احتساب بیورو (نیب)، عدلیہ کے فیصلے اور پالیسی


مولا علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ معاشروں کی تباہی میں کیا محرکات کار فرما ہوتے ہیں ”جس پر مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ“ جس معاشرے میں عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی نہ ہو، جہاں طاقتوروں کی خواہشات اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے سنائے جاتے ہوں اس معاشرے کو تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ”واقعی ریاستیں اور قومیں عدل و انصاف قانون کی حکمرانی، برداشت و مساوات کے اصولوں پر ہی چلتی اور تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔

لیکن افسوس بلکہ بڑے دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں، جو اللہ اور اس کے رسول اللہ کے نام پر قرآن و سنت کے قانون کے تابع ہونے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا وہاں انصاف کے طلبگاروں کو نہ انصاف میسر ہے نہ ہی قانون کا بول بالا ہے۔ میرے ایک دوست نے خط لکھ کر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی اور نا نصافی سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ میں اسے کالم کے ذریعے اربابِ اختیار تک پہنچانے کے اپنے تئیں کوئی سعی کروں۔

میرا دوست حکومت سندھ کے ایک ادارے میں گریڈ سترہ کا ملازم ہے چار سال پہلے ان کے ادارے میں نیب نے بدعنوانی کی شکایت پر انکوائری شروع کی، وہ بحیثیت اکاؤنٹ افسر نیب کے ساتھ مکمل تعاون کرنے، انہیں مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے اور جو جو معلومات و تفصیلات نیب کو درکار تھیں انہیں مہیا کرنے کے لئے اپنے ادارے کی طرف فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ انکوائری کے ابتدائی مراحل میں ہی ادارے کے ایک بڑے افسر اور ایک دوسرے ادارے کے سرکاری اہلکار نے نیب کو درخواست جمع کروائی کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے وہ سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو رضاکارانہ طور پر پورا کرنے کے لئے تیار ہیں لہٰذا نیب آرڈیننس کی شق 25 a کے تحت رقم کی رضاکارانہ واپسی کی ان کی درخواست قبول کی جائے اور انہیں نیب آرڈیننس 1999 کی شق 25 a کے تحت دی گئی سھولت کے مطابق کسی بھی قسم کی سزا سے معافی دی جائے۔

نیب کی اس وقت انکوائری کرنے والی ٹیم نے بھی انتہائی پھرتی دکھاتے ہوئے نہ صرف ان ملزمان کی درخواست منظوری کے لئے چیئرمین نیب کو بھجوا دی بلکہ خود بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے بلکہ یہ کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اس بہتی گنگا میں اشنان کر لیا اور ملزمان سے بھاری رقوم نذرانے اور تحائف کی صورت میں لے لئے۔ کچھ ہی دنوں میں رضاکارانہ واپسی کی درخواست منظور ہو گئی۔ رقم بھی سرکاری خزانے میں جمع کرا دی گئی، ملزمان کو کلین چٹ کے طور پر کلیئرنس سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا گیا مگر ساتھ ساتھ یہ چالاکی بھی کر دی گئی کہ کچھ ایسے بے گناہوں کے نام اس رضاکارانہ رقم واپسی کی لسٹ میں شامل کردیئے گئے جنہیں نہ تو کبھی انکوائری کے لئے طلب کیا گیا نہ ہی ان سے کوئی بیان وغیرہ لیا گیا اور نہ ہی ان سے رضاکارانہ واپسی کے زمرے میں کوئی درخواست ہی دلوائی گئی۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کہانی کا ایک انتہائی غیرمنصفانہ اور ظالمانہ پہلو تین سال کے بعد سامنے آتا ہے جب نیب کے بدمست ادارے کی جانب سے والینٹیئر ریکوری کروانے والوں کو نوٹس ملتا ہے کہ ابھی آپ پر مزید رقم نکلتی ہے لہٰذا اس کی واپسی کا بندوبست کریں اور پھر ان کے خلاف کچھ عرصے بعد نیب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا گیا اور اس ریفرنس میں کچھ معصوم و بیگناہ لوگ بھی شامل کر دیے گئے۔ اسی دوران اس معاملے کا ایک انتہائی گھناؤنا پہلو اس وقت سامنے آیا جب اس کیس کا انکوائری افسر رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے ایک افسر کے پاس جاتا ہے اور کیس کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے تین کروڑ روپے کی مانگ کرتا ہے، اور پھر رقم نہ ملنے پر ریفرنس عدالت میں دائر کردیا جاتا ہے۔

