انصاف نہیں ہو سکتا


سانحہ ساہیوال میں کی گئی اب تک کی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ جو لوگ قانون پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہی ان کو تحفظ دے گا یہی لوگ چوکوں اور چوراہوں میں بے دردی سے مار دیے جاتے ہیں اور جو لوگ قانون سے ماوراء ہو کر جینے کا گر سیکھ جاتے ہیں یہی لوگ معاشرے میں ”عزت دار“ اور معتبر قرار پاتے ہیں۔

سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی تحقیق کا آغاز جائے وقوعہ پر سیلفیاں لے کر کیا تھا اور اب ”سیلف ڈیفنس“ پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے متاثرین اب بھی قانون کی طاقت پر اعتماد کرتے ہوئے جینے کی آرزو لئے بیٹھے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ قانون کے رکھوالے انہیں لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر انصاف کی آسان فراہمی کے لئے کروا رہے ہیں۔

مقتولین کے ورثاء کے عمل سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ گلے سڑے نظام میں اب بھی ایک معزز اور شریف شہری کے طور پر جینا چاہتے ہیں لیکن قانون کی بے رحمی دیکھئے کہ پہلے معصوم بچوں کے والدین اور بڑی بہن کو معاشرے کے تحفظ کے نام پر چوک میں قتل کر دیا گیا اور اب یہی قانون بچ جانے والے لواحقین کو خوفزدہ کر رہا ہے کہ اگر کیس کی پیروی سے باز نہ آئے تو تمہارا حال مرنے والوں سے بھی زیادہ بھیانک ہو گا۔ جے آئی ٹی قانون کی عملداری کے لئے جائے وقوعہ کے قریبی تھانہ یوسف والا میں انصاف کی ”چھابڑی“ لگا کر بیٹھی ہوئی ہے اور انتظار کر رہی ہے کہ قانون پر اندھا اعتماد کرنے والے عینی شاہدین آئیں گے اور جے آئی ٹی کے روبرو تمام واقعہ بیان کر کے سرکاری غنڈوں کی سزائے موت کا راستہ ہموار کر دیں گے۔

لوگوں کو ڈر ہے کہ جے آئی ٹی اور حکومت اس انتظار میں ہیں کہ عینی شاہدین آئیں اور بیان دیں تاکہ بیان ریکارڈ کر کے فوری طور پر کاپی وزیر اعظم یا وزیر اعلٰی کو بھجوانے کی بجائے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو بجھوا دی جائے اور وہ اس رپورٹ کے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے پہلے ہی عینی شاہدین کو نشان عبرت بنا دیں اور ریکارڈ شدہ بیانات کی فائل کا بھی ساتھ ہی گلاگھونٹ دیا جائے۔

ہمارے ہاں قانون اس قدر کم ظرف اور کمینہ ہو چکا ہے کہ قاتل کو کٹہرے میں لانے کی بجائے مقتول کے ورثاء کو بھی تختہ دار پر لے جانے کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے جو سرکاری اہلکار مقتولین کے ورثاء اور وکیل کو سبق سکھانے اور پیروی سے ہٹ جانے کے لئے دھمکیاں دے رہے ہیں وہ سرکاری درندے عینی شاہدین کو کیا عزت اور احترام سے عدالتوں میں جا کر گواہی دینے دیں گے۔ ہمارے ہاں تو کوئی شہری بس کی ٹکر یا گولی لگنے سے تڑپ رہا ہو تو باقی لوگ نہ اسے ہسپتال لے جانے کے لئے اٹھاتے ہیں اور نہ ہی قاتل کے خلاف گواہی دینے کے لئے عدالت جاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے قاتل مقتول کے ورثاء کو چھوڑ کر عینی شاہدین کے صفایا پر لگ جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جے آئی ٹی کے روبرو ابھی تک صرف دو ایک شہری بیان دینے کے لئے پہنچے ہیں جبکہ ویڈیو میں دکھایا جانے والا ہجوم تماشا دیکھ کر روپوش ہو چکا ہے۔ عینی شاہدین کو علم ہے کہ مرنے والے تو قانون کے ظلم کا شکار ہو رہی چکے ہیں اب باقی لوگوں کو ازخود مقتل جانے کی کیا ضرورت ہے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ چاروں مقتولین کو قریب سے سر میں گولیاں ماری گئیں اور معصوم بچی منیبہ کے ہاتھ کے آر پار سوراخ بھی گولی نے ہی کیا۔

اگر انصاف کرنا ہو تو ویڈیوز اور پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی کافی ہے لیکن مقصد انصاف کرنا نہیں بلکہ انصاف کو قتل کرنا ہے اس لئے جے آئی ٹی اور سی ٹی ڈی مل کر انصاف کے سر میں گولیاں مارنے کے لئے نشانے لے رہے ہیں۔ 4 بے گناہوں کو چوک میں سر میں گولیاں مار دی گئیں اور اب انصاف فراہم نہ کرنا ایسا ہی جیسے انصاف کو بھی چوک پر کھڑا کر کے گولی ماری جا رہی ہو۔

مقتول خلیل کا بھائی جلیل پکار رہا ہے کہ ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور مقتولین کا وکیل شہباز بخاری نے دھمکیوں بھری وہ آڈیو ٹیپ ہی پریس کانفرنس میں سنا دی ہے جس میں انہیں مقدمے کی پیروی سے روکا جا رہا ہے۔ جے آئی ٹی کی اب تک کی کوشش اور سی ٹی ڈی کی اب تک کی کارروائی بتا رہی ہے کہ مقتولین کا معاملہ اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

اکیسویں صدی کا انوکھا وزیراعلٰی سرکاری غنڈوں کے خلاف ایکشن لینے کے لئے ایک ایسی جے آئی ٹی رپورٹ کا انتظار کر رہا ہے جو میرے تاثر کے مطابق ملزمان کے خلاف شکنجہ کسنے کی بجائے انہیں بچانے کے راستے دھونڈ رہی ہے۔ انصاف کی فراہمی کی موجودہ کاوشوں کو دیکھ کر یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ مقتولین کو صرف اللہ ہی انصاف دے گا اور بے شک اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اللہ کے قانون کے سامنے دنیا کے قانون کی پکڑ دھکڑ کوئی وزن نہیں رکھتی۔

عینی شاہدین کو ”اڑتا تیر“ پکڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے اور متاثرین کو ڈرا دیا گیا ہے جبکہ وکیل شہباز کو بھی انصاف کے لئے پرواز سے روکنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے لہٰذا اس ماحول میں دنیا کا قانون اور عدالتیں انصاف نہیں کر سکیں گے۔ لواحقین کو یہ معاملہ اللہ پر ہی چھوڑنا ہو گا وگرنہ قانون کی اندھی گولیاں ان کے جسموں میں بھی سوراخ کر دیں گے۔ اس لئے معاملہ اللہ پر چھوڑیں اور پھر دیکھیں اللہ کیا کرتا ہے!

سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ رحمن ملک نے جے آئی ٹی کو مسترد کرکے اچھا اقدام کیا لیکن جوڈیشنل کمیشن کا قیام بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بہترہوتا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی یہ فیصلہ کردیں کہ انصاف دینا ہے یا نہیں؟ اب تک کی کارروائی بتا رہی ہے کہ انصاف نہیں ہوسکتا۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat