منٹو کا الو کا پٹھا


سعادت حسن منٹو کی کہانی الو کا پٹھا  جس میں مرکزی کردار قاسم کے دل میں صبح اٹھتے ہی کسی کو الو کا پٹھا کہنے کی شدید خواہش ابھرتی ہے اور وہ اس خواہش کو دبانے اور اپنا دھیان بٹانے میں اس وقت تک مصروف رہتا ہے، جب تک ایک خاتون جس کی ساڑھی کا پلو سائیکل کی چین میں پھنس جاتا ہے، قاسم اس کی مدد کرتا ہے اور نتیجے میں وہ اسے الو کا پٹھا کہہ نہیں دیتی۔ وہ دکھی ہوتا ہے کہ یہی لفظ وہ کسی اور کو کہنا چاہتا تھا، مگر اسے خود ہی سننا پڑ گیا، مگر پھر وہ اس عورت کو معاف کر دیتا ہے۔ سوچتا ہے عورت کو سمجھنا بڑا مشکل کام ہے خاص کر کے سائیکل سے گری عورت کو لیکن ا سکی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ آخر اس عورت نے اپنی لمبی جراب میں ران کے پاس کچھ کاغذ کیوں اڑس رکھے تھے۔ ۔

قاسم کی طرح، منٹو کے دل میں زندگی بھر کسی نہ کسی کو الو کا پٹھا کہنے کی خواہش موجود رہی۔ وہ صحیح الدماغ تھا، ٹھنڈے دل سے سوچتا، اور اس گالی کو نہایت طریقے سے کبھی کہانی، کبھی خط اور کبھی خاکے میں ڈھال دیتا۔ اور سائیکل سے گرے جن لوگوں کی وہ اٹھنے میں مدد کرتا، وہ لمبی جراب میں چھپی چوری نظر آجانے کی جنجھلاہٹ میں منہ لال کر کے بڑے زور سے کہتے۔ الو کا پٹھا۔

پندرہ یا سولہ سال کی عمر میں جب منٹو کی ایک ایسی کہانی پڑھی جس میں بیوی کے مرنے کے بعد خا وند اپنی ہی بیٹی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتا ہے تو حیرت پورے جسم کو کھا گئی۔ کالج جاتے ہی پہلی فرصت میں بائیو کے پریکٹکل کی کلاس میں تیس لڑکیوں کو ٹیچر کے پوڈیم پر کھڑے ہو کر یہ کہانی سنائی۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جارہی تھی میرے جسم میں پھیلی حیرت لڑکیوں کے جسموں میں منتقل ہوتی جا رہی تھی، ہر طرف ہو ہا، بے یقینی کی کیفیت، ۔

کہانی ختم ہوگئی تھی، اب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، ایک لڑکی میرے کان میں آکر اسی قسم کا اپنے محلے میں ہونے والا واقعہ سنا کر یہ تصدیق کر چکی تھی کہ یہ کہانی حقیقت میں بھی وجود رکھتی ہے۔ میں مکمل پردھان بنی اپنی سمجھ سے بڑے جواب دے رہی تھی، اچانک کلاس روم کا دروازہ کھلا، بائیولوجی کی خشک کھال والی مس ممتاز میرے سامنے کھڑی مجھے گھور رہی تھی، اب اندازہ نہیں تھا کون کون سے الفاظ ان کے کان نگل چکے ہیں، وہ بھی کمال کی میسنی استانی تھی، بولی کچھ نہیں مجھے کہا، آج مینڈک کے پریکٹکل کے وقت تم بوری میں سے سب لڑکیوں کے گروپس کو زندہ مینڈک نکال کر دو گی، اور جب میں نے کر اہت کے مارے انکار کر دیا تو مجھے کلاس سے باہر نکالنے کا ان کے پاس ایک مناسب جو از آگیا، پھر میری عدم موجودگی میں ایک دو اپنے اعتبار کی لڑکیوں سے پوچھا کہ یہ کیا لیکچر چل رہا تھا، ایک لڑکی نے اپنی طرف سے میری سائیڈ لیتے ہوئے کہا میڈم وہ خود سے تو کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھی وہ تو ہمیں منٹو کا افسانہ سنا رہی تھی، راوی بتاتا ہے کہ یہ سنتے ہی ٹیچر کا منہ لال ہوگیا اور وہ چلائی اس الو کے پٹھے، فحش نگار کو سنا رہی تھی۔

اور اس کے بعداستانی صاحبہ کے جن لڑکیوں کے والدین سے ذاتی مراسم تھے یا جن کی عاقبت سنوارنی تھی، ان پر میرے ساتھ بات چیت پر پابندی لگا دی۔ اور وہی ٹیچر جب sexual or Asexual reproduction پڑھاتے ہوئے جب لفظ sexمنہ سے نکالتی اور گھبرا کر سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتی تو مجھے لگتاتھا ابھی کلاس میں آیت الکرسی کے ورد کا فرمان جاری ہوجائے گا۔

حالانکہ منٹو نے اس رات ایک نئی دنیا کی آگاہی کا جو دروازہ مجھ پر کھولا تھا، وہی چند سالوں بعد oedepius and electra complex، قدیم یونانی لٹریچر کی صورت میرے سامنے پڑا تھا۔ اور ہمارا بنیاد پرست مولوی آج بھی ایک برقی ادبی فورم میں منٹو پر بات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ میں اس شرابی کا موازنہ DH lawarence جیسے فخش نگار کے ساتھ کر رہا ہوں، خدا نخواستہ مولانا موددی سے نہیں کر رہا۔ ( شکر ہے کہ سعادت حسن منٹو اس بوجھ سے محفوظ رہے ) ۔

منٹو۔ کھول دو، ٹھنڈا گوشت، اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مذہب کے نام پر زندہ لاشوں کی کہانی اپنی تیز دھار کی تلوار سے تاریخ کے صفحے پر کھود دیتا ہے، اس کا موازنہ کسی مولوی سے ہو بھی نہیں سکتا۔ وہ کہتا تھا۔ دنیوی معاملات میں اگر میں کسی کایا اپنا سر جھکا دیکھتا ہوں تو خدا کی قسم بڑا دکھ ہو تا ہے۔ ہر ذی روح چاہے وہ عورت ہو، مرد ہوجانورہو یا پاگل، اس کی تکلیف کو محسوس کرنا، یہ تھا اس کا مذہب۔ وہ سماجی نا انصافی کے خلاف چیختا تھا۔

ہمیں پیٹ کی خاطر بعض اوقات کسی الو کے پٹھے کی مدح سرائی بھی کرنا پڑتی ہے، یہ انسان کا بہت بڑا المیہ ہے لیکن یہ المیہ ہی انسان کا دوسرا نام ہے۔ اور یہی بے دینی ہی اس کا دین ایما ن تھی۔ مولوی نے گری سائیکل سے اپنی دھوتی نکالی، اور جب منٹو نے اس کی دھوتی میں اڑسے کاغذ دیکھ لئے، تو مولوی کا رنگ لال ہوگیا اور اس نے نفرت سے تھوکتے ہوئے کہا۔ الو کا پٹھا۔

جلیانوالہ باغ کے سانحہ پر اپنا پہلا افسانہ

۔ تماشا۔ لکھتا ہے اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد۔ ٹیٹو وال کا کتا لکھتا ہے۔ اس میں کچھ یوں ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی کیمپ آمنے سامنے ہیں، ہندوستانی فوجی ایک آوارہ کتے کے گلے میں اپنے نام کا پٹہ ڈال دیتے ہیں اور وہی کتا جب پاکستانی کیمپ میں جاتا ہے تو پاکستانی فوجی اسے پاکستانی کہتے ہیں، اور آپس میں کہتے ہیں کہ اب کتوں کو بھی پاکستانی یا ہندوستانی ہونا پڑے گا۔ اسی چکر میں دونوں کیمپوں کے درمیاں ٹہلتے ہوئے اس کتے پر فائرنگ ہوجاتی ہے، کتا مر جاتا ہے، پاکستانی فوج کہتی ہے شہید ہوگیا، ہندوستانی کیمپ سے اس یقین کے بعد کہ وہ کتا پاکستانی ہی تھا آواز آتی ہے کتے کی موت مر گیا۔ آج ٹیٹوال کے کتے کو مرے نصف صدی سے زیادہ وقت گزر گیا۔ اب تک یہی طے نہیں ہوا کہ کون شہید کی موت مر رہا ہے اور کون کتے کی۔ بس لوگ مرتے جا رہے ہیں۔ موتیں بانٹنے والوں نے اپنی گری سائیکل سنبھالی، اور جب منٹو نے خاکی پتلون میں اڑسے کاغذ دیکھ لئے تو خاکی وردی والے نے لال منہ سے اسے کہا۔ الو کا پٹھا۔

