پاکستان کو لاحق خطرات اور تدارک


اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو اس وقت بے پناہ خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ جس میں ہر شہری خواہ غریب ہو امیر ہو، شہری ہو دیہاتی ہو، خواتین ہو، مرد ہو اقلیت ہو یا اکثریت تمام خراب معیشت، عدم تحفظ، عدم برداشت، انتہا پسندی اور غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ان تمام برائیوں کی جڑ وہ تصور ہے جس کی بنیاد پر اکہتر سالوں سے ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ ہندوستان دشمنی، دو قومی نظریہ اور مذہبی سوچ کی وجہ سے ملک انارکی کی حالت میں ہے۔

مذہب کے نام پر دنیا میں اسرائیل اور پاکستان بنے ہیں اوردونوں ابتدا ہی سے بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ تاریخ دان اس بات پر متفق نطر آتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ، اور برطانیہ ہیں جنہوں نے روس کو توڑنے کے لئے بنایا تھا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے بنگلہ دیش بننے کے بعد اورافغانستان، ایران تعلقات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کا صرف نام استعمال کیا گیا ہے باقی جاگیرداروں، سرمایہ دارں اور ان کے آلہ کار مذہبی پیشواوں کے مفادات کے لئے روز اول سے پاکستان جنت جبکہ محنت کشوں، غریب عوام، اقلیتوں کے لئے آزمائش کی زمین  ہے۔

یہ کیسی اسلامی ملک ہے جس میں ریاستی سطح پر سودی نظام چل رہا ہے یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جس میں غریب دو وقت کی روٹی کے لئے دربدر جبکہ حکمران عیاشیوں میں مشغول ہیں۔ ریاست کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ میڈیا بھی عوام کی بجائے حکمران طبقہ، سرمایہ داروں اور مذہبی پیشواوں کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے اور محنت کش عوام پر ظلم وستم کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی۔ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ تمام سیاسی پارٹیوں پر اشرافیہ اور ان کے آلہ کار قابض ہو گئے۔ پھر ایک ظلم اور بھی ہوا کہ محنت کشوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیموں پر بھی ٹاوٹس قابض ہو گئے۔

غرض محنت کشوں اور غریب عوام کے حقوق کے لئے کوئی پلیٹ فارم، پارٹی یا تنظیم نہیں رہی۔ حکمران اگر مجبوری کے تحت کچھ کرتے بھی ہیں تو بین الاقوامی دباؤ کے تحت یا کسی اور مجبوری کے تحت اور وہ بھی صرف اتنا کہ کہیں عوام بھوک سے مر نہ جائیں۔ اگر عوام مر گئے تو پھر یہ حکمران اور ان کے آلہ کار عیاشی کیسے کریں گے۔ ایسی حالات میں جب عوام روٹی کمانے سے فارغ نہ ہوں اوراشرافیہ لوٹ مار سے فارغ نہ ہوں ریاست کا دیوالیہ ہونا، انتہاپسندی، انارکی میں ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔

پاکستان اس وقت مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت اوردہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بیرون دنیا سمیت اب تو حکمران بھی فکر مند ہیں کیونکہ پاکستان اس وقت ایسی معاشی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔ حکمرانوں کو غریب عوام کی نہیں مگر اپنے مفادات کی فکر لگی ہوئی ہے۔ حکمران طبقے نے خود کو بچانے کے لئے اقتدار کی کرسی پر ایسے لوگوں کو بٹھایا ہے جو اقتدار کو مذاق سمجھتے ہیں۔ معیشت اور ریاست کا علاج بجائے پالیسی سازی اور قانون سازی کے دم درود اور جذباتی نعروں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی نا اہلی کو میڈیا کے زور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرپشن کرپشن کا شور مچا کر خود کو بچانے اور مخالفین کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پشتون، بلوچ، سندھی عدم تحفظ اور پنجاب کے محنت کش اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ الیکٹرانکس اور پرنٹ میڈیا میں اب بھی صرف اشرافیہ اور حکمرانوں کی اقتدار اور مفادات کی جنگ اورمحلاتی سازشوں کی داستانیں زور و شور سے جاری ہیں۔

ہمسایہ ممالک ہم سے پراکسی جنگ (غیرریاستی عناصر) کی وجہ سے تنگ آ چکے ہیں۔ دوسری طرف چین جن کو ہمارے حکمران مسیحا کے روپ میں دکھاتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر امریکہ ہمارا دشمن بن جائے تو کوئی پرواہ نہیں چین ہماری مدد کرے گا، مگر ان کا یہ حال ہے کہ وہ صرف اپنی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کی تمام سرمایہ کاری عوام کے سامنے کوئی بھی نہیں لاتا کیونکہ ان کی تمام سرمایہ کاری میں پاکستانی عوام کے مفادات کے لئے کچھ بھی نہیں۔ حکمران طبقہ کے لئے کمیشن اور باقی تمام چین والے لے جاتے ہیں۔ ہمارا نظریاتی دوست ملک سعودی عرب بھی ہم سے نالاں ہے۔ اب وہ بھی ہمارے خرچے اور نخرے برداشت نہیں کرسکتا۔ حکمران اور اپوزیشن دونوں عوام دشمن ہوں تو عوام کے مفادات، حقوق اور ریاست کی ترقی کی بات پھر کون کریں گے۔

متبادل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اس وقت گماشتہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مذہبی پیشواوں اور ان کے آلہ کاروں کے مکمل قبضے میں ہے۔ عوام دوست، انسان دوست، حقیقی محنت کشوں کی تنظیمیں اورسیاسی پارٹیاں تقسیم در تقسیم ہیں۔ انا، ذاتی مفادات، شہرت اور لیڈرشپ کی وجہ سے آپس میں الجھے ہوئے ہیں اورکسی قسم کی مشترکہ جدوجھد یا متبادل قیادت لانے میں ناکام ہیں۔ اور اسی طرح ان کے کارکن بھی بے بس تماشائی، مایوس یا مجبور ہیں۔

اگرچہ کارکن انفرادی طور پر بساط سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں اور تنظیموں کی قیادت بھی انفرادی طور پر انتھک محنت کر رہی ہے مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

پاکستان کی تمام برائیوں اور پستیوں کی ذمہ دار اسٹبلشمنٹ، ان کے آلہ کار جاگیردار سیاستدان اور مذہبی فرقہ وارانہ جماعتوں کے رہنما ہیں جو ملک میں عوام کے بنیادی مسائل معیاری تعلیم، صحت، صنعتیں اور روزگار کی بجائے نان ایشوز پر عوام کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ مکمل طور پر ان طبقوں کے دست نگر ہیں۔ متبادل قیادت کی ازحد ضرورت ہے جوعوام کے بنیادی ایشوزکے لئے آواز اٹھائے اور ملک میں بدامنی، استحکام کے لئے کام کرے اور بین الاقوامی اعتماد کو بحال کر کے غیر ریاستی عناصر کے خلاف اقدامات اٹھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).