پاکستان میں دو پاگل غیر ملکی خواتین


کچھ عرصہ قبل ایک سرکاری ادارے میں کنٹریکٹ کی نوکری سر انجام دے رہا تھا کہ اسی دوران ادارے کے ذمہ داران کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ہم 6 افراد کے لیے اخلاقیات خصوصا صحافتی اخلاقیات کے عنوان سے ایک دس روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کر ڈالا، لیکن یہ بات ان کے اذہان سے جانے کب نکل گئی کہ اخلاقیات کا کنٹریکٹ پر نوکری کرنے والے سرکاری ملازمین سے بھلا کیا تعلق کہ جن کے کنٹیریکچویل لیٹر میں اخلاقیات نبھانے کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں ہوتا۔ ویسے تو یہ بات جملہ سرکاری ملازمین کے لیے بھی کی جاے تو غلط نہ ہوگی۔

خیر بات اخلاقیات پر ورکشاپ کی تھی سو اس میں ہمارے اخلاقیات سے عاری اذہان کی تربیت کے لیے ایک غیر ملکی ادارے کی دو نمائندہ خواتین کا چناؤ کیا گیا جن کی حرکات ہمارے لیے پہلے روز سے آخری روز تک منبع حیرت رہیں۔

کیسے؟ پہلے دن کی ہی مثال لیجیے جب ہماری دونوں تربیت کار خواتین ورکشاپ کے پہلے روز ہمارے رو برو ہوئیں تو حسب توقع 10 روزہ مغز ماری کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کی بجائے ان کے چہرے پر حیرانی و پریشانی نے ڈیرہ جما رکھا تھا اور آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر رہی تھیں۔ میں چونکہ شروع سے ہی سرکاری ملازم کی ذہنیت لے کر پیدا ہوا ہوں جس کی نظر مطلوبہ جواب یا فائدہ حاصل کرنے پر جمی ہوتی ہے چاہے اس کے لیے کتنی ہی بے عزتی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔

سو ہمارے گروپ میں سے میرا انتخاب کیا گیا کہ میں ان کی اس حیران اور پریشان کن حالت کا سبب پوچھوں اور آخر میں نے ایسا کر ڈالا، لیکن اس کے ردعمل میں آنے والا جو اب ہماری توقعات کے مطابق غیر معمولی نہ تھا بلکہ ہم جملہ سرکاری ملازمین ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے کہ ان خواتین کا ذہنی توازن گڑ بڑا چکا ہے کیونکہ دیے گئے جواب میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ صبح ان تربیت کار خواتین کے مسکن (مقامی ہوٹل) سے لے کر ہمارے دفتر تک وہ یہ دیکھ کر حیران، پریشان بلکہ ہلکان ہوتی آئیں کہ راستے پر انہوں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے ایک موٹر سائیکل سوار کو فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے راستے کو چیرتے ہوئے دیکھا۔

ورکشاپ کے تعارفی سیشن میں وہ چلاتی رہ گئیں ”یہ کیسے ممکن ہے؟ بھلا اتنا بڑا جرم بھی کوئی کرتا ہے؟ اور وہ بھی شہر اقتدار میں، وہ بھی سرعام؟ “۔

جواباً ہم سب اپنا سا (بلکہ اپنے سے ) منہ لے کر رہ گئے کہ جس تھیلے سے بلی کے نکلنے کا انتظار تھا اس میں سے تو چوہا بھی نہ نکلا اور ہم بلاوجہ تجسس کے چراغ میں بند رہے۔

ان غیر ملکی خواتین کی بدقسمتی دیکھیے کہ وہ اخلاقیات اور خصوصاً میڈیا میں اخلاقیات پڑھانے آئیں تھیں اور ان کی فٹ پاتھ پر موٹر سائیکلوں کی موجودگی پر ہلکان طبیعت سے ہم نے بھانپ لیا تھا کہ صاحب ان میڈموں کو تو دس دن متذبذب رکھنا کچھ پریشانی ہی نہیں۔ بھئی آخر ہم سرکاری ملازم تھے اور پاکستانی قارئین توبخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ تذبذب اور سرکاری ملازم کا تو گہرا رشتہ ہے، ہاں، البتہ سرکاری ملازم کو اخلاقیات سکھانے کی بات ایسے ہے جیسے دودھ دینے والے جانور کے آگے موسیقی، اس مثال کو عصری تقاضوں پر پیش کرنے کا مقصد تھا کہ بحیثیت سرکاری ملازم خود مجھ پر ضرب زیادہ شدید محسوس نہ ہو باقی اس مثال سے تو آپ واقف ہیں۔

