شاہی قلعہ لاہور کی سیر


خوابگاہ جہانگیری و عجائب گھر:۔

اکبری محل کے شمالی جانب ایک بہت بڑی عمارت ہے جسے خوابگاہ جہانگیری کہتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہاں پر جہانگیر بادشاہ آرام فرمایا کرتے تھے یہ عمارت دو چھوٹے کمروں اور ایک درمیانی بڑے ہال پر مشتمل ہے جب کہ سامنے جنوب کی طرف برآمدہ ہے۔ یہ عمارت 46 میٹر لمبی اور 18 میٹر چوڑی ہے۔ اس عمارت کا اندرونی حصہ پچی کاری، غالب کاری، منبت کاری اور جیومیٹریکل نقش و نگار سے آراستہ کی گئی ہے۔ اس عمارت کا ایک ہی دروازہ ہے جو درمیانی ہال سے برآمدے میں کُھلتا ہے

محل رانی جنداں و عجائب گھر:

احاطہ جہانگیری کے جنوب مغربی طرف ایک بلند و بالا عمارت رانی جنداں کے محل کے نام سے مشہور ہے۔ رانی جنداں راجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیوی تھی۔ راجہ نے اس کے لیے مغل بادشاہ جہانگیر کی تعمیر کردہ عمارت کے اوپر ایک اور منزل تعمیر کروائی اور اس عمارت کو اپنی بیوی کا محل قرار دے دیا۔ کافی عرصہ تک یہ عمارت رانی جنداں کی رہائش گاہ (محل ) کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

عجائب گھر ( آرمری گیلری ) اس عمارت کا نچلا حصہ جو کہ عہدِ جہانگیری کی تعمیر ہے۔ مختلف کمروں پر مشتمل ہے اس کا مشرقی حصہ عہدِ اکبری کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اس وقت یہ پوری عمارت محکمہ آثارِقدیمہ نے عجائب گھر میں تبدیل کر رکھی ہے جسے آرمری گیلری کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گیلری چار کمروں پر مشتمل ہے جو کہ سکھ دور حکومت میں استعمال ہونے والے اسلحہ جات کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ اس گیلری کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مختلف سکھ سرداروں کی تصاویر، رنجیت سنگھ کی بیوی کے سنگ مرمر کے ہاتھ وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔

جب کہ اس کے ساتھ بڑے ہال میں پستول، تلواریں، توپیں، ڈھالیں، تیر کمان، لوہے کے گولے، فوجی سازوسامان اور بینڈ باجے وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ اس سے آگے ایک اور چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں سکھ دورِ حکومت میں لڑی گئی لڑائیوں کی تصاویر دیوار پر آویزاں کی گئی ہیں۔ ان لڑائیوں میں چلیانوالہ لڑائی 1849 ء، موڈکے 1843 ء میں رام نگر 1848 ء، گجرات 1849 ء جب کہ سب سے آخر میں راجہ رنجیت سنگھ کی حنوط شدہ گھوڑی کی ایک بہت بڑے شو کیس میں نمائش کی گئی ہے۔ اس گھوڑی کے ماتھے، سینے اور دُم کو اصلی سونے کے زیور سے سجایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے اوپر راجہ رنجیت سنگھ ہاتھ میں سونے کی چھتری لیے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ یہ چھتری سرخ کپڑے اور سونے کے تاروں سے مزین ہے۔

موتی مسجد:

برصغیر پاک و ہند میں اس وقت چار موتی مسجدیں ہیں جو اپنی بناوٹ، ساخت اور فن تعمیر کے لحاظ سے کافی مشابہت رکھتی ہیں مگر ان کے سن تعمیر میں فرق ہے۔ ان چار مساجد میں ایک آگرہ میں ہے جسے شاہجہاں نے 1654 ء میں تعمیر کروایا، دوسری 1659 ء میں لال قلعہ دہلی میں اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروائی، تیسری مہرولی (دہلی کے قریب) شاہ عالم بہادر شاہ 12۔ 1707 ء میں قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے ساتھ بنوائی، چوتھی اور سب سے قدیم موتی مسجد شاہی قلعہ لاہور میں واقع ہے۔

مکاتب خانہ کی مغربی دیوار سے متصل ایک خوبصورت ننھی سی مسجد ہے چونکہ یہ تمام کی تمام سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس لئے اس کو موتی مسجد کہتے ہیں۔ یہ مسجد عہد جہانگیری میں ایک مشہور انجینئر معمور خان کی زیر نگرانی جہانگیری محل کے بیرونی دروازے کے ساتھ 1618 ء میں تعمیر ہوئی۔ شیش محل کے قریب ہی ہے، اسے جہانگیر نے شاہی بیگمات کے لیے تعمیر کروایا تھا تاکہ وہ اس مسجد میں باپردہ نماز ادا کر سکیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دورِ حکومت میں اس قلعہ پر قبضہ کیا تو اس نے موتی مسجد کا نام بدل کر ”موتی مندر“ رکھ دیا تھا، اگرچہ سکھوں نے مسجد سے قیمتی پتھر نکال کر اس کی خوبصورتی کو سخت نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود اس کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔

ہر سال ملکی و غیر ملکی سیّاح کثیر تعداد میں اس قلعہ کو دور دور سے دیکھنے آتے ہیں، خصوصاً طلباءکو ان کی دلچسپی کی کئی چیزیں یہاں مل سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ صرف بحیثیت طالب علم ہی یہاں آئیں، اپنی فیملی کو لائیں اور اپنے بچوں کو بھی بتائیں کہ مغل بادشاہوں نے برصغیر پر کس شان و شوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی اور فن تعمیر پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔
(مغلوں کے زوال پے پھر کبھی سہی انشاللہ )

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya