بلاول بھٹو کا میرٹ کیا ہے؟


پاکستان پیپلزپارٹی کی سپریم پولیٹکل لیڈرشپ جس میں رضاربانی، اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، شیری رحمان، تاج حیدر اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی قدآور شخصیات ہیں، انہوں نے اپنے سے تقریبا آدھی عمر کے بلاول بھٹو زرداری کی قائدانہ صلاحیتوں کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنے سارے سیاسی تجربے اور صلاحیتوں کے ہمراہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جنرل ایوب خان سے پرویزمشرف جیسے ڈکٹیٹروں کا سامنا کرنے والے سیاسی شعور کے اعتبار سے پاکستان میں سب سے پختہ کہلانے والے جیالے بلاول بھٹو کو اپنا لیڈر کہتے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو کا میرٹ کیا ہے، کیا محض شہید ذوالفقارعلی بھٹو کا نواسہ ہونا یا شہید بے نظیر بھٹو کا صاحبزادہ ہونا بلاول بھٹو کو ایک لیڈر بنا سکتا ہے، یہ دونوں وجوہات اپنی جگہ اہم ضرور ہیں مگر شاید ایسا نہیں ہے، لندن میں جنوری 2008 میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو سے یہی سوال ہوا تھا، یہ وہ وقت تھا کہ جب انہوں نے ابھی پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی سنبھالی تھی اور ابھی تعلیم حاصل کررہے تھے، بلاول بھٹو نے جواب دیا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ان کی خواہش نہیں تھی، حالات ایسے پیدا ہوئے کہ ان کے پاس دوسری کوئی صورت نہیں رہی، پی پی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی جو ملک بھر کی نمائندگی کرتی ہے، انہوں نے بلاول بھٹو کو بتایا کہ عوام آپ کی شکل میں امید دیکھ رہے ہیں اور بلاول بھٹو یہ امید نہیں توڑنا چاہتے تھے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو نے عوام کی امید کو کیسے پورا کیا تو 2016 کے بعد سے اب تک کی ان کی فعال سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے، جس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک نوجوان جس کی ماں کو پنڈی میں خون میں نہلا دیا گیا ہے، پارٹی مختلف حلقوں کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے اور ایک ایک کر کے سیاسی راہنماؤں کو ساتھ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، والد کی کردار کشی اتنے عروج پر ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا باقاعدہ ایک محاذ ہے اور اس ساری صورت حال میں اکیلے بلاول بھٹو۔

بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والوں کا مقصد بارودی مواد سے دھماکا کرکے محض ان کی زندگی کا خاتمہ نہیں تھا، بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے کا مقصد پاکستان پیپلزپارٹی کا خاتمہ تھا، شہید بے نظیر بھٹو کی زندگی کا خاتمہ کرنے والے جانتے تھے کہ بلاول بھٹو مزاحمت کرے گا مگر شاید انہوں نے اس مزاحمت کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور اس غلط فہمی میں رہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی ختم ہوجائے گی، زبردست دھاندلی اور غیرہموار سیاسی صورت حال کے باوجود آج ایک صوبے میں بلاول بھٹو حکومت بناچکے ہیں اور ملک کے ہر حصے سے پاکستان پیپلزپارٹی نے انتخابات جیسے ہیں، اقتدار میں رہنے والی پاکستان مسلم لیگ نون باوجود مزاحمت کے یہ نتائج نہیں دے سکی اور بلاول بھٹو کی سیاسی سمجھ بوجھ اور فہم وفراست نے بہت سوں کو پیچھے چھوڑدیا۔ یہ ہے مرد حر کہلانے والے آصف علی زرداری اور عوام کے حقوق کی خاطر سرراہ جان دینے والی شہید بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے کا میرٹ۔ !

بلاول بھٹو کے پرنانا بھی وزیراعظم تھے اور نانا بھی۔ والدہ بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہیں اور والد صدر پاکستان رہے، پوری دنیا میں اسم بھٹو مزاحمت کی ایک علامت ہے، بلاول بھٹو چاہیں تو دنیا کے کسی ملک میں عیش وعشرت کی زندگی بسر کریں جہاں عالمی پائے کے لیڈر ان سے ملاقاتیں کریں اور پوری دنیا سے طلبہ ان کے لیکچرز کو سننے آئیں مگر بلاول بھٹو نے اس زندگی کو منتخب نہیں کیا اور ایک ایسی زندگی کو منتخب کیا کہ جب وہ الیکشن مہم کے لیے نکلے تو ملتان سے پہلے انہیں محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے ڈی ایس پی نے روک لیا جس کا بھائی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہا تھا اور جب بلاول بھٹو پشاور جارہے تھے تو انہیں بذریعہ پرواز نہیں جانے دیا گیا حالانکہ عمران خان کو اسی پرواز سے جانے کی اجازت دی گئی، یہ نا انصافی والا سماج قبول کرکے بلاول بھٹو نے ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس لڑائی کا علم ذوالفقارعلی بھٹو شہید کی قبر سے اٹھا کر 30 برس تک ان کی والدہ جدوجہد کرتی رہیں اور پھر انہیں بھی خون میں نہلادیا گیا۔

