کنگلا صحافی اور صحافت کی نماز جنازہ


گئے دنوں کی بات ہے جب صحافت ایک مشن ہوا کرتی تھی مگر اب ایک ایسا پیشہ بن چکا ہے جس کے پیسے یا تو بہت کم ملتے ہیں یا پھر کئی کئی مہینوں آج کل کے لارے ہی تنخواہ ہوتے ہیں۔

آخر یہ پیشہ بھی تو ایک نشہ ہے جو جس قدر پرانا ہو اتنا ہی سرور آتا ہے۔ میڈیا کے زوال کی سب سے بڑی وجہ مالکان ہیں جو خود تو بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے بنا لیتے ہیں مگر ملازم نہ تو اپنے بچوں کو اچھی زندگی دے پاتا ہے اور نہ ہی وقت۔ جو فارغ وقت ملتا بھی ہے وہ غربت کی شکایتوں کی نذر ہو جاتا ہے اور اہل خانہ کے طعنے استقبالیہ کے طور پر لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔

تنخواہ تو آتی نہیں ہے اب تربیت اور اخلاقیات زیادہ دیر پیٹ کو ایمانداری کی تبلیغ بھی نہیں دے سکتیں۔ دور حاضر میں یونیورسٹیوں میں ابلاغیات کا باقاعدہ ایک شعبہ ہے جہاں عملی صحافتی اقدار کے علاوہ سب پڑھایا جاتا ہے۔ چار سال کے بعد باقاعدہ نالائق اور کند ذہن بچہ جہالت کے کاندھوں پر سر رکھے ڈگری جب ہوا میں اڑاتا ہے تو یقین جانیے تباہی کی ایک نئی پود انڈسٹری کو ایسے خراج تحسین پیش کر رہی ہوتی ہے جیسے اکیس توپوں کی سلامی دی جا رہی ہو۔ کیونکہ ادارہ علوم ابلاغیات کے یہ سارے ستارے اینکر بننا چاہتے ہیں۔ تین ماہ کی انٹرن شپ کے بعد تنخواہ لگتی ہے جو قسمت والوں کو ہی ملتی ہے ورنہ باقی تو روز اس امید میں آتے ہیں کہ شاید کسی ایونٹ سے اچھا کھانا ہی مل جائے اور غم ذرا کم ہو جائے۔

عام لوگوں کی نظر میں سکرین پر نظر آنے والوں کی اپنی ایک کلاس ہوتی ہے مگر کسی تقریب میں جب مٹن نظر آجائے تو ان کی ساری کلاس اپکے سامنے عیاں ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ گھر سے روز گالیاں کھانے والوں کو لذیذ کھانا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو صحافت میں پچیس پچیس سال ہو گئے ان کے گھر والے تو ان کو ذہنی مریض ہی سمجھتے ہیں کیونکہ مالک کی نوکری کرتے کرتے وہ بیچارا کنگلا تو ہوتا ہی ہے، روز روز کے ٹارچر سے پاگل بھی ہو جاتا ہے۔

اب اگر خبر کی بات کریں تو صحافت کی نماز جنازہ پڑھتے پڑھتے خود کو روز دفن کرنے والی بات ہے۔ کہیں چوری ہو جائے تو سی سی ٹی وی دو اور بریکنگ کر کے بھول جاؤ۔ گمشدہ چیز ملے نہ ملے ”سانوں کی“۔ غریب کے ساتھ زیادتی ہوئی تو خبر ردی کی ٹوکری میں۔ نواز شریف نے جیل میں انڈے کا ناشتہ کیا۔ ”بریکنگ نیوز“۔ گردے کے آپریشن کے لئے آئی اماں جنتی ایک ساٹ چلوانے کے لئے منتیں کرے اور ہسپتال میں بلی آجائے تو ”بریکنگ نیوز“۔ پی ٹی آئی کی حمایت کا چینل ہے تو ن لیگ کی کھینچا تانی۔ مالک کی نواز شریف کے ساتھ اچھی ہے تو ایسی کی تیسی عمران خان کی۔ بھلے پھر رپورٹر نے خود ووٹ خادم رضوی کو ہی کیوں نہ دیا ہو وہ تو وہی کرے گا جو اس سے کروایا جائے گا۔

نیوز چینلز تو بے تحاشا تھے ہی اب ان ویب چینلز نے الگ ہی اپنی دکان لگا لی ہے۔ جو نوکری سے تنگ آ جاتے ہیں یا نکالے جاتے ہیں وہ ایک دن بازار جاتے ہیں ساٹھ روپے کا مائیک خریدتے ہیں، گھر کا ایک کونا صاف کرتے ہیں۔ فیس بک پر دبایا ”لائیو“ کا بٹن اور چل بھئی ’تجزیہ کار‘ تیار۔ اور پھر اگر اوپو کا کیمرہ ہو تو زیادہ میک اپ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ انتشار پھیلاؤ یا جہالت۔ کس نے کیا کہنا ہے۔ ڈیجیٹل دور ہے موجیں کریں۔ ”بہتر“، ”بانوے“ یا بیاسی کوئی سا بھی چینل بنا لو اور مالک بن جاؤ۔ پیسے آتے رہیں گے صحافت تو وہ پہلے بھی نہیں کرتے تھے۔

جرنلزم کے ایتھکس تو دور کی بات عام ٹرمینالوجیز ہی پوری عمر نہیں پتہ لگتیں۔ بریکنگ پھٹے سے لے کر لال پٹی پر چلنے والی خبروں کی اصل ٹرمز کیا ہیں۔ سو میں سے ایک کو پتہ ہوتی ہے۔ پھر اگر قسمت امریکہ لے جائے تو وہاں کے چینل میں جب کوئی ای این جی کا مطلب ہی پوچھ لے تو فوری پاکستانی صحافیوں کی ذہانت کیری ڈبے پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔ اب اس میں قصور کس کا ہے؟ یقین جانئے صحافت کے علاوہ آپ سب کا ہے جو صرف گلیمر کی خاطر اس سمندر میں کودے ہیں۔ مالک کی خوشامد کر کے بنایا ہوا پیراشوٹ جس دن پھٹا تو امان کی کوئی جگہ نہیں ملنی۔ اور عزت وہ تو تلوے چاٹ کر ویسے ہی نہیں رہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).