ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و کرم اور


کہتے ہیں رات گئی، رات کی بات گئی۔ ادبی رسالوں کے بارے میں بھی بعض لوگ یہی بات کہتے ہیں۔ آج چھپے، کل دوسرا دن۔ رسالے کے چھپتے چھپتے خبریں پرانی ہونے لگتی ہیں۔ انٹرنیٹ کے دور میں انگلیوں کے اشارے پر پوری دنیا سامنے آ جاتی ہے، ساغر انتظار اور انتظار ساغر کھینچنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن میں ایک رسالے کے حوالے سے تقریب میں شریک ہوکر آیا ہوں جس کو چھپے ہوئے دوچار برس نہیں، بیاسی برس سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا۔ لیکن یہ ابھی پرانا نہیں ہوا اس لیے کہ دوبارہ چھپا ہے اور نئی آب و تاب کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ شاہد احمد دہلوی کی ادارت میں نکلنے والے ممتاز رسالے ”ساقی“ دہلی کا جاپان نمبر 1936 ء میں شائع ہوا تھا۔ پاکستان جاپان لٹریچر فورم کی طرف سے دوبارہ شائع ہوا ہے اور اسی کے حوالے سے جاپان کے قونصل خانے میں ایک تقریب بپا ہوئی تو لوگوں نے اس رسالے کو نئے سرے سے دیکھا۔ میں یہ سوچتا رہا کہ آخر اس رسالے کی افادیت اب کیا ہے اور اس سے ہم کو معلومات کی فراوانی کے اس دور میں کیا نئی بات نظر آتی ہے۔

ساقی دہلی سے نکلا اور کراچی سے جاری رہا۔ اس رسالے کی ادبی اہمیت سے اردو ادب کے طالب علم خوب واقف ہیں کہ اپنے زمانے کے ادبی رسالوں میں سرخیل اور نمایاں رہا۔ یہ پورا دور ادبی رسالوں کی رنگینی سے عبارت ہے، جن میں ادبی دنیا، نگار اور نیرنگ خیال شامل ہیں۔ مختلف رجحانات کے حامل یہ ممتاز جریدے اس دور کے مزاج کے آئینہ دار ہی نہیں بلکہ اس کو متعین کرنے میں بھی اتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ آج ہم اس کا پوری طرح تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ ساقی نے بھی جدّت اور جرأت کا ثبوت دیتے ہوئے بعض ایسے ادیبوں کو پورے اہتمام سے شائع کیا جن کے کارنامے آج ہمارے لیے موجبِ احترام ہیں۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ دھواں اور پھر اس نام کا مجموعہ ساقی بک ڈپو سے شائع ہوا۔ عصمت چغتائی کے رسوائے زمانہ ”لحاف“ کے ساتھ منٹو پر بھی مقدمہ چلا۔ آج منٹو اور عصمت ہمارے اتنے بڑے عہد ساز ادیب مانے جاتے ہیں کہ ان کے بغیر بیسویں صدی کے اردو ادب کا تصوّر محال ہے۔ ان کی اشاعت کے حوالے سے شاہد احمد دہلوی کا نام ہمارے لیے قابل احترام ہے۔

اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں جب رسالہ اپنا ادبی مزاج قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو ساقی کا جاپان نمبر سامنے آیا۔ اس میں جاپان کی معاشرت و ثقافت کے بارے میں بہت سے مضامین شامل ہیں جن سے جاپان کی تہذیب اور روایات کا خاصے بھرپور انداز میں تعارف ہو جاتا ہے۔ ان میں زبان و ادب کے بارے میں مضامین بھی شامل ہیں۔ مگر اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالے کی دستاویزی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی اور سیاسی جہت ہے جس کو اس زمانے کے سیاق و سباق میں دیکھا جاسکتا ہے۔