منٹو نے۔ افسانہ۔ ترقی پسند۔ میں ترپال سیٹھی کے کردار سے ملوا کر ترقی پسندی کے سطحی پن کی جھلک دکھا ئی۔ اس نے جیب ِ کفن میں قاری کو مخاطب کیا اور کہا یہ کیسے ترقی پسند ہیں جو تنزلی کی طرف جا رہے ہیں، یہ ان کی سرخی کیسی ہے جو سیاہی کی طرف دوڑتی ہے، یہ ان کی مزدور دوستی کیا ہے جو مزدور کو پسینہ بہانے سے پہلے ہی مزدوری کے مطالبے پر اکسا رہی ہے۔ یہ ان کی سرمائے کے خلاف محنت کی عبارت کیسی ہے کہ یہ خود سرمائے سے مسلح ہونا چاہتے ہیں، یہ ان کا ادب میں کس قسم کا اجتہاد ہے کہ غزل کومشین اور مشین کو غزل بنانے کے منصوبے سوچے جا رہے ہیں۔ مجھے کبھی فخش نگار اور سرخا، کبھی رجعت پسند اور کبھی بہت بڑا ادیب کہا جاتا ہے، ۔ میرا افسردہ دل لرزتا ہے کہ یہ متلون مزاج سرکار خوش ہو کر ایک تمغہ میرے کفن سے ٹانگ دے گی، جو میرے داغ ِ عشق کی بہت بڑی توہین ہوگی۔

اس نے کہا ادب جمود کا شکار ہے اور انحطاط پذیر ہے، یہ گفتار اسی سے مشابہ ہے کہ۔ اسلام خطرے میں ہے۔ ادب اور مذہب ایٹم کی طرح بڑی زور دار قوتیں ہیں، جو انکشاف ہونے سے پہلے بھی ہوتیں ہیں اور ہمیشہ رہتی ہیں۔ اس نے کہا۔ اگر ہم نے دانشور پیدا کرنے بند کر دیے ہیں تو اس بانجھ پن کا اعلاج کیا سرخ تخم ریزی میں ہے؟ حکومت اور ترقی پسند دونوں احساس، کمتری کا شکار ہیں اور غلط فیصلے کر رہے ہیں۔ اس نے کہا ہمارا ملک ماسکو سے مختلف مسائل رکھتا ہے، اس کے اپنے حساب سے حل نکالنا چاہیے، وہ چلاتا رہا کہ ماسکو کی سر خی کو نہ دیکھو، نیا ملک بنا ہے، ابھی دیکھو فرد کا حکومت سے اور ریاست سے کیا تعلق بنتا ہے، پرانے راستے نئے بنیں گے۔ منٹو نے ترقی پسند کی گری سائیکل کو سنبھالا دینے کی کوشش کی، سرخے نے اپنی لال ٹوپی سر پر رکھی۔ اور جب اسے یہ اندازہ ہوگیا کہ منٹو لمبی جراب میں چھپائے ہوئے کاغذ دیکھ چکا ہے تو سرخ چہرے سے کہا۔ الو کاپٹھا۔

اور جب منٹو نے ہندوستان کی آزادی کو کہا کہ یہ ایسی ہی ہے جیسے پرندے کے پر باندھ کر اسے آزاد فضا میں چھوڑ دیا جائے، اس نے جب چچا سام کے نام خط میں چچا یعنی امریکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ آزاد پاکستان آپ کو خیبر پاس کی وجہ سے اور آزاد انڈیا آ پکو روس، کوریا کی وجہ سے چاہیے، دونوں ممالک کا وجود بھی ہو اور دونوں امن میں بھی نہ ہوں، ورنہ آپ کا اسلحہ کون خریدے گا، اگر اس خطے میں امن ہوگیا تو کوریا سے جنگ بندی کے بعد استعمال شدہ اسلحہ کہاں ٹھکانے لگائیں گے؟

امریکی گندم پر پلنے والی قوم کے بارے میں اس وقت منٹو نے پیشن گوئی کر دی تھی کہ۔ ہمیں امریکہ کی گندم کھانے کے لئے معدے امریکی کرنا ہوں گے، آج نصف صدی کے بعد یہ عمل مکمل ہوچکا ہے۔ اور اس وقت اپنے خط بنام چچا سام میں منٹو نے کہا تھا۔ ہم وہ کریں گے جو آپ کہیں گے۔ زمیندار اخبار کا حوالہ دے کر چچا کو مشورہ دیا تھا کہ اسے خرید لیں، جو آپ کہیں گے وہ وہی پرنٹ کرے گا۔ آج ہم do moreکے حکم کے آگے گھٹنے ٹیکے بیٹھے ہیں، آج ہمارے کئی صحافی امریکہ کے payroll پر ہیں۔

وہ معیشت دان تھا، سیاست دان تھا، نجومی تھا، ولی تھا، یا لادین پیغمبر تھا۔ اسی نے مذید کہا تھا ملا کے امریکی قینچی سے کٹے بال، اور امریکی مشینوں سے سئیے پاجامے۔ امریکہ کاروس اور کمیونزم کے خلاف ملا کا ستعمال۔ اس نے چچا سام کو بتایا کے آپ سیاسست کھیلنا خوب جانتے ہیں، آپ نے ناگا ساکا اور ہیرو شیما کو دھوئیں میں بدل دیا، طنزا کہا، چچا سام دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے کتنے ممالک کو دنیا کے نقشے سے مٹنا پڑے گا، لکھتے ہیں میری بھتیجی مجھ سے دنیا کا نقشہ بنوانا چاہتی ہے، میں نے اسے کہا ہے ابھی ٹھہر جاؤ مجھے چچا سام سے پوچھنے دو مستقبل میں دنیا کا نقشہ کیسا ہونے والا ہے۔ آج منٹو کی 100 ویں سالگرہ پر بھی دنیا میں امریکہ امن کے نام پر اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے نام پر آئے دن ایک نہ ایک ہوا کھڑا کر کے مختلف ممالک کو جنگ و جدل میں الجھا ئے ہوئے ہے۔ اس کا اسلحہ بھی بک رہا ہے اور دادا گیری بھی۔

منٹو نے امریکہ اورپاکستان، دونوں ممالک میں معاشی تضاد کو بھی گہرے طنز سے پیش کیا ہے، کہتا ہے یہاں پاکستان میں زندہ انسان بدصورت ہیں، سنا ہے وہاں (امریکہ ) ُمردوں کے بھی نین نقش ٹھیک کر کے، یعنی خوبصورت بنا کر پھر دفنایا جاتا ہے، منٹو لکھتا ہے۔ چچا سام اس دنیا میں جینے کا حق صرف آپ لوگوں کو ہے، ہم تو صرف وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ہم تو نہ جینا جانتے ہیں نہ مرنا۔ امریکہ نے گری سائیکل سے کلف لگی پتلون نکالی اپنی لمبی جرابوں میں چوری چھپائی، اور جب دیکھا کہ منٹو نے دیکھ لیا ہے تو زور سے چلایا۔ الو کا پٹھا۔

