گلگت بلتستان میں صحت اصلاحات اور ڈاکٹروں کا رویہ


گلگت بلتستان مملکت پاکستان کا سب سے چھوٹا انتظامی یونٹ ہے جس میں استعداد کار، تجربات، اور بجٹ کی کمی کا مسئلہ گزشتہ صدی سے چلا آرہا ہے، اب سے چند برس قبل تک پورے گلگت بلتستان کا بجٹ ایک ارب بھی نہیں تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے قابل ذکر حد تک پہنچادیا گیا ہے اور ہر آنے والی حکومت اپنا حصہ ڈالتی چلی گئی۔ یوں یہ اب بجٹ اب 17 ارب کے آس پاس آگیا ہے لیکن ملک کے دیگر تمام علاقوں سے یہ بجٹ اب بھی بہت کم ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا اپنا بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے سارا انحصار وفاقی حکومت پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کو امدادی اقدامات کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔

صحت کا شعبہ بلاواسطہ انسانی جانوں کے ساتھ منسلک ہے، جس میں ذرا سی دیر اور ذرا سی لاپرواہی بھی انسانی جان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ گلگت بلتستان گزشتہ چند سالوں سے امراض قلب کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہوگیا تھا، گلگت بلتستان میں امراض قلب کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، ایک اندازے کے مطابق سالانہ 15 ہزار امراض قلب کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے، جبکہ گلگت بلتستان کے مریضوں کو امراض قلب کا علاج اور دیگر سہولیات کم و بیش ایک ہزار کلومیٹر دور میسر تھی جو کہ صاحب استطاعت افراد کے لئے بھی کافی بھاری اور مہنگاثابت ہوتا تھا ایسے میں غریب مریضوں کا پوچھے تو کون؟

تنگدستی گر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے

گلگت بلتستان صوبائی حکومت نے دیگر شعبوں کی نسبت صحت کے شعبے میں نمایاں کامیابی سمیٹی ہیں، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے شہباز شریف کی تقلید کرتے ہوئے صحت کا قلمدان بھی اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے، وزیراعلیٰ کے بقول آج سے تین سال قبل گلگت بلتستان میں کل 198 ڈاکٹر تھے جبکہ گلگت بلتستان کوٹے پر تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹرز بھی واپس گلگت بلتستان آنے کو تیار نہیں ہوتے تھے جس پر ڈاکٹروں کو خصوصی مراعات دے کر جی بی واپس آنے پر رضامند کرایا ہے اور اب ڈاکٹروں کی تعداد 540 ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایک ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہونا لازمی ہے یوں گلگت بلتستان میں تقریباً تین ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر مقرر ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 5 ہزار سے 8 ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر مقرر ہے، گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کے یہ اعداد و شمار گو کہ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت بہتر ضرور ہے مگر ناکافی ہیں کیونکہ گلگت بلتستان وسیع رقبے کا علاقہ ہے۔ صوبائی حکومت نے صحت کے بجٹ میں 10 گنا اضافہ کرکے 50 کروڑ کردیا ہے، پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد میں بھی تین گنا اضافہ کرکے 2400 کردیا ہے، جبکہ تقریباً تمام ہسپتالوں کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے، شہید سیف الرحمن ہسپتال ایک نیا اضافہ ہے۔

گلگت بلتستان صحت حفاظت کارڈز متعارف کرانے کے معاملے میں دیگر صوبوں سے بازی لے گیا ہے اور گزشتہ تین سالوں سے صحت حفاظت کارڈز کے ذریعے لوگوں کو آسان اور مفت علاج معالجہ فراہم کیا جارہا ہے، جس پر ابھی تک دو ارب لاگت آچکی ہے۔ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے گلگت بلتستان انشورنس ایکٹ لانے کا اعلان کردیا۔