اس دور کے ادب سے ظاہر ہے کہ یہ کیسے اضطراب کا دور ہے۔ ترقی پسند ادیب نمایاں ہو رہے ہیں۔ ”انگارے“ سامنے آ گئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بادل منڈلانے لگے ہیں اور فاشزم عالمی طاقت بن گیا ہے۔ ہندوستان کے نوجوان انگلستان سے نظریں پھیر کر دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔ ایسے میں ان کی نظریں جاپان پر بھی پڑتی ہیں۔ جنگ چھڑنے کی دیر ہے کہ یہ دل چسپی اور بھی بڑھ جائے گی۔ اسی کا ایک اہم سیاسی مظہر سبھاش چندر بوس اور ان کی آزاد ہند فوج ہیں۔ سبھاش چندر بوس کا ہمارے ہاں زیادہ ذکر نہیں ہوتا مگر ہندوستان میں ان کو آج بھی ”نیتا جی“ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے اور ان پر تحقیقی و تجزیاتی تحریروں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس بدلتی ہوئی فضا میں شاہد احمد دہلوی ”ساقی“ کے جاپان نمبر کا ڈول ڈالتے ہیں۔ اس کی داغ بیل یوں پڑی کہ ان کے قریبی عزیز نورالحسن برلاس اردو پڑھانے کے لیے ٹوکیو یونیورسٹی پہنچ گئے اور وہاں سے جاپان کی معاشرت کے مختلف پہلوؤں پر چھوٹے چھوٹے مضامین لکھ کر بھجوانے لگے۔ پھر انہوں نے ترتیب اور تسلسل کے ساتھ مضامین لکھے۔ دوسری طرف شاہد احمد دہلوی اور ان کے احباب نے مضامین لکھے، ترجمے کیے اور یوں ایک ضخیم شمارہ مرّتب کیا جس نے اردو پڑھنے والوں کے لیے اس نامانوس دیار کی طرف ایک نیا دریچہ کھول دیا۔

اس رسالے کی فہرست مضامین پر نظر ڈالیے تو ایک طرف خود شاہد احمد دہلوی اوران کے ساتھ ساقی کے دوسرے مخصوص مضمون نگار نظر آئیں گے جیسے فضل حق قریشی اور صادق الخیری جن کا ترجمہ بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔ دوسری طرف مضامین کی خاص تعداد برلاس صاحب اور بیگم برلاس کی تحریر کردہ ہے۔ نور الحسن برلاس کون تھے، مجھے جستجو ہوئی تو پتہ چلا کہ شاہد احمد دہلوی کے قریبی عزیز تھے۔ شاہد احمد دہلوی کے بھتیجے مسرور احمد نے مجھے تفصیل بتائی کہ مولوی نذیر احمد کی بہن ذکیہ بیگم کے نواسے تھے۔ جانے کس تقریب سے ٹوکیو پہنچ گئے اور 1949 ء تک وہاں یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ پھر پاکستان چلے آئے۔ ان کی اہلیہ اشرف جہاں کو میں نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے۔ ہمارے خاندان میں وہ ”جاپان والی“ کہلاتی تھیں۔ اس نام کی وجہ تب مجھے معلوم نہیں تھی اوریہ عجیب سا معلوم ہوتا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ اس کی وجہ ان کا سفر تھا۔ پھر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب سے سُنا کہ اس دور کے بعض جاپانی طالب علم ان کے گھر پر ”پے انگ گیسٹ“ کے طور پر مقیم بھی رہتے تھے۔ بچپن کی یہ دُھندلی، ادھوری سی یادیں آج ساقی کے نام سے دوبارہ بیدار ہو گئیں۔

رسالے کے مضامین دیکھ کر ان لوگوں کی محنت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آج گوگل سرچ کے زمانے میں ہمارے لیے معلومات حاصل کرنا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ پرانے لوگوں کی یہ محنت ایک مقدس دیوانگی سی معلوم ہوتی ہے۔ بڑی حد تک انگریزی زبان پر انحصار اور محدود وسائل کے باوجود اتنا کچھ سمیٹ لیا۔ معلومات کا یہ انداز آج بھی باسی نہیں ہوئی ہیں اور اپنے موضوع کے بارے میں معلومات میں اضافہ کرتی ہیں، پھر جس ماحول میں یہ رسالہ سامنے آیا اس دورکے پڑھنے و الوں، ان کی توقعّات کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس نئی اشاعت کی بدولت اس شمارے کو دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے نام ہی نام سُنا تھا۔ ہمارے گھر میں میرے والد کے پاس بہت سے پرانے شمارے محفوظ تھے مگر ان میں یہ شامل نہیں تھا۔ کراچی کے بہت سے کُتب خانوں میں ڈھونڈا۔ ساقی کے دہلی والے پرانے شمارے دیکھنے کا مجھے بہت اشتیاق تھا۔ ایک کتب خانے کا پتہ چلا کہ وہاں عظیم بیگ چغتائی نمبر موجود ہے۔ لائبریری کے رجسٹر میں دیکھا، اندراج مکمل تھا مگر شمارہ غائب۔ مجلّد فائل میں جہاں وہ شمارہ موجود ہونا چاہیے تھا، کوئی ستم ظریف بلیڈ سے کاٹ کر لے گیا۔ اوپر سے جلد رہ گئی، اندرکے صفحات غائب۔ اب احساس ہوتاہے کہ ان سب شماروں کو ڈجیٹل ذرائع سے محفوظ کر لینا چاہیے ورنہ جو بچ گیا ہے، وہ بھی باقی نہیں رہے گا۔

