شاہی قلعہ لاہور کی سیر


آپ میں سے اکثر لوگوں نے شاہی قلعہ لاہور دیکھا ہوگا۔ لیکن آپ میں سے اکثر دوستوں کو اس کے بیشتر تاریخی پہلوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا۔ آئیے میں اب آپ کو اس کے متعلق کچھ دلچسپ معلومات دیتا ہوں۔

قلعہ کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں۔ قلعے فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں کئی قلعے تعمیر ہوئے۔ مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر ایک محفوظ مقام کواس قلعہ کے لیے منتخب کیا گیا، یہ دراصل ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جولاہور شہر کی سطح سے کافی بلند تھا۔

اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ شاہی قلعہ لاہور کس نے تعمیر کروایا تھا۔ تو آپ میں سے اکثر کا جواب ہوگا۔ شہنشاہ اکبر نے۔ ویسے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ آپ کے لئے یہ بات حیران کن ہو کہ یہ قلعہ اکبر سے سینکڑوں سال پہلے بھی موجود تھا۔ ہاں اکبر نے اس کو از سرنو تعمیر کروایا تھا۔ اور جو موجودہ حالت اس کی نظر آرہی ہے اس کو اکبر کے دور میں ہی تزئین و آرائش کروائی گئی تھی۔

اس قلعہ کے اندر مختلف ادوار میں مختلف عمارات تعمیر ہوئیں جن کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں :

1۔ عہدِ اکبری کی عمارات
2۔ نورالدین جہانگیر کی عمارات
3۔ شاہجہاں کی تعمیر کردہ عمارات
4۔ اورنگزیب عالمگیر کی عمارات
5۔ سکھ دور کی عمارات
6۔ قلعہ بَعہد انگریز

عالمگیری دروازہ:

شاہی قلعہ کی مغربی دیوار سے منسلک یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر نے 74۔ 1673 ء میں تعمیر کروایا۔ اسی جگہ پر اکبری دور میں بھی ایک دروازہ موجود تھا اورنگ زیب عالمگیر نے اس کو از سِرنو تعمیر کروایا جس کی وجہ سے یہ عالمگیری دروازہ کہلوایا۔ اس کی تعمیر پرانے فوجی اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ خوبصورتی اور رعب کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے بڑے بڑے مثمن برج کنول کی پتیوں سے آراستہ ہیں جبکہ گنبد نما برجیاں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔

اس دروازے کے اندر نیچے اور اوپر، محراب دار دو منزلہ کمرے بنے ہوئے ہیں اور سامنے ٹکٹ گھر ہے۔ اسی دروازے سے آج کل عوام کی آمدورفت ہوتی ہے۔ اس دروازے کے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں جانب ایک راستہ ملتا ہے جس کے نیچے اوپر محافظوں کے کمرے بنے ہوئے ہیں جبکہ بالکل سامنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بانی لاہور ”لوہ“ کا مندر ہے۔ اس مندر کے شمال میں بلندی پر ایک مثمن دروازہ ہے۔ جس پر جانے کے لیے بڑی بڑی سیڑھیاں تھیں جو کہ برطانوی دور میں ختم کردی گئیں۔ دروازے کے آثار ابھی تک باقی ہیں۔

شاہی باورچی خانہ و اصطبل:

شاہی قلعے کے جنوب مغرب کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے جہاں پر عہدِ مغلیہ میں شاہی باورچی خانہ و اصطبل تھا۔ یہ جگہ لوہ کے مندر کی پچھلی جانب اور مثمن دروازہ کی جنوبی طرف واقع ہے۔ یہ باورچی خانہ ایک بہت بڑے ہال اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا جس کے کئی دروازے تھے۔ اس میں کئی ایک انواع کے کھانے تیار ہوتے جو کہ شاہی دسترخوان کی زینت بنتے تھے جبکہ شاہی اصطبل میں اچھی نسل کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔

برطانوی عہد میں اس شاہی باورچی خانہ اور اصطبل کی حیثیت کو ختم کرکے یہاں پر پولیس کی بارکیں بنادی گئیں اور کچھ اضافی عمارات بنا کر اس کو جیل میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ عرصہ تک یہ جیل زیر استعمال رہی۔

دیوان عام:

عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کی جنوبی دیوار سے متصل دیوان عام جو آصف خان کی زیرِ نگرانی شاہجہاں کے حکم پر 32۔ 1631 ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جو کہ مستی دروازہ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ سنگِ سرخ کے چالیس ستونوں پر مشتمل خوبصورت عمارت ہے جس کو اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ جس کی تین اطراف میں سنگِ سرخ کی جھالر / کٹہرا بنا ہوا ہے اور ہر طرف سے راستہ چبوترے پر جاتا ہے۔ جس سے امراء، وزراء اور دیگر ملازمین دیوان میں داخل ہوتے تھے۔

سکھ دور حکومت 1841 ء میں اس دیوان کے حسن کو کافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سکھوں کی باہمی چپقلش اور لڑائی تھی چنانچہ اسی وجہ سے سکھ سردار شیر سنگھ نے قلعہ پر بادشاہی مسجد کے میناروں سے گولہ باری کی جس سے اس کا کافی حصہ گر گیا جس کی بعد میں انگریزوں نے مرمت کر کے اس دیوان کو ہسپتال کی حیثیت دے دی اور کافی عرصہ یہ عمارت بطور ہسپتال استعمال ہوتی رہی۔ آخر 1927 ء کو محکمہ آثارِ قدیمہ نے اسے اپنی تحویل میں لے کر اصلی صورت بخشی۔