سعادت حسن منٹو کی کتاب میں تقسیم ِ ہندوستان کے ہالو کاسٹ میں بے دردی سے جان اور عزت لینے والا قاتل ہے، اس کی کوئی justification نہیں ہوسکتی۔ تقسیم کی خون آلود داستان اور بمبئی چھوڑنے کا دکھ منٹو کی رگوں میں اتر گیا، وہ کر سی پر بیٹھ گیا اور بقول اس کے انڈے دینے لگا جو افسانے بنتے گئے۔ تقسیم کے وقت کے کرب کا اندازہ منٹو کے ان دنوں کے لکھے گئے افسانوں سے لہو کی صورت ٹپکتے قطروں سے ہوتا ہے۔ تقسیم پر بہت شور مچانے کے بعد بالاخر منٹو نے نئے ملک کو ہمت سے ایک حقیقت تسلیم کر لیا۔ نئی جگہ پر 8 سال انتہائی جذباتی، جسمانی اور مالی تنگی کا شکار رہا اور پھر یوں ہوا کہ بس مر گیا۔ ۔ اسی نے کہا تھا نہ ہم جینا جانتے ہیں نہ مرنا، ورنہ کوئی صرف 42 سال کی عمر میں بھی مرتا ہے مگر جتنا بھی جیا فینکس کی وہ آگ جو وہ اپنے سینے میں لے کر آیا تھا اسے بال و پر دے کر ہی گیا۔

۔ منٹو کی قبر سچ کہتی ہے وہ حرفِ مکرر نہیں تھا۔ وہ ایک ہی دفعہ لکھا جانے والا حرف تھا۔ اس کو گزرے نصف صدی ہو گئی، کس نے اس کی جگہ پُر کی؟ ؟

۔ منافقت کا عمر بھر دشمن رہا، لوگوں سے کہتا تھا اگر میری کہانیاں بدصورت ہیں تو یہ معاشرہ بدصورت ہے، اگر آغا حشر کشمیری کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں تو میں وہ کیسے ختم کر دوں، عورت کی چھاتی کو چھاتی ہی کہوں گا مونگ پھلی نہیں۔ اگر میری کہانیاں پڑھنے کے قابل نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ معاشرہ جینے کے قابل نہیں ہے۔ مجھے تو جو نظر آتا ہے وہی لکھتا ہوں۔ مجھے کبھی فخش نگار اور سرخا، کبھی رجعت پسند اور کبھی بہت بڑا ادیب کہا جاتا ہے، ۔ میرا افسردہ دل لرزتا ہے کہ یہ متلون مزاج سرکار خوش ہوایک تمغہ میرے کفن سے ٹانگ دے گی، جو میرے داغ ِ عشق کی بہت بڑی توہین ہوگی۔ اور کہا یہاں جیسے اقبال کے شعروں کوحکومت پوجتی ہے۔ خدا مجھے ایسی دیمک سے محفوظ رکھے، جو قبر میں میری سوکھی ہڈیاں چاٹے گی ۔

منٹو کی قبر پر یہ کتبہ لگا ہے : یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ لوحِ جہاں پر حرفِ مکرر نہیں تھا۔ یہ اصل کتبہ نہیں ہے اس منافق معاشرے کے جھوٹ سے بچنے کے لئے منٹو نے اپنی قبر کا کتبہ بھی خود لکھ رکھا تھا، مگر اسی منافق معاشرے کے خوف سے اس کی بہن نے اصل کتبہ قبر پر نہیں لگانے دیا، اور وہ کچھ یوں تھا۔ اللہ کے نام پر جو بہت مہربان اور رحم کرنے ولا ہے، یہاں سعادت حسن منٹو کہانی کا فن اپنے سینے میں لئے دفن ہے۔ زمین کے بوجھ تلے بھی وہ یہ سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا کہانی کار ہے یا خدا؟ اور خدا نے اپنی لمبی جراب میں اپنے کاغذ چھپائے، مگر جب دیکھا کہ منٹو نے دیکھ لیا ہے تو۔ تمتاتے ہوئے چہرے سے کہا۔ الو کا پٹھا۔

میری تخلیق کے شر سے اپنی تخلیق میں رنگ بھرتا ہے اور پھر اس پر اکڑتا بھی ہے۔ الو کا پٹھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).