آری


سنتوش درختوں کے انسپکٹر کو بہت بے بسی اور غصے سے واپس جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ پتا نہیں اسے اس درخت کو کاٹنے کی اجازت ملے گی یا نہیں۔ ادھر اس کی بیوی بضد تھی کہ یہ ساری رکاوٹیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ درخت ان کے لئے پَوِترہے اور وہ اس کو نہیں کٹوانے دے گی۔ سنتوش کے ذہن میں یہ خیالی تصویر گھوم رہی تھی کہ دہلی میں اس کے بھائی سد ہیر نے پولیس کے ساتھ مل کر اپنے دشمن کو ایک دن کے اندر قتل کروادیا تھا اور یہاں درخت کا کٹوانا اتنا بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا۔

سنتوش کو ٹورونٹو کے اس مکان میں رہتے ہوئے تیس سال گزر چکے تھے۔ اس کے تینوں بچے یہیں بڑے ہوئے۔ ابتدائی، ثانوی اور یونیورسٹی کی تعلیم اسی علاقے میں حاصل کی اور اب وہ شادی کر کے الگ رہ رہے تھے۔ سنتوش بھی اب ریٹائر ہو گیا تھا اور تقریباً سارا وقت گھر ہی میں رہتا تھا۔ اگر سردی زیادہ نہ ہو تو مکان کے اگلے لان میں وقت گزارنا پسند کرتا تھا۔ اگلے لان میں میپل کا بہت بڑا درخت تھا۔ موسم گرما میں یہ درخت پتوں سے بھر جاتا اور اور لان اور مکان کو اپنے سائے میں رکھتا۔ مگر یہ درخت اب کسی بیماری کا شکار تھا اور بہت ہی کم پتّے دیتا تھا۔

سنتوش نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ اس درخت کو کٹواے دیتے ہیں لیکن اس کو پتا تھا کہ کہ یہاں کے قوانین درخت کی کٹائی کے معاملے میں بہت سخت ہیں۔ اس نے پہلے بلدیہ کے دفتر فون کیا۔ دوسری طرف ریکارڈنگ چل رہی تھی۔ اگر پانی کے محکمے سے رابطہ کرنا ہے تو ایک ڈائل کریں اگر بجلی کے محکمے سے رابطہ کرنا ہے تو دو ڈائل کریں وغیرہ وغیرہ۔ سنتوش نے ساری ترجیحات دوبارہ غور سے سنیں، پھر پانچ ڈائل کیا۔ اس کے بعد ایک اور ریکارڈنگ شروع ہو گئی۔

اس نے چار ترجیحات پیش کیں۔ آخر کچھ اور کوفت کے بعد دوسری طرف سے ایک کارکن نے فون اٹھایا۔ سنتوش نے اپنا مدعا بیان کیا۔ اس کارکن نے اسے ایک اور نمبر دیا۔ سنتوش نے کچھ جھنجھلاہٹ کے بعد اس نئے نمبر پر فون کیا تو پھر وہاں ترجیحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آخر کچھ کاوشوں کے بعد اس کی بات ایک کارکن سے ہو گئی جس نے بتایا کہ اگر زمین سے 1.37 میٹر کی اونچائی پر درخت کے تنے کا قطر بیس سنٹی میٹرسے بڑا ہے تو اس کی کٹائی کی اجازت کے لئے اس کو بلدیہ کے دفتر آ کر ایک فارم بھرنا پڑے گا اور سو ڈالر نا قابلِ واپسی فیس جمع کرانی ہو گی۔

اس کے بعد ایک انسپکٹر اس کو فون کر کے اپوانٹمنٹ بنائے گا اور آ کر درخت کا معائنہ کرے گا۔ پھر انسپکٹر فیصلہ کرے گا کہ درخت کے کاٹنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اگر اس نے درخت کو کاٹنے کی اجازت دے دی تو پھر وہ سنتوش کو کئی ذیلی قوانین سے آگاہ کرے گا جو درخت کے کاٹنے کے طریقہ کار اور کٹی ہوئی شاخوں اور تنے کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں ہیں۔

یہ سب سن کر سنتوش نے دفتر کا پتہ اور اوقات پوچھے اور فون منطقع کر کے سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنی بیوی روپا کو پوری بات ایک درد بھری داستان کی طرح سنائی۔ روپا سوچنے لگ گئی ”شاید یہ درخت پَوِتر ہے اس لئے اسے کٹوانے میں اتنی رکاوٹیں حائل ہیں۔ “

”سنتوش، اس درخت کو ایسے ہی رہنے دو۔ “ وہ تو پہلے سے ہی اس درخت کے پتّے پوجا پاٹ کے لئے استعمال کرتی تھی۔ اب اسے اس درخت کے پوتر ہونے کا یقین ہو گیا۔ اب وہ اس درخت کو نہیں کٹوانے دے گی۔ ”میں ڈر رہی ہوں کہ کہیں اس کے کٹوانے سے بھگوان کی طرف سے کوئی مشکل نہ آن پڑے۔ “