عمران خان جس عمر میں پری مہوشوں کے جمگھٹ میں جوانی کا نشہ اتار رہے ہوتے تھے، بلاول بھٹو اس عمر میں لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حقوق کی بات کر رہے ہیں، آج بھٹو بھٹو کرنے والے اور اپنی غلطیوں پر پچھتاوے کا اظہار کرنے والے آل شریف کو بلاول بھٹو کی وہ سب باتیں یاد آرہیں ہیں کہ عدالتوں کو سیاسی معاملات میں نہ الجھایا جائے کہ یہ استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی استعمال ہوں گی اور یہی شعور بلاول بھٹو زرداری کا وہ میرٹ ہے کہ جس کی بنیاد پر بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والے لرزہ براندام ہیں کہ پہلے تو یہ دیوانے سال میں ایک بار گڑھی خدا بخش میں جمع ہوتے تھے اور اب دو بار جمع ہونے لگے ہیں اور دونوں بار وہی سراپا اسٹیج پر کھڑا ہوتا ہے جس کو انہوں نے رتو ڈیرو کی زمین میں دفن کرنے کی کوشش کی۔

اگر موجودہ سیاسی صورت حال کو دیکھیں تو الیکشن کے بعد جمعیت علمائے اسلام پارلیمان میں نہ جانے کا اعلان کرچکی تھی اور مسلم لیگ نون تذبذب کا شکار تھی مگر بلاول بھٹو نے نہ صرف خود پارلیمان جانے کا اعلان کیا بلکہ مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام کو بھی پارلیمان لے کر آئے، اگر آج پارلیمانی امور چل رہے ہیں تو یہ بلاول بھٹو کی مرہون منت ہیں، حکومت تو بظاہر یہ چاہتی تھی کہ بلاول بھٹو اپوزیشن لیڈر بن جائیں بلکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کی بھی پیش کش کردی گئی تھی مگر بلاول بھٹو نے اصولوں کی خاطر عہدوں کو ٹھکرا دیا اور اپنے بدترین سیاسی حریف رہنے والے شہباز شریف کو ان کا یہ حق دلایا، ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کا منظر نامہ صرف بلاول بھٹو کے فیصلوں کے نتائج ہیں اور پھر بھی کچھ ناعاقبت اندیش سوال کرتے ہیں کہ بنت ارض ایشیا کہلانے والی اس لعل قلندر لڑکی کے صاحبزادے کا میرٹ کیا ہے، اگر میرٹ کو سمجھنا ہے تو حکومت کے خلاف بلاول بھٹو کی زبان سے ادا ہونے والے لفظ سلیکٹڈ پرائم منسٹر کے وزن کو محسوس کریں، جس پر ماضی کے کھلاڑی اور موجودہ وزیراعظم نے تالیاں بھی پیٹیں تھیں، اس ایک لفظ کے وزن تلے حکومت آج تک دبی ہوئی ہے اور آج یہ ایک لفظ زبان زدعام ہے، جس کا ایک لفظ اتنا معتبر ہو وہ لیڈر کیسے غیرمعتبر ہوسکتا ہے، چاہیں تو حجرشجر سے پوچھ لیں کہ وہ بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔

مجھے تعجب ہے کہ کم جونگ اون اور پریانکا اور راہول گاندھی کو تسلیم شدہ لیڈر کہنے والوں کو بلاول بھٹو کے میرٹ پر ہی کیوں سوالات ہوتے ہیں کہ کم جونگ بھی دادا اور پردادا جبکہ راہول اور پریانکا گاندھی بھی سیاسی وراثت کو لے کر چل رہے ہیں مگر بلاول بھٹو ان سے کچھ مختلف یوں ہیں کہ یہاں معاملہ وراثت نہیں بلکہ میراث کا ہے، یہ میراث جب شہید بے نظیر بھٹو کو ملی تو وہ ان کی چوائس نہیں تھی بلکہ حالات کا جبر تھا اور یہی میراث جب بلاول بھٹو کو ملی تو یہ بھی حالات کا جبر تھا ورنہ اگر آج شہید بے نظیر بھٹو حیات ہوتیں تو وہ ملک کی سربراہ ہوتیں اور بلاول بھٹو شاید ابھی تک حصول تعلیم میں مشغول ہوتے، سابق صدر آصف زرداری جیسے عالی سیاسی دماغ اور شہید بے نظیر بھٹو جیسی باوصف انسان کی تربیت کے بعد بلاول بھٹو کے میرٹ پر سوال اٹھانا بذات خود نادانی کی علامت ہے کہ شاید بلاول بھٹو ہی پاکستان میں میرٹ کا اسٹینڈرڈ ہیں۔

کوئی لیڈروں کو قتل کرنے والوں سے بھی پوچھے کہ بھی آپ کا میرٹ کیا ہے اور میرٹ میرٹ کی رٹ لگانے والوں سے بھی دریافت کیا جائے کہ ماں کے قتل کے بعد ایک بیٹا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پورب اور پچھم اپنے کسی ذاتی مسئلے کے لیے نہیں جارہا بلکہ اس کا مسئلہ عوام کے حقوق ہیں، یہ بات عوام کو بھی سمجھنا ہوگی کہ جو بھی ان کے حقوق کے لیے نکلتا ہے، اسی کا میرٹ سوال بنتا ہے اور آئین شکنوں کے لیے کوئی سوال ہے نہ اشکال۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).