سابقہ ن لیگی پنجاب حکومت کی جانب صحت کے شعبے گلگت بلتستان کے ساتھ بھرپور تعاون رہا، جس نے 32 کروڑ روپے صرف گلگت بلتستان کے مریضوں کے علاج کی مد میں مختلف ہسپتالوں کو دیے ہیں جبکہ ایک ارب کی لاگت سے امدادی سامان بھی گلگت بلتستان کو دے دیے ہیں جن میں بائیومیڈیکل مشینیں، ڈیجیٹل ایکسرے جن کی مالیت 4 کروڑ 73 لاکھ 28 ہزار ہے، 500 MA ایکسرے مشینیں بمعہ یو پی ایس ایک اپ فراہم کردئے گئے جن کی مالیت 4 کروڑ 30 لاکھ 57 ہزار 440 ہے، خودکار کیمسٹری انالائزر ز، جوکہ کل 4 کروڑ 52 لاکھ، 88 ہزار سے زائد لاگت کے ہیں، ڈینٹل یونٹس، جن کی مالیت 4 کروڑ 78 لاکھ سے زائد ہے، ہیماٹالوجی (خون سے متعلق اعضاء) انالائزر، جن کی کل مالیت 40 لاکھ سے زائد بنتی ہے، بائیوکیمسٹری انالائزر، جن کی کل مالیت 15 لاکھ سے زائد ہے، سی آرم امیج انٹینسیفائر جن کی کل مالیت 1 کروڑ 68 لاکھ سے زائد بنتی ہے، کارڈیاک مانیٹرز جن کی کل مالیت 1 کروڑ 5 لاکھ کے قریب بنتی ہے، کارڈیاک بیڈجن کی کل مالیت 1 کروڑ 55 لاکھ سے زائد بنتی ہیں۔

مذکورہ تمام مشینری اس وقت جی بی کے مختلف ہسپتالوں میں نصب کردی گئی ہیں جو اس سے قبل صوبائی سطح پر بھی ناپید تھے۔ جبکہ ہائی روف ایمبولنس، 2 کروڑ 26 لاکھ سے زائد مالیت کے ڈائلاسز مشینیں، 1 کروڑ 68 لاکھ سے زائد مالیت کے ELISAمشینیں، اور 1 کروڑ 22 لاکھ سے او پی جی ایکسرے یونٹ سابقہ پنجاب حکومت کے پالیسی کے مطابق آئندہ دنوں جی بی حکومت کودینے کا امکان ہے۔ جبکہ 60 کروڑ کے قریب رقم سے شہید سیف الرحمن ہسپتال قائم کردی گئی ہے۔

گلگت بلتستان امراض قلب ہسپتال صحت کے شعبے میں اب تک متعارف کرائی گئی اصلاحات میں سب سے اہم ہے جبکہ کینسر ہسپتال کی کاغذی کارروائیاں بھی تیزی سے جاری ہیں۔ گلگت بلتستان میں امراض قلب ہسپتال کی اشد ضرورت تھی کیونکہ یہ دل کے امراض وباءکی طرح پھیل رہے ہے ں اور رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ں، جس میں نہ صرف مقامی مارکیٹوں میں غیر معیاری اشیاءخوردنوش کا ہاتھ ہے وہی پر مخصوص جغرافیائی حالات بھی دل کے امراض کے لئے اچھے قرارنہیں دیے جارہے ہیں۔ امراض قلب ہسپتال کا منگل کے روز وزیراعلیٰ نے سنگ بنیاد رکھ دیا، لالک جان سٹیڈیم اس ہسپتال کے لئے 17 کنال زمین فراہم کردی گئی ہے جس میں چارمنزل عمارت بنانے کا منصوبہ ہے جبکہ بیک وقت 100 گاڑیوں کو پارک کرنے کی گنجائش بھی موجود ہوگی۔

صحت کے شعبے میں ان کے علاوہ متعدد اصلاحات متعارف کرانے میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن، پارلیمانی سیکریٹری برکت جمیل اور محکمہ صحت کے حکام کی تعریف نہ کرنا کنجوسی ہوگی لیکن انہی افراد کو اس جانب بھی توجہ دینا پڑے گا کہ گلگت بلتستان کے تمام ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں کے ساتھ رویہ ہتک آمیز ہوتا جارہا ہے۔ 2017 میں آغا خان ہیلتھ کراچی کی جانب سے گلگت بلتستان میں ایک سروے کرائی گئی جس میں ڈاکٹروں کے رویہ سمیت متعدد معاملات کی نشاندہی کردی تھی۔

مختلف علاقوں میں منعقد کرائے گئے مذکورہ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے ڈاکٹرزمریض سے مرض کے بارے میں پورا پوچھنے سے قبل ہی انہیں ادویات تجویز کرتے ہیں، سروے میں رپورٹ میں یہ شکایت بھی آگئی کہ ڈاکٹروں کا مریضوں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے اور مریض ڈاکٹر کے پاس جانے کو خوف سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا رویہ کئی بار اخبارات کی زینت بن چکا ہے میں کسی ایک کیس یا ایک ڈاکٹر کی جانب اشارہ نہیں کررہا ہوں یہ عمومی بات ہوگئی ہے۔ اگر ڈاکٹروں کا رویہ درست نہیں کرایا جاسکا ہے اور 18 سال تعلیم حاصل کرکے اخلاقیات سے دور رہنے والوں کا قبلہ درست نہیں کرایا گیا تو یقینا درج بالا اصلاحات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).