سنتوش کو اس طرح کی باتوں سے دلچسپی نہیں تھی حالانکہ وہ بھی باقاعدگی سے اپنے گھر میں پوجا کیا کرتا تھا۔ ”روپا، اس طرح کی باتیں نہیں سوچتے۔ وہم وگمان کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیا کرتے۔ “

روپا مسکرا دی، ایک نقلی مسکراہٹ جس کے پیچھے سیکڑوں پریشانیاں چھپی ہوئی تھیں۔

سنتوش سوچ میں پڑ گیا کہ ایک درخت کی کٹائی کتنا بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ یہ اب بذات خود ایک پروجیکٹ ہے۔ اگر وہ دہلی میں ہوتا تو جب مرضی چاہے اپنے گھر سے درخت کٹوا دیتا۔ محض بلدیہ کے دفتر آنے جانے میں اس کا آدھا دن خرچ ہو جائے گا، سو ڈالر بھی جمع کروانے ہوں گے، پھر بھی پتا نہیں اجازت ملے یا نہیں!

سنتوش اگلے روز بلدیہ کے دفتر جا کر فارم اور فیس دے آیا۔ تین دن کے انتظار کے بعد سنتوش کو انسپکٹر کا فون آیا کہ وہ اگلی پیر کو صبح آٹھ بجے سے بارہ بجے کے درمیان کسی وقت درخت کا معائنہ کرنے آئے گا۔ پیر کا دن آیا تو انسپکٹر نہیں آیا بلکہ بلدیہ کے دفتر سے فون آیا کہ کل کی طوفانی بارش کی وجہ سے کچھ درخت گر گئے ہیں۔ اس لئے اب انسپکٹر اگلے ہفتے پیر کوآٹھ اور بارہ بجے کے درمیان آئے گا۔

اگلے ہفتے انسپکٹر آیا اور اس نے درخت کا معائنہ کیا۔ پھر ایک چھوٹی شاخ کو توڑ کر اس نے احتیاط سے ایک صندوق میں رکھا اور واپس چل دیا۔ سنتوش ساری صورت حال سے کچھ چڑا چڑا سا تھا اس لئے نے انسپکٹر سے کوئی بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ انسپکٹرکو بے بسی سے واپس جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ”پتہ نہیں کہ یہ بیمار درخت کو کاٹنے کی اجازت ملتی ہے یا نہیں! “ اسے بار بار اپنے بھائی سدھیر کا خیال آرہا تھا جو دہلی کے پرانے جامعہ مسجد کے علاقے میں شراب کا غیر قانونی دھندا کرتا تھا اور اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے اپنے کسی دشمن کی گردن کٹوا دی تھی جس کی کبھی تفتیش تک نہیں ہوئی۔

کچھ دنوں کے تذبذب کے بعد بلدیہ کا خط آیا۔ سنتوش نے اسے بے چینی سے کھولا اور پڑھ کر تیز تیز چلتے ہؤے روپا کی طرف گیا۔
”ہمیں درخت کاٹنے کی اجازت مل گئی ہے۔ آ ؤ آج کوئی درخت دیکھنے چلیں جس کو ہم نے آگے لگانا ہے۔ “
”میں یہ کبھی نہیں ہونے دوں گی۔ “
”تمہیں پتا ہے کہ یہ اجازت لینے کے لئے میں نے کتنے جتن کیے ہیں۔ مجھے تمہارے وہمات سے سخت نفرت ہے۔ “

”یہ وہم نہیں میرا یقین ہے اور یہ سچ ہے کہ یہ ایک پوتر درخت ہے۔ اس درخت کے سائے تلے ہمارے بچے پلے، ان کی شادیاں ہوئیں اور یہ سب رکاوٹیں بھگوان کے اشارے ہیں۔ “

”ان سب باتوں کا اس منحوس درخت سے کیا تعلق ہے۔ یہ چیزیں تب بھی ہوتیں اگر یہ درخت نہ ہوتا یا اس کی جگہ کوئی اور درخت ہوتا۔ “ سنتوش جھنجھلا کر بولا۔ پھر اسے فوراً خیال آیا کہ اسے منحوس کا لفظ نہیں استعمال کرنا چاہیے تھا۔

روپا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ”تم نے اسے منحوس کہا۔ تم پاپی ہو۔ اب تم مجھ سے کبھی بات نہ کرنا۔ “
”تم دیکھنا میں بھی اس کو کٹوا کر بلکہ جڑ سے نکلوا کر ہی چھوڑوں گا۔ “

