اور مسجد کا خادم چلا گیا!


خادم چلا گیا! خادم کا نام کیا تھا شاید مسجد میں جانے والے باقاعدہ نمازیوں کو علم ہو مجھ سے موسمی پرندوں کو بس اتنا معلوم تھا کہ ہماری مسجد میں ایک بزرگ تھا جسے سب خادم کہتے تھے۔ چونکہ خادم سے ہمارا کسی قسم کا کوئی مفاد وابستہ نہ تھا لہٰذا وہ ان کرداروں میں شامل تھا جو سامنے ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔ یادداشت کا ایک اپنا مفاداتی نظام ہے۔ یہاں بسنے والے چہروں میں دو قسم کے چہرے طویل المدتی قیام کرتے ہیں ؛ پہلے وہ جن سے ہمارا مفاد وابستہ ہو، جب تک مفاد کی بیلوں پر پھول ہیں یہ چہرے ہماری یادداشتوں میں محفوظ ہیں۔

اور دوسرے وہ جن سے ہمارا ”محبت“ کا تعلق ہوتا ہے۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ہماری یادداشتوں کا حصہ بہت محدود مدت کے لیے بنتے ہیں۔ جیسے کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ ان سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا لہٰذا دل کے کسی پلاٹ میں ان کے نام کی کوئی تختی مختص نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں میں اکثر کے ساتھ ہمارا روز مرہ کی بنیاد پر سامنا بھی ہوتا ہے لیکن جلد ہی یہ ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ ان افراد میں ڈرائیور، خاکروب، دکاندار، حجام، چوکیدار، اخبار فروش، دودھ فروش، کیبل والا، بجلی، گیس، موٹر مکینک، اور مساجد کے خادم و خطیب صاحبان ہوتے ہیں۔

ہماری مسجد کا خادم ( شیریں خان : جس کے نام کے بارے میں بہت بعد میں علم ہوا ) بھی انہیں لوگوں میں سے ایک تھا۔ شاید ہماری مسجد میں اس نے تیس برس گزار ے۔ صبح ِ صادق فضا میں معلق خاموشی میں اس کی آواز میں اذان نمازیوں کی سماعتوں سے ہوتی ہوئی ان کے دلوں تک پہنچتی اور وہ اپنے بستروں کو چھوڑ کر وضو کرتے اور مسجد کی طرف چل پڑتے۔ مجھ سے گنہگار اس آواز سے بالخصوص رمضان کے دنوں میں متعارف ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب تیس برس قبل مسجد کی دوسری منزل تعمیر ہورہی تھی تو یہ شخص ان دنوں یہاں مزدوری کرنے آیا تھا۔

خیبر پختونخواہ کے کسی دو افتاد ہ گاؤں سے اس کا تعلق تھا۔ منزل تعمیر ہو چکنے کے بعد معلوم ہوا کہ شیریں خان کو یہاں کا خادم چن لیا گیا ہے۔ شیریں خان مضبوط ڈیل ڈولا والا آدمی تھا لیکن اس کی آواز میں ہلکا سا نسوانی آہنگ تھا، یا یوں کہہ لیجیے کہ کسی خاتون کی آواز کو مردانہ رنگ دے دیا جائے تو جو آواز بنتی تھی وہ شیریں خان کی تھی۔ شیریں خان کے نو بچے تھے جن میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ اسے بہت جلد مسجد سے ملحق ایک پرانا سا مکان دے دیا گیا۔

وہ صبح سویرے اذان دینے کے بعد صفوں کی صفائی کرتا، سردیوں کی صورت میں نمازیوں کے لیے پانی گرم کرتا، طہارت خانوں کی صورتِ حال بہتر کرتا۔ جوتے رکھنے والے ریکس کو صاف کرتا، غرضیکہ ہر طرح سے آنے والے نمازیوں کے استقبال کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ جوں جوں نمازی مسجد میں آتے جاتے تو جہاں جہاں جو نمازی بیٹھتا تو وہ متعلقہ بلب او ر پنکھا آن کردیتا۔ نماز کے بعد مسجد کو اگلی نماز کے لیے دوبادہ سے بہترین حالت میں لانے کے لیے وہ پھر سے اپنے کام میں جت جاتا۔

دس بجے کے قریب گھریلو خواتین جو مارننگ شوز دیکھنے میں منہمک ہوتی تھیں اپنے بچوں کی ریں ریں سے تنگ آکر انہیں سپارہ پڑھنے مسجد چھوڑ آتیں۔ بچوں کی ذمہ داری خادم پر ہوتی۔ بچے ابھی بمشکل مسجد سے نکلتے ہی تھے کہ ظہر کا وقت قریب ہوجاتا۔ اسی دوران اسے گھر کے لیے انتہائی قلیل تن خواہ میں سے سودا سلف بھی لانا ہوتا تھا۔ بعض اوقات وہ کسی نہ کسی طرح وقت نکال لیتاتاہم اکثر اس کی اہلیہ ہی روایتی برقعے میں ملبوس بازار سے سودا سلف لینے جاتی۔

ابھی اس کے بچے چھوٹے تھے لیکن اسے مینیج کرنا پڑتا تھا چونکہ مسجد کمیٹی ان ریٹائرڈ افسران کے ہاتھ چڑھی ہوئی تھی جن میں سے اکثر نے اُوپر کی کمائی سے مضافات میں بڑی بڑی کوٹھیاں بنا کر کرایوں پر چڑھا دی تھیں لیکن خود اس پرانے محلے سے نہیں نکلتے تھے چونکہ بڑے علاقوں میں جا کر ان کا قد چھوٹا ہو جانے کا خدشہ تھا، جو عزت انہیں ان پرانے محلوں میں میسر تھی وہ کہیں اور نہ تھی یوں بھی مسجد کمیٹی کا رکن ہونا اور زکوٰۃکمیٹی کی چیئرمینی کوئی چھوٹا موٹا عہدہ نہ تھا۔

سرکاری دفتروں کی چھوٹی موٹی افسری تو خیر ریٹائیرمنٹ کے ساتھ غروب ہوگئی تھی لیکن جو مزہ بعد از ریٹائرمنٹ کی سیاسی افسری میں ہے اس کے کیا ہی کہنے۔ صبح صبح جب کوئی بیوہ اپنی جوان اور خوب صورت بیٹی کے ہمراہ آپ کے دروازے پر کسی ”غیر ضروری“ سرکاری فارم پر آپ کی مہر کی طالب ہوتی ہے اور آپ جب اسے اپنی بیٹھک میں بٹھاکر دو منٹ کا کام نصف گھنٹے میں کرتے ہیں تو اس کا نشہ سرکاری افسری میں کہاں جہاں بیسیوں آنکھیں آپ کی مخبری کررہی ہوتی ہیں۔

خادم کا سامنا بھی ایسے ہی افسروں سے تھا جو اسے سکون سے بیٹھا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ رفتہ رفتہ خادم محلے کے مکینوں کے نزدیک ایک معلوم چہرہ بن گیا۔ اب سے کے بچے بڑے ہو رہے تھے۔ محلے میں ہونے والی فوتگیوں پر مردوں کو خادم اور عورتو ں کو اس کی اہلیہ غسل دیتی۔ جس کے نتیجے میں اسے کچھ مل جاتا۔ جمعرات والے دن خادم محلے کا چکر لگاتا اور ایک آواز ”مندیفہ“ ہماری روزمرہ لغت کا مستقل حصہ بن گئی۔ بہت وقت پہلے کی بات ہے خادم نے مجھے کہا کہ اس کے بچے جوان ہو رہے ہیں۔

اسے اپنی بیٹیوں کی شادی بھی کرنا ہے، کمیٹی والوں سے بات کریں کہ کچھ تن خواہ میں اضافہ کردیں۔ میں نے اپنے محدود سے اثر رسوخ کے طفیل کمیٹی والوں سے بات کی توان کا جواب تھا کہ مفت مکان ملا ہوا ہے بجلی گیس مسجد کی طرف سے ہے۔ مندیفہ مل جاتا ہے خوشی غمی میں بھی بہت کچھ مل جاتا ہے نخرے کرتا ہے خادم! میں خاموش ہوگیا! بعد ازاں ملاقات میں خادم کو ذرا ڈھکے چھپے انداز میں اسے یہ سب کچھ بتایا تو کہنے لگا بابو! دس ہزار روپے کیا ہوتے ہیں؟ اب تو میں جمعہ والے دن عرقِ گلاب کا سپرے بھی کرتا ہوں نمازیوں پر لیکن جمعہ کی نماز کے دوران پانچ سوروپے سے زیادہ اکٹھے نہیں ہوپاتے۔ رہی بات مندیفہ اکٹھے کرنے کی تو مجھے تو یہ لگتا ہے ان بڑے بڑے مکانوں میں سب مجھ سے خادم لوگ ہی رہتے ہیں ایک پیالہ آٹا یا دس روپے کا ایک نوٹ! بس، کوئی بہت سخی بھی ہوا توبیس روپے کا نوٹ۔ بابو! بازار میں بچے کی دوا لینے جاؤ تو ڈاکٹر ہزار روپیہ فیس لیتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2