہے مگر مذہبی احکامات میں سے صرف ان پر عمل کرتی ہوئی نظر آتی ہے جو انہیں پسند ہیں۔ ہم پورے کے پورے دین میں شامل نہیں ہیں۔ ہم پرآدھے تیتر، آدھے بیٹر والی مثال صادق آتی ہے، یہی وجہ ہے ہم اور ہمارا سماجی ڈھانچہ خسارے کاشکار ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید میں سورہ العصر ایک چھوٹی سی سورۃ ہے مگر اپنے مفہوم اور پیغام کے حوالے سے آفاقی اہمیت کی حامل ہے۔ سورہ العصر کا مفہوم ہے کہ ”اللہ عصر کے وقت کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ بے شک انسان خسارے میں ہے، ماسوائے جو لوگ ایمان لائے، نیک اعمال کیے، حق کی دعوت دی، صبر کیا اور صبر کی تلقین کی“۔ یہ سورت مبارکہ معاشرتی، سماجی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ایک مثالی انسان بننے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ کامیابی کی چار نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو لوگ یہ اعمال کریں گے وہ کامیاب ہوں گے اور جو اس سے انحراف کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے، اچھے اعمال نہیں کرتے لوگوں کو حق کی طرف نہیں بلاتے، صبر و استقامت کے ساتھ پختہ ایمانی کا ثبوت نہیں دیتے وہ شیطان کے ساتھی ہیں اور بے شک شیطان کو ہی دنیا و آخرت میں خسارہ ہو گا۔

اسلام میں نکاح کو صرف مرد وزن ہی نہیں بلکہ پورے سماجی زندگی کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ نکاح جو انسان کو بہت ساری برائیوں سے دور لے جاتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرے“۔ یعنی شادی اور نکاح انسان کی ضرورت، نسلِ انسانی کے تسلسل کا ذریعہ اور جنسی ضرورت کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے۔ شادی اسلام کی نظر میں ایک مُقدس رشتہ اور اللہ تعالیٰ کے افضل ترین بندوں کی سُنّت ہے۔

” ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا“۔

(الرعد: 38 ) ۔ شادی انسان کو جسمانی راحت اور قلبی سکون فراہم کرتی ہے۔

” اور اس کی نشانی میں سے ہے کہ تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے، میاں بیوی کے، درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ (الرُّوم: 21 )

اسلام نے شادی کو یہ اہمیت دی کہ اس کے لئے کوشش کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد رہتی ہے، ارشاد نبوی ہے ”تین قسم کے لوگوں کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔

1۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔

2۔ کاتب غلام جو حق مکاتبت ادا کرنا چاہتا ہے۔

3۔ شادی کرنے والا جو عفت پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے ”۔ (مسند احمد، الترمذی، نسائی) ۔

شادی کو اسلام میں اہم مقام حاصل ہے، اسی لیے اس رشتے کو جوڑنے اور توڑنے میں کھیل و تماشا اور ہنسی و مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیتا، ارشاد نبوی ہے ”تین کام ایسے ہیں کہ اس سلسلے میں سنجیدگی حقیقت ہے اور ہنسی مزاح بھی حقیقت ہے، نکاح، طلاق اور رجعت۔ (ابو داود، الترمذی) اور اگر کوئی شخص اس رشتے میں بندھے جوڑے کے درمیان فساد ڈالتا ہے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے اعلان برائت ہے“ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو کسی کی بیوی کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے (سنن ابو داود، مستدرک الحاکم)