بے گناہ لوگ مجبوراً اپنی ضمانتیں کروانے کے لئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرکے ضمانتیں کرواتے ہیں اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے عدالت پر بھروسا کرکے وہاں پیشیاں بھگتتے ہیں کہ اچانک ان کی کچی ضمانتیں ہائی کورٹ رد کر دیتی ہے، حالانکہ اس سارے کیس میں مالی فوائد حاصل کرنے والے ایک بھی شخص کو ریفرنس میں شامل نہیں کیا گیا، ایک بھی بینک افسر یا چیک جاری کرنے اور چیک کے ذریعے رقم وصول کرنے والے کو اس ریفرنس میں قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا۔

رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے دو تین سرکاری ملازمین کے ساتھ میرے دوست سمیت تین چار مزید بے گناہ لوگوں کو قربانی کا بکرا بنا کے عدالت میں پیش کردیا گیا۔ یہ کہانی یہاں بیان کرنے کا میرا مقصد صرف یہ ہے کہ نیب جس طرح بدعنوانی اور بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے وہ بہت اچھا عمل ہے مگر نیب کے اپنے نجانے کتنے افسران و اہلکار بدترین کرپشن لوٹ مار میں ملوث ہو چکے ہیں، وہ اربوں کھربوں روپے کی جائیدادوں کے مالک بن چکے ہیں ان پر نظر کون رکھے گا، ان کے خلاف کون اور کیسے کارروائی عمل میں لائے گا۔

خود عدالت عظمیٰ اور عالیہ کے اکثر معزز ججز نیب کی زیادتیوں نا اہلیوں اور نالائقیوں کے خلاف ریمارکس دیتے نظر آتے ہیں۔ نیب کی زیادتیوں کے مارے معصوم و بے گناہ لوگ جب عدالتوں میں انصاف کے لئے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ شواہد اور ثبوتوں کے بجائے عدالتی پالیسیوں کے مطابق رویے کیوں روا رکھے جا رہے ہیں، کیوں اعلیٰ عدلیہ کے محترم ججز شواہد، ثبوت اور زمینی حقائق کی بنیاد پر لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر رہی ہیں، جیسے کہ اس کیس میں میرا دوست نہ تو ایک روپے کی کرپشن کا بینیفشری تھا، نہ اس نے کسی بینیفشری کا اکاؤنٹ کھلوایا، یا کسی بینیفشری سے ایک روپیا ہی وصول کیا، اس غریب کا نام رضاکارانہ رقم واپس کرنے والوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا جبکہ نہ اس کو کبھی نیب نے کسی معاملے میں طلب کیا نہ ہی اس نے نیب کو رضاکارانہ رقم واپسی کی کوئی درخواست دی اور نہ اس نے ایک روپیا بھی نیب کو واپس کیا، ان سب نا انصافیوں کے باوجود میرا دوست اپنی عدالتوں کا احترام کرتے ان پر بھروسا کرتے ہوئے اپنا معاملہ لے کر ان کے پاس گیا مگر عدالت کے معزز جج نے اس کے بھرپور تعاون کرنے، ہر پیشی پر عدالت میں پیش ہونے، کرپشن کے ایک روپے کا بھی بینیفشری نہ ہونے کے باوجود اس کی ضمانت رد کرکے نہ صرف اسے انصاف کے حق سے محروم کردیا بلکہ اسے اور اس کے سارے خاندان کو مالی مشکلات سے دوچار کردیا بلکہ معاشرتی اور سماجی طور پر بھی اس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر دیا۔

ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض اشرافیہ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نیب کے چیئرمین کو ایک مجبور و بے بس پاکستانی اور بے گناہ سرکاری ملازم کے ساتھ نیب کے کرپٹ بدکردار افسران و اہلکاروں کے اس غیرانسانی سلوک کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور سندھ ہائی کورٹ کے ان معزز ججز سے بھی جواب طلبی کرنی چاہیے جو شواہد و ثبوتوں کے بجائے پالیسیز اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر انصاف کی مسند پر بیٹھ کر معصوموں اور بے گناہوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں اگر ایسا نہ ہوا تو مولا علی علیہ السلام کے قول کے مطابق اس معاشرے اور قوم کی تباہی اور بربادی کے ذمے دار یہی منصف ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).