فوجی عدالتوں کی توسیع ناگزیر کیوں


15 دسمبر 2014 ہوا میں خنکی، جیسے دسمبر میں سردیوں کی شامیں ہوتی ہیں یہ بھی ایک ویسی ہی شام تھی۔ معمولات زندگی اپنی رفتار سے چل رہے تھے۔ آج چونکہ ایک دن کے وقفے کے بعد بچے اسکول میں اپنے دوستوں سے مل کر آئے تھے تو اب اگلے دن کی تیاری میں بھی مصروف تھے۔ ہوم ورک اور ٹیوشن سے فارغ ہو کر ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھے کارٹونز اور اپنی اپنی پسند کے چینلز دیکھے جا رہے تھے۔ التمش بیٹا ابھی نہا لو ورنہ صبح لیٹ ہو جاؤ گے اور سردی بھی ہو گی۔ اماں پلیز صبح نہا لوں گا ابھی دوست سے گیمز کھیل رہا ہوں۔ ماں مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھتی ہے جو دیوانہ وار موبائل کے بٹن پہ  انگلیاں چلا رہا ہے۔

کسی دوسرے گھر میں ماں بازار سے واپس آتے ہوے اپنے لاڈلے کے لیے نیا لنچ باکس لے کر آتی ہے۔ اور بیٹے کو گھر آ کر کہتی ہے آنکھیں بند کرو بیٹا آدھ کھلی آنکھ سے دیکھتا رہتا ہے ماں کہتی ہے آنکھیں کھولو۔ بیٹا ماں سے لپک جاتا ہے ماما احمد کے پاس بھی بالکل اسی رنگ کا ہے۔ کیسا لگا؟ بہت پیارا ماما۔ تھیک یو ماما۔

16 دسمبر 2014۔ بیٹا اٹھ جاؤ اسکول سے لیٹ ہو جاؤ گے۔ مائیں ناشتہ بنا رہی ہیں ٹفن باکس بھی تیار ہو رہے ہیں۔ کچن سے آواز آتی ہے التمش بیٹا منہ ہاتھ دھو لو باھر بہت سردی ہے۔ نہانا مت۔ التمش کہتا ہے کوئی بات نہیں اماں۔ التمش کی آواز پہ اماں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہے کہ سردی لگ گئی ناں تو بیمار پڑ جاؤ گے۔ احمد آج دروازے سے مڑتا ہے ماں ہنس کر کہتی ہے لنچ باکس بیگ میں رکھ دیا ہے۔ اماں آج بوسہ دینا بھول گئی۔ ماں ہنستی ہے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر بیٹے کا چہرہ ہاتھوں میں لیتی ہے اور ماتھے اور گال پہ پیار کرتی ہے۔

اللہ حافظ اماں۔

اسکول بس بچوں کو لیے اسکول کی طرف گامزن۔ ڈرائیورز اپنی اپنی گاڑیوں کے بچوں کی اٹھکیلیوں سے لطف اندوز ہو رہے۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔

اسمبلی سے فارغ ہو کر بچے ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے اور شرارتیں کرتے اپنی اپنی کلاسز میں چلے جاتے ہیں۔

سات دہشت گرد اچانک اسکول میں داخل ہوتے ہیں اور کچھ دہشت گرد اسکول کے آڈیٹوریم کی طرف رخ کرتے ہیں جہاں بچوں کوھنگامی حالت میں کیسے ”ابتدائی طبی امداد“ دی جاتی ہے پہ لیکچر دیا جا رہا ہے اور کچھ کلاس رومز اور اسٹاف رومز میں ان معصوم بچوں پہ اندھا دھند فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ساڑھے دس اور گیارہ بجے کے درمیاں تمام نجی چینلز اسکول میں دہشت گردوں کے داخل ہونے کی بریکنگ نیوز چلاتے ہیں۔ شہر بھر میں فون بجنے لگتے ہیں۔

سب لوگ اسکول کی طرف بھاگتے ہیں۔ ملک بھر میں آرمی پبلک اسکول اور کالجز کی کل تعداد 146 ہے جن میں وارسک روڈ پشاور پر واقع ایک یہ اسکول بھی ہے اسکول میں کل تعداد 1099 ہوتی ہے جن میں طالبعلم اور اسکول اسٹاف بھی شامل ہے۔ اسپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز کو بلایاجاتا ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے پاکستان آرمی کی میڈیکل کور بھی ایمبولینسز کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی پولیس بھی اطلاع ملتے ہی کنٹونمنٹ ایریا میں واقعہ اسکول میں پہنچ جاتی ہے۔

جبکہ پلک جھپکتے میں کمانڈوز مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ دہشت گرد قیامت ڈھا رہے ہوتے ہیں۔ کمانڈوز کا مطمح نظر یہ ہے کہ کسی بھی طرح اسکول طلبہ اور اسٹاف کو جانی نقصان سے بچایا جا سکے۔ کیونکہ دہشت گرد جدید اسلحہ اور خود کش جیکٹس اور ہینڈ گرنیڈز سے مسلح ہوتے ہیں۔ کمانڈو ایکشن ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے تمام دہشت گردوں کی شناخت چیچن، عرب اور افغان غیر ملکیوں کے طور پہ ہوتی ہے اور اس حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی ہے اور اسے پاک فوج کی طرف سے جنوبی وزیرستان میں کیے جانے والے آپریشن ضربِ غضب کا بدلہ قرار دیتی ہے شہید بچوں کی تعداد 150 کے قریب پہنچ جاتی ہے۔

شہر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ ہر گلی ہر محلہ ان معصوم شہیدوں کے پاک خون سے معطر ہو گیا ھے۔ مائیں اپنے بال نوچ رہیں ہیں باپ دیوانہ وار پاگلوں کی طرح چیخ رہے ہیں۔ لیکن کچھ ہی فاصلے پہ ہمارے ازلی دشمن بھارت اور افغانستان کی ایجیسیاں اپنی اس دہشت گردی پہ درپردہ خوشی کے شادیانے بجا رہی ہیں۔ التمش کی لاش گھر پہنچتی ہے ماں جو اپنے بیٹے کو نہانے سے روکتی ہے کہ بیمار پڑ جاؤ گے۔ تو جب اپنے معصوم بیٹے کی لاش دیکھتی ہے اسے ایسے احساس ہوتا ہے جیسے التمش کہہ رہا ہو ماں پتہ ہے کیوں نہایا تھا؟ آج آخری دن تھا ناں میرا۔ اللہ کے حضور حاضری تھی تیرا بیٹا کیسے اللہ کے حضور بغیر وضو چلا جاتا۔

احمد کا لاشہ جب گھر آتا ہے تو ماں کو سمجھ آتی ہے کہ کیوں آج بیٹا ماتھے پہ بوسہ لینے کی فرمائش کر رہا تھا۔ کہ آج تو اسے جگنووں کے، تتلیوں کے دیس جانا تھا۔

ملک بھر میں قیامت مچ جاتی ہے غرض لوگ ہر شہر سے دیوانہ وار ان پھولوں کے جنازے کو کندھا دینے پشاور کی طرف رواں دواں۔ ہر گاؤں ہر شہر ہر ضلع میں ان پھولوں کی غائبانہ نماز جنازہ ہو رہی ہے شمعیں روشن ہو رہی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اس دہشت گردی کی مذمت کر رہی ہیں۔ قوم اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈ بلکہ ان کے سہولت کاروں کو حکومت کی طرف سے بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کچھ لوگ اس المناک سانحہ کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنا چاھتے ہیں نظریں ڈی چوک کی طرف اٹھتی ہیں جہاں ملک کی ایک سیاسی جماعت ملک میں دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف دھرنا دیے بیٹھی ہے۔

کچھ لوگ اس آس میں ہیں کہ دھرنا ختم نہ ہو تاکہ رائے عامہ کو اس جماعت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ لیکن سترہ دسمبر کو عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں وہ غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں اور ہماری جماعت کی کور کمیٹی نے اس دھرنا کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف سترہ جون کو وزیر اعظم نواز شریف Moritorium of death penalty پر پابندی کو ختم کرنے کے لیے وزارت قانون کو ضروری کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ 2008 کے بعد سے دہشت گردی سے متعلقہ کیس ہائے میں جن دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی ان پہ عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔

پاکستان میں ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے ہماری عدالتوں میں کیس عرصہ دراز تک زیر التوا رہتے ہیں۔ دہشت گردوں کے ڈر سے گواہ بھی منحرف ہو جاتے ہیں اور ججز حضرات کو بھی اپنی اور اپنے اھل خانہ کو جان کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس پر ججز حضرات ان نوعیت کے کیسز کو سننے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں پولیس کا نظام بھی ہے جس میں ہمیشہ سیاسی بنیادوں پہ بھرتیاں کی جاتی رہی جن کی بنا نااہل اور سفارشی لوگ بھرتی کیے جاتے رہے اور تفتیش کا طریقہ کار بھی تسلی بخش نہ رہا ہے۔

ان حالات کے پیش نظر عوام کی طرف سے فوجی عدالتوں کا مطالبہ زور پکڑتا گیا تاکہ وطن عزیز میں ہر طرح کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پہ کوئی ایسی عدالتیں ہوں جہاں پر جلد از جلد انصاف ہو سکے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے لہذا اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی سربراھی میں قومی اسمبلی اور سینٹ نے 6 جنوری 2015 کو اکسیویں ترمیم کا بل پاس کیا جس کی سمری صدر مملکت کو منظوری کے لیے بھجوا دی گئی جسے صدر پاکستان ممنون حسین نے سات جنوری کو منظور کر لیا۔ اس طرح ملک میں ان معصوم بچوں کے خون نے اس ملک میں ”انصاف میں تاخیر، انصاف کی موت“ کو ہمشیہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔

اب جبکہ ان عدالتوں کی معیاد ختم ہونے جا رہی ہے تو گزشتہ اور رواں سال میں پھر ملک میں کچھ ایسے سانحات رونما ہوئے جنہوں نے عدل کے معیار پہ کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔ اس بات سے کوئی بھی شخص کسی صورت انکار نہ کر سکتا ہے کہ ملک میں اداروں نے انگڑائی لی ہے اور سیاسی مداخلت کے بغیر اپنے فیصلوں سے عوام میں پزیرائی حاصل کی ہے لیکن اس وقت بھی دہشت گردی کے بہت سے کیسز التوا کا شکار ہیں۔ سیاستدان آپسی جھگڑوں میں کبھی دست و گریباں اور کبھی باھم شیر و شکر نظر آتے ہیں لیکن اس لڑائی میں آج بھی لوگ اپنے پیاروں کی موت کے بعد انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں۔

کیا ہم ان بچوں کو بھول جائیں جنہوں نے اپنی جان قربان کر کے قوم کو فوجی عدالتوں کی صورت میں انصاف کی جلد فراھمی کا ایک پلیٹ فارم دیا۔ اس موقعہ پہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ان معصوم پھولوں کی خاطر جن کے ابھی مرنے کے دن نہ تھے۔ جنہوں نے پڑھ لکھ کر اپنی آنکھوں میں اس ملک کی ترقی کے خواب سجا رکھے تھے۔ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی سہی ان کی توسیع کی منظوری دیں۔ راقم الحروف کی سمجھ سے بالا ہے کہ نجانے کیوں سیاستدانوں کو ان عدالتوں سے خطرہ ہے حالانکہ یہ عدالتیں خالصتا دہشت گردوں کے کیسز کی سماعت کر کے انصاف کی فراھمی کو یقینی بنائیں گی اس سے نہ صرف ملکی عدالتوں میں ججز پہ کیسز کا دباؤ کم ہو گا بلکہ انصاف کی فراھمی بھی جلد ممکن ہو سکے گی۔

ورنہ جو لوگ اس توسیع میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے وہ ان معصوموں کے خون سے غداری کے مرتکب ہوں گے بلکہ راقم الحروف کو خدشہ ہے کہ کہیں ان عدالتوں کی توسیع کی خاطر عوام سڑکوں پہ نہ نکل آئیں۔ ان میں وہ ۔مائیں بھی ہوں گی جن کے ہاتھوں میں اپنے اے پی ایس کے شہید بچوں کی تصویریں بھی ہوں گی۔ سیاستدانو! ان ماؤں کی آہ سے ڈرو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).