 ”جاپان نمبر“ کا عکس مجھے ٹوکیو میں نظر آیا جہاں ”جامعہ برائے خارجی مطالعات“ کے شعبۂ اردومیں وہاں کے اساتذہ کی کوششوں سے ایسی بہت سی نایاب چیزیں محفوظ ہیں۔ نوجوان جاپان شناس خرّم سہیل نے یہ عکس وہاں سے حاصل کیا اور اس کی اشاعت کا ڈول ڈالا۔ ان ہی کی کوششوں سے یہ سامنے آیا ہے۔

خرم سہیل نے اہتمام کیا کہ پورا شمارہ جوں کا توں شائع کر دیا۔ رسالے کے آخر میں اشتہارات بھی محفوظ ہوگئے۔ تقریب میں محترمہ سعید راشد نے توجہ دلائی کہ ہمدرد کے دو اشتہارات بھی آخر میں درج ہیں۔ واقعی خمیرۂ نزلی اور نمک جالینوس کے اشتہار موجود ہیں۔ میری ہمّت نہیں ہوئی کہ ان سے کہتا اصغر علی محمد علی کے عطریات کے ساتھ انگریزی سکھانے والی کتابوں اور ان سے بھی بڑھ کر شادی کے بارے میں اور سہاگ رات کے بارے میں ہدایات والی کتابوں کے اشتہار بھی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پڑھنے والے باذوق افراد ان ہدایات پر عمل کر کے زندگی میں کامیابی حاصل کرتے ہوں گے۔

کامیابی حاصل کرنے کا موقع بھی دور نہیں۔ آخر میں ایک اشتہار ایک صاحب کی طرف سے درج ہے کہ ”ازدواجِ ثانی کے ضرورت مند“ ہیں۔ ان کی ماہانہ تنخواہ اور عیال دار ہونے کی اطلاع بھی موجود ہے۔ رابطے کے لیے ساقی کے ذریعے سے خط لکھ سکتے ہیں۔ یہ افسانہ بیچ میں سے رہ گیا۔ خدا کرے کہ ان صاحب کی خواہش پوری ہوگئی ہو۔ ساقی کا خاص نمبر ان کے اشتہار پر تمام ہو جاتا ہے۔

جاپان کے قونصل خانے میں منعقد ہونے والی اس تقریب تعارف میں محترمہ سعدیہ راشد کے بعد نوجوان مدیر اور افسانہ نگار اقبال خورشید نے خرم سہیل کی کاوش کو سراہا۔ میری باری آئی تو میں نے ساقی کے بارے میں اور پھر اس نمبر کے بارے میں چند باتیں کہیں۔ اس موقع پر مجھے ابن سعید بھی یاد آئے۔ ان کا اصل نام مرزا محمد عسکری تھا۔ ساقی کے صفحات سے افسانہ نگاری شروع کی اور برطانوی ہندکی فوج کی طرف سے دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان بھیجے گئے اور ہیروشیما پر افسانہ لکھا، جو برسوں بعد ضمیر نیازی کے مرّتب کردہ مجموعے زمین کا نوحہ میں دوبارہ شائع ہوا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے پرانے سفر ناموں کا پتہ دیا کہ مسافرکیسے کیسے رنج اٹھا کر نت نئے مقامات کی خبرلائے اورکیسے کیسے سفرنامے یادگار چھوڑے۔ ڈاکٹر صاحب ادبی محقّق ہیں اور ایک طویل عرصہ جاپان میں بھی رہے ہیں۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے شاہد احمد دہلوی مرحوم کی صاحب زادی اور صاحب زادے بھی آئے تھے۔ ان کو اس شمارے کا نسخہ پیش کیا گیا۔ یوں اس کا اجراء بھی ہو گیا۔ جاپانی قونصل نے اردو میں تقریر کرتے ہوئے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح تقریب اختتام کو پہنچی۔ سب ہنسی خوشی وہاں سے رُخصت ہوئے۔ بہت سے سوالات اپنی جگہ رہ گئے۔ محفلیں اسی طرح آراستہ ہوتی ہیں، پھر درہم برہم ہو جاتی ہیں، سوال باقی رہ جاتے ہیں۔ ایک واضح سرگوشی میں کوئی پوچھے چلا جا رہا ہے۔ کب تک؟ کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).