مفکرِ نیا پاکستان


ہم پاکستان والوں کی بعض خوبیاں، صلاحیتیں اور اثاثے دوسرے دریافت کرتے ہیں اور ہم ان سے بے خبر ہی رہتے ہیں، جیسے موہن جو دڑو۔ غیروں کی تازہ ترین ”پاکستانی دریافت“ مفکر عمران خان ہیں۔ جی ہاں، یہی اپنے وزیراعظم عمران خان۔ عالمی جریدے فارن پالیسی نے ہمارے وزیراعظم کو ”عالمی مفکرین“ یا ”گلوبل تھنکرز“ کی سالِ رواں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ جب گوروں نے انھیں مفکر مان لیا تو ہم نہ ماننے والے کون، یوں بھی ہمارا نام عثمان ہے، چناں چہ ہم مان لینے اور مان رکھنے میں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ہم اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ہماری کم فہمی ہے کہ ہم عمران خان کو صرف فکرمند سمجھتے تھے، جنھیں ملک اور قوم کی فکر کھائے جارہی ہے، پتا ہی نہیں چلا کب وہ رکھے رکھے فکرمند سے مفکر ہوگئے۔ ہمیں خان صاحب سے گلہ ہے کہ انھوں نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ وہ اچھے بھلے مفکر بھی ہیں، اب اتنی کسرنفسی بھی اچھی نہیں۔ شاید انھوں نے سوچا ہو جب میرے پاس فوادچوہدری اور شیریں مزاری جیسے تھنک ”ٹینک“ اور فیاض الحسن چوہان جیسی لاتعداد تھنک ٹنکیاں ہیں تو مجھے بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ میں بھی مفکر ہوں ِ، لوگ ان ٹینکوں اور ٹنکیوں سے خود قیاس کرلیں گے کہ ان کی قیادت کرنے والا بہت بڑا مفکر اور دانش ور ہوگا۔

خان صاحب کے اپنے مفکر ہونے کو خفیہ رکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے اقوال، افعال اور افکار صحیح طور پر سمجھے نہ جاسکے۔ دراصل ہمارے ہاں مفکر اور دانش ور اسے ہی سمجھا جاتا ہے جس کی بات سمجھ میں نہ آسکے۔ خان صاحب بس اتنا اعلان کردیتے کہ ”میں عمران خان نیازی کرکٹر اور لیڈر ہونے کے بعد اب مفکر بھی ہوگیا ہوں، لہٰذا میری تقریروں، بیانات اور ٹوئٹس کو آئندہ افکار اور اقوال سمجھا جائے۔ “ بس، اس کے بعد خان صاحب کی چھینک، ہچکی اور ڈکار میں سے بھی ہم کوئی بامعنی نکتہ نکال لیتے۔ بڑا ظلم ہوا کہ ہم اس حقیقت سے ناواقف ہونے کے باعث کہ وہ مفکر ہیں ان کے افکارِعالیہ کو افکارِ خالیہ سمجھتے رہے۔

ویسے جب انھوں نے فرمایا تھا کہ جو یوٹرن نہ لے سکے وہ لیڈر نہیں ہوسکتا، تو ہمیں ان کی طرف سے لیڈر کی نئی تعریف وضع ہونے پر ان کے مفکر اور دانش ور ہونے کا شبہہ تو ہوا تھا، لیکن کیوں کہ اس قد کاٹھ اور اکھڑ لہجے کا کوئی مفکر اور دانش ور ہماری نظر سے نہیں گزرا، نہ شاید تاریخ کے صفحوں سے گزرا ہے، اس لیے ہم نے اپنے شک کی خود ہی نفی کرتے ہوئے سوچا ”خان صاحب مفکھڑ تو ہوسکتے ہیں مفکر نہیں۔ “ لفظ مفکھڑ کیوں کہ ہماری ایجاد ہے اس لیے اس کی تعریف بھی ہم ہی کردیں، اس کا مطلب ہوا اکھڑ لہجے میں مفروضوں پر بات کرنے والا۔

اب ہمیں احساس ہورہا ہے کہ ہم نے خان صاحب کو ہلکا لیا، ان کی پیش کردہ یہ تعریف ہی انھیں مفکر، دانش ور اور فلسفی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس تعریف نے عوام کی یہ مشکل آسان کردی ہے کہ ”اب کسے راہ نما کرے کوئی“، اور جو لو گ ”چلتا تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ۔ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں“ کی مشکل کا شکار تھے، خان صاحب نے انھیں راہ نما کی پہچان کروادی ہے۔ اب بس کسی کے ساتھ تھوڑی دور چلنا ہوگا، اگر وہ سیدھے راستے پر چلتا رہے تو ”تُو چل میں آیا“ کہہ کر کھسک لیے، اور کچھ دور کے سفر کے بعد وہ اچانک مُڑ جائے تو سمجھ لیا جائے کہ۔ ہے یہی میرے زمانے کا امامِ برحق۔ جو اچانک مجھے مُڑجانے کو تیار کرے۔

جہاں تک ہماری معلومات ہیں پاکستان میں اب تک تسلیم شدہ صرف مفکر علامہ اقبال ہیں، جنہیں مفکرپاکستان کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اتنا تفکر کیا کہ ان کے بعد قوم کو دوسرا مفکر پیدا کرنے کی فکر ہی میں نہیں رہی۔ کلام اقبال سے ہمیں اتنی فکر میسر آگئی جو ہمارے سیاست دانوں، حکم رانوں، علماء اور مضمون نگاروں کی آئندہ سو نسلوں کے لیے بھی کافی ہے۔ اس فکر کی زنبیل سے اسلامی نظام بھی نکل آتا ہے، سُرخ انقلاب بھی، جمہوریت بھی اور ردِجمہورت کا تصور بھی، یوں سمجھ لیں کہ کلام اقبال سے فال کے سوا سب کچھ نکالا جارہا ہے۔ اس صورت حال میں خان صاحب کا بہ طور مفکر سامنے آنا گویا ”آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہُوا“، اچھا ہوا کہ اسے جلد پہچان لیا گیا ورنہ یہ آفتاب تازہ پڑے پڑے باسی ہوجاتا۔

عمران خان کا بہ طور مفکر ظہور کوئی حیرت انگیز واقعہ نہیں (البتہ ”مضحکہ خیز ضرور ہے“۔ یہ کس نے کہا، خاموش بدتمیز) علامہ اقبال مفکر پاکستان تھے، اور یہ ہے نیا پاکستان سو عمران خان مفکر نیا پاکستان قرار پائے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ جب وہ یہ اعزاز پاہی چکے ہیں تو اسے پوری طرح نبھایا بھی جائے۔ علامہ اقبال کی خالص مفکرانہ تصویر وہ ہے جس میں شاعرمشرق سر مُٹھی پر دَھرے کسی سوچ میں مستغرق ہیں۔ مفکر نیا پاکستان جناب عمران خان کی کم ازکم ایک ایسی تصویر ہونی چاہیے جو انھیں مفکر ظاہر کرے، مثال کے طور پر اس تصویر میں وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیٹھے ہوں، ایک ہاتھ ماتھے پر رکھا ہو یا دونوں ہاتھوں سے بال نوچ رہے ہوں۔

ان میں سے کوئی بھی انداز بتائے گا کہ وہ کس قدر زور کی فکر میں مبتلا مفکر ہیں۔ یہ بھی لازمی ہے کہ خان صاحب کی کتابیں سامنے آئیں۔ اگرچہ خودنوشت سمیت ان کی چھے کتابیں شایع ہوچکی ہیں، لیکن خان صاحب کی سیاست کی طرح ان کی تصانیف بھی دوسروں پر منحصر ہیں۔ ان کی ایک کتاب Indus Journey: A Personal View of Pakistan کے ناشر Jeremy Lewis اپنی یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے جب ان سے کہا کہ جناب! اشاعت کے لیے اپنی تحریر عطا کیجیے، تو جو تحریری مواد اس نے پایا وہ بس پانچ منٹ میں پڑھ ڈالا، چناں چہ اس کتاب کے لیے باقی کا ”انتظام“ ناشر کو خود کرنا پڑا۔

خیر یہ ماضی کی بات تھی، اب وہ مفکر ہیں تو انھیں کتابوں کی فکر کرنی ہوگی۔ انھیں کرنا کچھ نہیں ِ، بس اپنی تقاریر، انٹرویوز، ٹوئٹس کو الگ الگ جمع کرکے کتابوں کی صورت میں شایع کروادیں۔ ان کتابوں کے نام مفکرپاکستان اول علامہ علامہ اقبال کی تصانیف کی طرح مفکرانہ ہونے چاہییں، جیسے ”بانگِ ڈرا“۔ یہ کتاب دھمکیوں سے بھرے افکار پر مبنی ہوگی، ”جاویداقبال نامہ“۔ علامہ اقبال نے اپنے فرزند جاویداقبال سے کتاب منسوب کی تھی، مفکر نیا پاکستان اپنی تصنیف چیئرمین نیب سے موسوم کردیں، ”بال عزرائیل“۔

یہ کتاب عام آدمی کے لیے مصنف کے افکار پر مبنی ہوگی، ”فرارِخودی“۔ یہ خان صاحب کے معاشی تفکرات کا مجموعہ ہوگا، ”ارمغان نواز“۔ نواز شریف کے بارے میں خان صاحب کے خیالات، بیانات اور الزامات اس کتاب میں یک جا کیے جائیں، ”قرضِ عظیم“۔ ان قرضوں کی بابت نکات جو عظیم لوگ، عظیم مقاصد کی خاطر اور ملک وقوم کو عظمت دینے کے لیے لیتے ہیں۔

اس سب سے پہلے سرکاری اداروں اور میڈیا کو ہدایت جاری کردی جائے کہ وہ وزیراعظم کا کوئی بھی جملہ، تقریر، ٹوئٹ۔ خالی خولی ”وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے“ کے گستاخانہ الفاظ میں نہ دُہرائیں بلکہ یوں کہیں ”مفکر نیا پاکستان جناب عمران خان نے فرمایا ہے اوئے! چوروں اور ڈاکوؤں۔ “

ہمیں یقین ہے کہ ہماری تجاویز جو ہم نے بڑی فکر کرنے کے بعد مرتب کی ہیں مفکرِ نیا پاکستان کو پسند آئیں گی اور جلد عمل کی صورت پائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).