دولت خانہ خاص و عام ( اکبری محل ) :

دیوان عام میں سے ایک زینہ جھروکہ درشن میں جاتا ہے۔ اس جھروکے کے پیچھے اکبری عہد کے دولت خانہ خاص و عام کی عمارت ہے یہ ایک دو منزلہ عمارت چار گوشہ عمارت، دولت خانہ خاص و عام، اکبری محل کے نام سے مشہور ہے۔ جو اکبر کے حکم پر 1587 ء کو تعمیر ہونا شروع ہوئی اور 18۔ 1617 ء میں عہد جہانگیری میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس پر سات لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ وسیع علاقے پر مشتمل یہ محل 116 کمروں پر مشتمل تھا جس کا کافی حصہ بالکل ختم ہوچکا ہے صرف بنیادوں کے آثار باقی ہیں۔

اس وقت جو حصہ بچا ہوا ہے اس میں دولت خانہ خاص، جھروکہ اور کچھ رہائشی کمرے ہیں۔ دولت خانہ چار کمروں پر مشتمل ہے۔ جن میں ‌ایک مستطیل، ایک ہشت پہلو اور دو شش پہلو ہیں جب کہ ان کی شمال اور مغربی جانب برآمدے ہیں جن میں دوہرے سنگ مر مر کے ستون ہیں جبکہ دیواروں اور چھتوں کو چونے کی رنگین گلکاری اور منبت کاری سے سجایا گیا ہے۔

کھڑک سنگھ کا محل:

دولت خانہ خاص و عام کی مشرقی جانب اور احاطہ جہانگیری کے جنوب مشرقی جانب ایک دو منزلہ عمارت ہے اس عمارت کا زیریں حصہ عہدِ اکبری کا ہے۔ جبکہ اوپر والی عمارت راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کے لیے بنوائی۔ اسی لیے یہ کھڑک سنگھ کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ کھڑک سنگھ کا یہ محل آٹھ کمروں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل تھا جس کی چھت لکڑی اور دیواروں پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے ایک اعلٰی نمونہ تھا۔ آج کل عمارت کے اس حصے میں ڈائریکٹر حلقہ شمالی آثارِ قدیمہ کا دفتر ہے۔

مستی دروازہ:

جہانگیر کی والدہ مریم زمانی نے 1614 ء کو قلعہ کے مشرقی دروازے کے باہر ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی جو اسی کے نام سے موسوم ہوئی۔ قلعے کا یہ دروازہ مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے ”مسجدی دروازہ“ کہلایا جو بعد میں بگڑ کر ”مستی“ دروازہ بن گیا۔ یہ دروازہ قلعہ کی مشرقی دیوار کے وسط میں واقع ہے جو ایک مضبوط اور پائیدار دروازہ ہے۔ جو اپنی خوبصورتی اور جاہ و جلال بکھیرے عہدِ اکبری کے عظیم فن ِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ دروازہ 1566 ء میں تعمیر ہوا جس کے دونوں جانب مثمن برج ہیں اور مدافعت کے لیے دندانے دار فصیل ہے جن میں مستطیل سوراخ ہیں۔ اس قسم کی سوراخ دار فصیل قلعے کے کسی اور حصے میں نہیں ملتی۔ اس دروازے کا اندرونی حصہ گنبد نما ہے جن کے دونوں جانب بڑے بڑے دو منزلہ کمرے ہیں۔ یہ کمرے محافظوں کے لیے مخصوص تھے۔ اس دروازے کے اندرونی جانب شمال اور بجانب جنوب عہدِاکبری کی عمارات منسلک تھیں جو اب ختم ہوچکی ہیں اور اب صرف ان کی بنیادیں ہی باقی ہیں۔

احاطہ جہانگیری:

اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر ( 1605۔ 1627 ء) نے عنانِ حکومت سنبھالی تو اس کے خلاف بے شمار شورشیں اٹھ کھڑی ہوئیں یہاں تک کہ اس کے بیٹے خسرو نے باپ کے خلاف بغاوت کردی اور قلعہ لاہور کا محاصرہ کرلیا مگر صوبے دار لاہور دلاور خان نے اس کی ایک نہ چلنے دی تو اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ دریں اثنا خسرو اپنے سات سو ساتھیوں کے ساتھ دریائے چناب کے قریب پکڑا گیا۔ اسی دوران جہانگیر لاہور آیا اور تقریباً ایک سال تک یہیں شاہی قلعے میں قیام کیا اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہی قلعہ لاہور میں نہایت عمدہ عمارات تعمیر کروائیں اور ساتھ ساتھ ان عمارات کی تکمیل بھی کروائی جن کی بنیادیں اس کے باپ اکبر نے رکھی تھی۔

دیوانِ عام کی شمالی جانب ایک وسیع اور خوبصورت سبزہ زار ہے مغلیہ طرز کا یہ باغ برطانوی دورِ حکومت میں ختم کردیا گیا اور یہاں ٹینس کھیلنے کے لیے جگہ بنادی گئی جسے بعد میں دوبارہ اصل حالت میں تعمیر کیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya