مہنگائی: بھول گئے بیچارے لوگ، خوشی اور خرید


مہنگی صرف چیزیں نہیں ہوتیں، ان کے ساتھ سب کچھ مہنگا ہو جاتا ہے رشتے، ناتے، پیار اور ہنسی بھی۔ مہنگائی کی بیزاری سب کچھ ختم کر ڈالا۔ (ہندی فلم: سارے جہاں سے مہنگا)

پی ٹی آئی حکومت نے منی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ جس میں مہنگے موبائل فون، گاڑیوں پر ٹیکس لگا کر سرمایہ داروں کو انگلی کاٹ کر شہید ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بجٹ میں گردشی قرضے سے نمٹنے کا کوئی ذکر نہیں، جس نے عوام اور اداروں کو سر کے چکر دے دیے ہیں، اور نا ہی بجٹ میں دوائیں، استعمال کی ساری اشیاء بشمول تیل، گیس کی قیمتیں کم کرنے کا اشارہ ہے۔ جس کو ان جھوٹے تبدیلی پسند حکمرانوں نے کچھ عرصہ پہلے عوام دشمن پالیسیوں پر عمل کر کے مہنگا کر دیا تھا۔ اس لیے اعداد و شمار کا کھیل، جس کو ہمارے حکمران بجٹ کہتے ہیں ہمارہ موضوع بحث نہیں۔ ہمارہ موضوع وہ مہنگائی ہے، جس کو اس بجٹ میں چھوا بھی نہیں گیا۔

ایک طرف بے دخلیاں، نجکاری، ڈاؤن سائیزنگ کے باعث عام لوگوں کی بڑی تعداد پیداواری عمل سے باہر نکل گئی ہے، دوسری طرف آئے روز بڑھتی ہوئی بیروزگاروں کی فوج اور غیر منظم یا کمزور کسان مزاحمت کی وجہ سے اجرتیں بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں لوگوں کی قوت خرید (Purchasing Power) منفی طور پر متاثر ہوئی ہے۔

حالانکہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رہیں، مگر نام نہاد تبدیلی پسندوں نے گذشتہ برس اکتوبر میں قیمتیں بڑھا کر چار برس میں ریکارڈ مہنگائی ( 7 فیصد شرح) کر ڈالی۔ مثال کے طور پر جاری معاشی سال (Fiscal Year) جی آدھے عرصے تک گیس 42.66 ٪، سفری سہولیات 78۔ 15، پیٹرل 41۔ 26، واٹر سپلائی 05۔ 12، گوشت 65۔ 11 فیصد اور تعمیرات 71۔ 12 فیصد تک مہنگے ہوگئے۔ ابھی دوائیں کی قیمتیں 15 فیصد بڑھنے سے زندگی مہنگی اور مرنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔

مہنگائی خاص وقت میں پیسے کی فی یونٹ قوت خرید یا ملک میں اشیا اور سروسز کی عمومی قیمتیں بڑھنے کا عمل ہے۔ پیسے کی قوت خرید کا معاملہ معیشت کے فنی اصطلاحوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ مگر عوام کی قوت خرید کے کمزور ہونے کا سیاسی سبب چوری اور اس سے بھی بڑا سبب چوروں کا چوکیدار بننا ہے۔ پردھوں نے کہا تھا کہ ”ہر قسم کی ملکیت چوری ہے“ تو وہ ملکیت والے چور یا چوکیدار اس سارے ملکیتی معاشی نظام کی ساختیاتی برائیوں کو چھپانے کے لیے چوری کو کچھ لوگوں سے جوڑتے ہوئے آپس میں چور، پولیس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پولیس حزب اقتدار اور چور حزب اختلاف ہوتے ہیں۔ ملک کی آمدن پر طاقتور اداروں کے شب خون پر وہ دونوں (پولیس، چور) کچھ بھی نہیں کہتے۔ جنہوں نے بم والی جنگی سیاست عوام پر نافذ کی ہے۔

اس طبقاتی سماج میں معیشت کو اپنے بل کھڑا کرنا اور مہنگائی کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دفاعی بجٹ کی کٹوتی کی جائے۔ کالے خزانے یا چھپی ہوئی معیشت کو روکا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکیتی طبقوں پر بڑے ٹیکس لگائے جائیں۔ ویسے تو ملک کے دفاعی اداروں کے معاشی مفادات کے خلاف ہر قسم کی بات غداری کا عمل بن گیا ہے۔ چاہے وہ بات پنجابی (نواز شریف) ہی کیوں نہ کہے۔

بلیک منی کو کیسے روکا جائے گا، جب ملک کی عدالت عظمی کے بڑے منصف (سابق چیف جسٹس ثاقب نثار) اپنے خیالی ڈیم کے لیے ملک ریاض سے کرپشن کے بدلے پیسے مانگ رہا ہے۔ اس طرح سیٹھوں پر ٹیکس کے حوالے سے سچ یہ ہے کہ سیاسی سمجھ کی ابجد سے ناواقف لوگ یہ امید کر سکتا ہے کہ وہ طبقہ بنا کسی شدید عوامی دباؤ کے اپنے بلیک منی کو روکے گا اور اپنے خلاف قانونسازی کر کرکے اپنے آپ پر ٹیکس لگائے گا۔

ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی ویسے ہی غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھی، اوپر سے راتوں رات کی گئی مہنگائی نے مڈل لوئر کلاس کی بچت کا قدر گرا کر ان لوگوں کو بھی اس لکیر کے قریب لا کر کھڑا کردیا ہے۔ 2018 میں روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی سے لوگوں کے اثاثے سکڑنے لگے تھے۔

ہمارے یہاں اگر کوئی دس رپیے بھی چوری کرے گا تو ہم بڑے ہجوم کی صورت میں اس کو پکڑ کر خاصی مار پٹائی کرتے ہیں۔ مگر ان چوروں، لٹیروں حکمرانوں کا کیا؟ جو اپنے آفس میں بیٹھے ہمارے پیسے لوٹ رہے ہیں؟ جو لٹا ہوا دھن دولت غیر ملکی بینکوں میں رکھواتے ہیں اور ملک کے بچے بچے کو دو۔ دو لاکھ کا مقروض بنا دیتے ہیں؟ مجھے وہ طنزیہ وڈیو یاد آ رہی ہے، جس میں مہنگائی سے تنگ آ کر جب کوئی عام آدمی خودکشی کی کوشش کرتا ہے تو عالمی مالی اداروں کے بڑے لوگ اس کو مرنے بھی نہیں دیتے، کیونکہ حکومت ان عوام کے سر گن کر قرضے لیے ہے۔

اس لیے ان حکمرانوں کا کیا ہوا ہم بھگت رہے ہیں، ہمارے وسائل گروی تو ہم اپنے اور بچوں کے ساتھ مقروض اور گروی ہو گئے ہیں۔ اس ساری لوٹ مار کی آخری قیمت جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد بڑھا کر عوام سے ادا کروائی گئی۔ عام آدمی جس کو ان ڈرائریکٹ ٹیکسز کے نتیجے میں تعلیم میسر ہے نہ رہائش اور روزگار کے نئے مواقع۔ اس حالت میں عام استعمال کی اشیا کی قیمتیوں میں تھوڑا سا بڑھاؤ بھی بڑی آبادی کی کمر توڑ دیتا ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کا وفاقی سیکریٹری جنرل، اختر حسین ایڈووکیٹ کیوبا یاترا کا ذکر کرتے کہتا ہے کہ ”اس نے جب مقامی گائیڈ سے تنخواہ معلوم کی تو جواب میں گائیڈ نے قلیل رقم بتائی۔ پھر اختر حسین نے حیرت میں پوچھا کہ اس کم رقم سے آپ کا گذارا کیسے ہوتا ہے؟ گائیڈ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ سرمایہ دار ممالک سے آنے والوں کو ہماری معیشت شاید سمجھ میں نہ آئے، پمارے روزگار، رہائش، تعلیم، صحت اور سفر کے ساتھ سارے اہم معاملات ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان ساری سہولتوں کی بدولت کم تنخوا میں کام کرتے ہیں۔ یہ رقم جو آپ کو کم لگ رہی ہے، وہ ہماری بچت ہے، جس کو ہم لوگ نئے مقامات، دوسرے ممالک کا سیر کرنے کے لیے کام لاتے ہیں۔“

سرمایہ دارانہ نظام اس مہنگائی سے لڑنے کے لیے یہ بتاتا ہے کہ صرف اپنے لیے کرو۔ دوسرے لوگوں کے حقوق اور لاشوں پر جتنا پیسا اکٹھا کرنا ہے تو کرو۔ مگر سچ یہ ہے کہ مہنگے یا سستے پن کا حساب پیسے صرف پیسے بڑھنے یا کم ہونے سے نہیں ہوتا۔ جب ملک پسماندہ اور غریب ترین ہوجا تا ہے تو لوگ نوٹوں کی بوری دے کر بھی ایک نوالا حاصل نہیں کر سکتے۔ زمبابوے سے افغانستان تک دنیا کی معاشی تاریخ اس قسم کی کئی مثالیں دے رہی ہے۔

ایک ایسا سماج جہاں شہریوں کی تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کے ٹھیکے نجی اداروں کو حاصل ہو، وہاں اجرتوں کا بڑھنا اور عام اشیا کی قیمتوں میں کمی بھی لوگوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ تو مہنگائی کے خلاف لڑائی اپنے کام والے مقام (Work place) اور رہائشی علاقوں میں معاشی لڑائی کے ساتھ ایک سیاسی لڑائی بھی ہے۔

جیسے شیخ ایاز نے کہا ہے کہ:

جگا اس سماج کو

لرزہ سامراج کو

بنا کوئی نیا نظام

جسے کہے اچھا عوام

یہ نظام ہے خراب

انقلاب انقلاب۔ !

اس لیے سیاست کرو، جس سے تاریخی، عوامی حاصلات کو بچایا جا سکے اور کچھ نیا حاصل کر سکیں۔ اپنے آس پاس کسی نہ کسی عوامی، قومی اور جمہوری سیاست کا حصہ بنیں۔ ایسا کر کے کسی دوسرے پر نہیں بلکہ آپ اور اپنے بچوں پر احسان کریں۔ اگر نہیں تو پھر یہ حکمران لوگ روٹی، نمک اور گیھ کی قیمتوں تک اپنی سیاست جاری رکھیں گے۔ ساحر لدھیانوی تو بول گیا ہے کہ:

زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے

اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے

اگر نہیں تو ایک کہاوت بھی یاد رکھنے جیسی ہے کہ ”گرے ہوئے پیڑ پر تو کچھوا بھی چڑھ جا تا ہے“۔

مترجم: رحمت تنیو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).