تو بات تھی ان اخلاقی خواتین یعنی ہماری تربیت کار غیر ملکی (ہمارے مطابق ذہنی طور پر گڑبڑائی) خواتین کو تذبذب میں ڈالنے کی، سو ہم نے اگلے دس روز ان کو اپنے معمول کے افعال بیان کر کے خوب حیران و پریشان کیا۔ جیسے ٹریفک وارڈن کو دیکھ کر ہیلمٹ پہن لینا اور اس کے جاتے ہی اتار لینا، جیسے کوڑا دان کے بالکل ساتھ ہی کوڑے کا ڈھیر لگا نا، جیسے گھر سے آئی ہوئی فون کال کو یہ کہہ کر کاٹ دینا کہ ٹھہرو میں دفتر سے فون کرتا ہوں، غرض ہم روٹین سے فرد بہ فرد واقعات شیئر کر دیتے جن پر ان کی باچھیں کھلی رہ جاتی اورہم ہنسی خوشی چھٹی کر کے گھر پہنچ جاتے تھے کہ ڈیوٹی نام کی کوئی چیز نہیں، خواتین کو معمول کے واقعات سناؤ، حیران کرو اور گھر کی راہ لو۔ واہ ایک سرکاری ملازم کو اور کیا چاہیے۔

انہی دس دنوں کے دوران میری متجسس اور سرکاری ملازم کی سی ذہنیت کے باعث ان تربیت کار خواتین میں سے ایک سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی لیکن ورکشاپ کا آخری دن شاید ہماری دوستی کا بھی آخری دن تھا اور شاید ان دس دنوں میں اس استانی کے باقی ماندہ اوسان کا بھی۔ ہوا کچھ یوں کہ آخری روز ہمیں شہر اقتدار کے ایک تفریحی مقام کا ان غیر ملکی (اخلاقیات پر مبنی) خواتین کے ہمراہ دورہ کرایا گیا اور اس موقع پر ہم سب دو دو کے گروپوں میں بٹ کر اس تفریحی مقام کی پر لطف آب و فضاء میں چہل قدمی کرتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے اور اتفاقاً میری جوڑی (یہ آسمانوں والی نہیں ) اس غیر ملکی تربیت کار دوست کے ساتھ بنی لیکن جہاں میرے لیے ایک معمولی اور اس کے لیے ایک ایسا غیر معمولی واقعہ پیش آیا جس کے بعد وہ بات بات پر ہلکان ہو کر نیم پاگل نظر آنے والی خاتون قریباً پوری پاگل کہلانے کے قابل ہو گئی، اس نے پاکستان سے واپس روانگی تک کوئی لفظ نہیں بولا اور نہ جا کر کوئی رابطہ کیا۔

ہوا صرف یوں تھا کہ ہم دونوں اکٹھے چل رہے تھے کہ اس کی نظر سامنے لگے واٹر کولر پر پڑی جس میں بنی اسٹینڈ نما جگہ پر ایک گلاس رکھا تھا جو زنجیر سے بندھا تھا، اس نے فٹ سے پوچھا یہ کلاس کو زنجیر سے باندھاکیوں گیاہے؟ کیا اس لیے کہ گر کر گندہ نہ ہو کیونکہ یہ تو شیشے کا بھی نہیں کہ ٹوٹنے کا خطرہ ہو؟ اس کا جواب تو ملک کا کوئی بھی شہری دے لیتا سو جھٹ پٹ میں نے بتایا کہ اگر زنجیر نہ ہو تو یقینا اگلے ہی کچھ لمحوں میں یہ گلاس بھی یہاں نہ ہو۔

بس؟ اتنی سی بات تھی کہ اس خاتون کے لیے تو جیسے زمین پھٹ گئی، آسمان گر گیا، کنپٹیوں پر دونوں ہاتھ رکھے گاڑی کی طرف بھاگی اور سر پکڑ کر سیٹ سے ماتھا ٹیک دیا۔ جبکہ میرے نزدیک جو شک اس کے پاگل ہونے میں باقی تھا یقین میں بدل گیا اور میں اس کی حالت کو دیکھ کر کندھے اچکاتا ہوا دوسرے ساتھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ ہونہہ، پاگل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).