اگلے دن سنتوش نے کئی درخت کاٹنے والوں کو فون کیے۔ آخر ایک سے ساڑھے نو سو ڈالرز میں بات طے ہو گئی اور اس نے بتایا کہ وہ جمعرات کی صبح کو آئے گا۔

روپا اور سنتوش کی بات چیت بند تھی۔ گھر کے ماحول میں بہت کشیدگی تھی۔ درخت کی کٹوائی سے ایک دن پہلے سنتوش روپا کے پاس گیا اور پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ”تم ایک لکھی پڑھی عورت ہو۔ محض کچھ اتفاقات کی بنیاد پر تم کیسے ایک درخت کو پوتر سمجھ سکتی ہو! “

روپا پیچھے مڑے بغیر بولی ”تمہارا کیا بگڑے گا اگر یہ درخت نہ کٹے؟ “

”یہ ایک بیمار درخت ہے۔ لان میں سایہ نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ سے مکان بھی بد صورت لگتا ہے۔ میں تمہیں اس کی جگہ ایک خوبصورت درخت لگا کر دوں گا جسے ہم خود پال کربڑا کریں گے۔ “

”جب یہ درخت مر جائے تو اسے کٹوا دینا۔ ابھی اس کو ایسا ہی رہنے دو۔ پلیز۔ “

”اس درخت کو مرتے مرتے پانچ سال یا اس سے بھی زیادہ لگ جائیں گے۔ “

روپا نے سنتوش کا ہاتھ جھٹک کر کہا۔ ”یہ جیسا بھی ہے میرے لئے پوتر ہے۔ میرے مرنے کے بعد تم یہ شوق پورا کر لینا۔ “
”میں اس طرح کی جاہلانہ باتیں کرتا ہوں اور نہ سنتا ہوں۔ “

زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی اور سنتوش دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
”تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے۔ “ اس نے چیخ کر کہا۔
”اور تمہارا تو کبھی تھا ہی نہیں! “
سنتوش یہ سن کر غصے سے پسینے پسینے ہو گیا۔ اس نے بئیر کا بڑا کین فرج سے نکالا اور اور دو گھونٹ میں پی گیا۔

اگلے روز صبح پونے آٹھ بجے درخت کاٹنے کے لئے دو لوگ آئے۔ انہوں نے اپنے ٹرک کو درخت سے کچھ فاصلے پر پارک کیا۔ پھر ان دونوں نے درخت کا اچھی طرح معائنہ کیا اور فیصلہ کیا کہ درخت کو کتنے حصوں میں اور کہاں سے کاٹا جائے اور کٹی ہوئی شاخیں اور تنا کس طرف گرے۔ اس کے بعد انہوں نے نارنگی رنگ کی کونز چاروں طرف رکھیں تا کہ کوئی اور اس طرف نہ آئے۔

سنتوش یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ نہ جانے روپا پر کیا بیت رہی ہو گی! پھر اس نے خود کو تسلی دی کہ دو چار دن میں روپا نارمل ہو جائے گی۔

درخت کاٹنے والوں نے ٹرک پر رکھے جینیریٹر کو چلایا اور ایک بہت بڑی برقی آری نکالی۔ اچانک دروازہ کھلا۔ روپا ایک سوٹ کیس کے ساتھ باہر نکلی اور ادھر اُدھر دیکھے بغیر سوٹ کیس کو دھکیلتے ہوئے سیدھی کار کی طرف چل دی۔ سنتوش سٹپٹاتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ روپا کے چہرے پر سوگواری کم اور خود اعتمادی زیادہ تھی۔ آج کئی دنوں کے بعد وہ سنتوش کو پھر اچھی لگ رہی تھی۔ وہ اسے اپنے بازوؤں میں بھینچنا چاہتا تھا۔ اسے خیال آیا کہ وہ روپا کو پیار سے پکار کر روک لے۔ وہ کرسی سے روپا کے پیچھے جانے کے لئے اٹھا۔

برَم۔ برَم۔ برَم۔ برَم۔ برَررررررررررررررررر۔ آری کی تیز آواز نے سنتوش کو چونکا دیا۔ اس نے مڑ کر آری کی طرف دیکھا جو درخت کے تنے میں پیوست ہو نے ہی والی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ آری اس کی شادی کے درخت کو کاٹ رہی تھی جسے اس نے چالیس سال کی محبت سے بہت احتیاط کے ساتھ سینچا تھا۔ اس نے دور سے ہی آری کو روکنے کے لئے شور مچانا شروع کر دیا اور وہ آری کی طرف پلٹا۔ لیکن اس کی پکار آری کی اونچی، چبھتی، اور تیز آواز میں دب کر رہ گئی۔ اسے پھر روپا کا خیال آیا اور اس نے مڑ کر دیکھا لیکن وہ وہاں سے جا چکی تھی۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).