تاہم خیر سے ہمارے ملک کے موجودہ دور کے اہم ترین مسائل میں شادی، ایک سماجی عفریت کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جو بیٹیوں کی جوانی اور ان کے جذبوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ بروقت شادی کے راستے میں بہت ساری رکاوٹیں ہیں، جن میں سر فہرست جہیز اورذات پات کو گردانا جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ یہ سب عورت کے حصے میں آیا ہے۔ جبکہ میرے نزدیک جہیز کی ڈیمانڈ کرنے والا مردکا کردار ”مردانہ طوائف گردی“ تو ہو سکتی ہے اس کا شرافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شرفاء کے ہاں اپنے بیٹوں کی قیمتیں نہیں لگائی جاتیں۔ مگر جہاں مادی ترقی کے نام پربہت کچھ بدل گیا وہیں، رشتے داریوں کے انداز بھی بدل گئے، جس وجہ سے معاشرے میں کنواری بیٹیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

بعض اوقات بیٹی والے بھی حد کر جاتے ہیں، ان کی سوچ ہوتی ہے جتنا جہیز دیں گے اتنا سسرال پر دباؤ رہے گا اور بیٹی کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں مال وزر سے گھر آباد نہیں ہوتے، بلکہ بیٹیوں کی اچھی تربیت اور مرد کے اچھے کردار سے گھر آباد ہوتے ہیں۔ باقی تو سب مایا ہے جس نے ایک دن کسی کوڑے دان یا کباڑ خانے میں پڑے ہونا ہے۔ گھر محبت، ایثار اور باہمی اعتبار اور اعتماد سے بنتے ہیں، اپنی اولادوں ایک دوسرے کو تسلیم کرنے، قبول کرنے کی عادت سکھائیں، گھر خود بخودبن جائیں گے اور جہیزدینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

پھر کچھ والدین اور بھائیوں کا یہ رویہ بھی ہے کہ لاکھوں کا جہیز دے دیا، اس لیے کروڑوں کی آبائی جائیداد میں بہن کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ رویہ نہ صرف شرح کے خلاف ہے بلکہ بہت سارے مسائل کی جر بھی، رشتوں میں عدم اعتماد اسی لالچ کاشاخسانہ ہے جو کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اشرافیہ میں، زمین داروں میں اور اسی طبقے میں جہیزحق مارنے کا ذریعہ ہے جس سے غریب متاثر ہو رہا ہے۔ غربیوں کے منڈے پڑھ لکھ کر افسر کیا بنے، اماں جان اپنا وقت بھول جاتی ہیں اور وظیفے پر پلنے والے اپنے سرکار بابو کی قیمت بھی لڑکی والوں سے لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی وہ لالچ ہے جس سے کنواریوں اور کنواروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اماں جان اگر ایک نظر اپنے چاند پر بھی ڈال لیں تو کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بعض منڈوں کے والدین بھی ان پر ظلم کرتے ہیں، اچھے اور بڑے جہیزکے لالچ میں ان کے سروں پر چاندبن جاتا ہے اور اگر لڑکی والے والے بڑی توند اور چاند کازکر کریں تو ماؤں کاموقف ہوتا ہے کہ بس بال ہلکے ہیں اور اتنا موٹا تو نہیں، 36 کمر کا سائز ہے، ہائے یہ مائیں بھی اپنے لالچ میں 46 کمر اور توند کو ذرا سا بنا کر پیش کر دیتی ہیں۔ یہی حرکتیں لڑکی والے کرتے ہیں اور پھر بولیاں لگتی ہیں۔

میں ایک بات واضح طور پر کہوں گی کہ لالچ کی بنیاد پر بنے رشتے دیر پا نہیں ہوتے، ٹوٹ جاتے ہیں تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کرلے جاتے ہیں۔ کم جہیز، غیر معیاری جہیز اورشادیوں کے کھانوں کو بنیاد بنا کر بہو بیٹی کی زندگی سے کھیلنے والے رویوں کو ترک کرنے اور کروانے کے لیے پورے معاشرے کو ہر سطح پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور یہ ورکشاپس کسی بڑے ہوٹل آرام کے دے حال میں نہیں بلکہ گلی محلوں کے تھڑوں پر ہونی چاہیں تاکہ ان کے دیر پا اثرات قائم ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).