ہمارے ملک میں عدم برداشت کیوں بڑھ رہی ہے؟


معاشرہ کئی اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان اکائیوں کے باہم مربوط اور منظم رہنے سے ہی معاشرے کی بقا اور فروغ ممکن ہے۔ ان اکائیوں میں سب سے اہم اکائی اتحاد ہے اور اتحاد کے لیے سب سے اہم ضرورت ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کرنا ہے۔ یہ برداشت ہی قوموں کو مہذب بناتی ہے۔ جس معاشرے میں برداشت کی روایت دم توڑنے لگے وہاں فسادات پھوٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ فسادات امن و امان کی مخدوش صورتحال کو جنم دیتے ہیں جو ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

بدقسمتی سے دنیا میں بالعموم اور ہمارے ہاں بالخصوص عدم برداشت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کی زبان سے کوئی اختلافی جملہ سننے تک کو تیار نہیں ہے۔ ہم خود فریبی اور خود ستائشی کی تمام حدوں کو پار کر چکے ہیں۔ کوئی انسان اگر ہم سے اختلاف کی جرآت کر بیٹھتا ہے تو ہم اس کو برداشت کرنا تو دور، مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنا قبلہ درست لگتا ہے، باقی ساری دنیا ہمارے نزدیک جاہل ہے۔ یہ عدم برداشت آج ہمیں اس نہج پہ لے آئی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے اختلافات پر خون بہنے لگا ہے۔

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں

لوگ چن دیتے ہیں معمار کو دیوار کے بیچ

عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی کہ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر ایسی ہیجانیت پھیلائی جاتی ہے کہ ہمارے عوام بغیر کچھ سوچے سمجھے قانون ہاتھ میں لے کر قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال سلمان تاثیر اور مشال خان کا قتل اور ایسے کئی واقعات ہیں۔ چند لوگوں نے محض اپنے ذاتی عناد کی بنا پر مشال خان پر گستاخی کا الزام لگایا اور عوام کو اس کے خلاف بھڑکایا۔ لوگوں نے بغیر تحقیق کیے اس الزام کو سچ مان لیا اور ایک مشتعل گروہ نے مشال خان کا بہیمانہ قتل کردیا۔

مشال خان تری انگلیاں نہیں ٹوٹیں

ہماری ماؤں کے ہونٹوں کا لمس ٹوٹا ہے

یہ عدم برداشت ایسے بیسیوں واقعات کو جنم دے رہی ہے کبھی گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں تو کبھی محض چائے میں پتی زیادہ ہونے پر مالکن کے دس سال کی ملازمہ بچی پر تشدد کے واقعات خبروں کی زینت بنتے ہیں۔ گویا ایک طوفان بدتمیزی ہے جو معاشرے میں ہر طرف برپا ہے۔ عدم برداشت اور متشدد طرز عمل کے فروغ کی بدترین مثال لاہور میں سامنے آنے والا ایک واقعہ بھی ہے جس میں کپڑا چوری کرنے کے الزام میں نہ صرف دو خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بننا پڑا بلکہ قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ اس واقعہ کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں ملزم بے بس اور مجبور خواتین پر ڈنڈوں گھونسوں اور تھپڑوں کا آزادانہ استعمال کرتا دکھائی دے رہے ہیں۔ عورتوں پر سرعام اتنا بہیمانہ تشدد ہمارے معاشرے کے ماتھے پر ایسا کلنک ہے جو کبھی مٹ نہیں سکے گا۔

باضمیر اور ذمہ دار معا شروں اور حکومتوں کے لیے ایسی صوتحال لمحہ فکریہ اور المیہ ہوتا ہے۔ آج کا الیکٹرانک میڈیا جو پاکستان کے دو تین طاقتور ترین اداروں میں شمار ہوتا ہے، اس کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ یہ اییک تلخ حقیقت ہے کہ جرائم اور درندگی کے واقعات کو اس انداز میں عوام کے سامنے لانے کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی سنگین واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو ہمارے حکومتی افراد اور میڈیا اپنے اپنے نمبر بنانے کے لئے کیمروں کی چکا چوند میں مظلوم کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور پھر میڈیا دو تین دن کے لئے، ہر بلیٹن میں اُس واقعے کو اتنا اُچھالتا ہے کہ لوگ تنگ آجاتے ہیں اس پر مستزاد ہمارے چینلوں پر سرشام بیٹھکیں اور مجالس و محافل سجانے والے ہوتے ہیں جو اس قسم کے واقعات پر سیاسی سکورنگ کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لوگوں کے جی کو ستانے آجاتے ہیں۔ یہ حکومت اور میڈیا کا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے کہ اس قسم کے واقعات کواچھالانہ جائے کیونکہ اس سے نوجوانوں اور بالخصوص خواتین پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

میری رائے میں عدم برداشت کی سب سے اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اور نصاب نئی نسل کی اُس انداز میں ذہنی آبیاری کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی پاکستان جیسے ملک کو خصوصی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں نصاب سازی اور اساتذہ کی تعلیم و تربیت ملک کے سٹیٹ مشن کے مطابق نہیں ہوتی اس لئے ایک ایسی نوجوان نسل وجود میں آئی ہے جو عالمی تہذیب و ثقافت کے سامنے اپنی تہذیب و ثقافت پر پختہ ایمان و یقین کے بغیر ایکسپوز ہے۔ ذرائع مواصلات (کمیونیکیشن ) کے ذریعے ہم عدم برداشت کو ہوا دے رہے ہیں۔ بقول شاعر

اب زندگی سے معرفت نیک و بدگئی

لا علمیوں کی پوٹ مہد تا لحد گئی

تیسری بڑی وجہ تعلیم کے فقدان، غربت، سماجی و معاشرتی و سیاسی حالات کے نتیجے میں پیدا شدہ لالچ ہے۔ سرمایہ پرستی اور حب زر نے ہماری اسلامی اقدار، صبر قناعت، اللہ تعالیٰ پر خیر الراز قین ہونے کا عین الیقین وغیرہ کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے دولت اور چند پیسوں کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والا ہر رشتہ ہمیں قبول نہیں۔

چوتھی بڑی وجہ عالمی حالات ہیں۔ جنگوں، لڑائیوں اور خانہ جنگیوں نے مسلمان ملکوں اور معاشروں کو بدترین انتشار کا شکار بنا کر عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، عراق، شام، یمن اور افغانستان و لیبیا میں بچوں اور خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس نے لوگوں کے صبر کی قوت کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور متاثرہ لوگ سخت ردعمل کے شکار ہورہے ہیں۔

یہ تمام اسباب مل کے عدم برداشت کی ایک ایسی فضا پیدا کرچکے ہیں کہ معاشرتی زندگی بربادی کا شکار ہو چکی ہے۔ مسلمان دنیا جس کو امن و سلامتی کا گہوارا ہونا تھا آج سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے اور ہم پر متشدد ہونے کا ٹھپہ لگ چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عدم برداشت کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو لگام دی جائے۔ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو آخرکار معاشرے کی بربادی پر ختم ہوگا اور ہماری تمام تر معاشرتی اقدار کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ حکومت وقت میڈیا اور تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عدم برداشت کے بڑھتے رجحان کا خاتمہ کرنے کے لیے عوام الناس میں آگاہی پھیلائی جائے۔ تعلیمی نصاب کو اس طرح مرتب کیا جائے کہ بچوں کی عدم برداشت کے حوالے سے تربیت ہو سکے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں اپنے تمام تر وسائل بھی اگر بروئے کار لانے پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے کیونکہ ہماری آنے والی تمام تر نسلوں کا دارومدار اور ہماری بقا عدم برداشت کے خاتمے کے ساتھ مشروط ہے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہمیں اٹھ کھڑے ہونا ہوگا اور معاشرے کے اس ناسور کا خاتمہ کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).