آزادی صحافت :چومسکی اور ہرمن کے پراپیگنڈا ماڈل کے تناظر میں


آزادی صحافت ایک متنوع موضوع ہے جس کے بارے میں قیاس آرائیاں اور مباحث ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک صحافت آزاد ہے جب کہ کچھ کے نزدیک صحافت پابہ زنجیر ہے۔ لیکن تحقیقی حوالوں سے مغرب کی نسبت ہمارے ہاں اس پر بہت کم علمی کام ہوا ہے۔ نام چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن نے 1998 میں اپنی ایک شائع ہونے والی کتاب بعنوان
Manufacturing consent: The Political Economy of Mass Media
”بیانیے کی تخلیق:ماس میڈیا کی پالیٹیکل اکانومی“ میں اس موضوع پر خالصتاً اکیڈمک انداز میں تحقیقی نقطہ نظر پیش کیا ہے جوشعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لئے کافی دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔

ان دونوں سکالرز کا کہنا ہے کہ کوئی بھی خبر بہت سے فلٹرز سے گزر کر تشکیل پاتی ہے اور پھرایک مخصوص بیانیے کی ترویج کے لئے عوام الناس تک پہنچائی جاتی ہے۔ چومسکی اور ہرمن کے پراپیگنڈا ماڈل کا مرکزی نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں پاور دراصل چند غیر منتخب شدہ افراد، عناصر اور کارپوریشنز کے ہاتھوں میں ہے جو طاقت کے دیگر ستونوں کے علاوہ عالمی میڈیا پربھی بہت اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک مخصوص ایجنڈے یابیانیے کو فروغ دینے کے لئے خبریں باقاعدہ انتخاب
(selectivity) ، فلٹرنگ (filtering) اورچھان بین (sanitization) کے مراحل سے گزاری جاتی ہیں۔

اور عوا م الناس تک صرف وہی خبری مواد پہنچایا جاتا ہے جو ان چند پاور اسٹیک ہولڈرز کے مفاد کو پورا کرتا ہوجن کا مقصد صرف اپنی ذاتی طاقت و اثرورسوخ اورکارپوریٹ منافع میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ ان غیر منتخب شدہ عناصر اور کارپوریشنز کا دائرہ کاراور اثرورسوخ مقامی سطح پر بھی ہوتا ہے اور عالمی سطح پربھی۔ چومسکی اور ہرمن اپنے اس ماڈل میں ہمیں سمجھاتے ہیں کہ کارپوریٹ ماس میڈیا، پراپیگنڈ ے اور تعصبات کو کیسے مربوط طریقے سے فروغ دیتا ہے۔

اس پراپیگنڈا ماڈل کے ذریعے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کے تحت کیسے معاشی، سماجی اور سیاسی پالیسیوں کے حوالے سے عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ بظاہر یہ تھیوری کارپوریٹ میڈیا کے سٹرکچر کا احاطہ کرتے ہوئے آزادی صحافت کے روائیتی اور خیالی تصورکی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چومسکی اور ہرمن کے مطابق کارپوریٹ میڈیا کا مجموعی سٹرکچر میڈیا پروفیشنلز کی بجائے کاروباری افراد کی میڈیا پر اجارہ داری
(ownership and money) ،
ایڈورٹائزنگ کی بنیاد پر کھڑا میڈیا سسٹم (advertising based media system) ،
خبر کے مشکوک سورسز (sourcing mass media news) ،
نشر ہونے والے ناپسندیدہ مواد کی جبری بندش (the covering fire of flak) ،
پہلے اینٹی کمیونزم اور اب اینٹی ٹیررازم یا ڈروخوف کے بیانیے کی تشہیر (anti۔ communism/anti۔ terrorism and fear)
پر مبنی ہے۔ میڈیا کایہ سٹرکچر مفادات کے ٹکراؤکو تخلیق کرتا اوراسے تسلسل دیتا ہے جو ازاں بعد غیر جمہوری قوتوں کے لئے پراپیگنڈا کا کام کرتا ہے۔

کاروباری افراد کی میڈیا پر اجارہ داری پر بات کریں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بزنس کمپنیاں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جن میں سے کچھ اپنے کاروباری مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں اور کچھ یا تو فیل ہو جاتی ہیں یا مسلسل خسارے کے نتیجے میں بند ہو جاتی ہیں۔ اس عمل سے مارکیٹ میں کچھ بڑی کاروباری کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں بجا طور پر معلوم ہے کہ کولا مارکیٹ میں کس کمپنی کی اجارہ داری کئی دہائیوں سے قائم ہے۔

کارووباری ملکیت کے چند ہاتھوں تک سکڑنے کے سبب پاور تک ان کی رسائی آسان ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں بڑی مچھلیوں کا چھوٹی مچھلیوں کو نگلنا اور آسان ہوجاتا ہے۔ ایک کمپنی بے غرضانہ انداز میں اپنے مالک کے مقاصد کو فروغ دیتی ہے۔ ان کمپنیوں کے ملازمین اپنی ضرورتوں کے لئے ایک آلہ کارکے طور پر اپنے ادارے یا مالک کے ہاتھوں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہرمن اور چومسکی کے پراپیگنڈا ماڈل کے مطابق میڈیا انڈسٹری کو چند بڑی بڑی کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں اور بہت سے میڈیا چینلز پر ان کا غلبہ رہتا ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے بعد بہت سی ویب سائٹس کی تخلیق اور دیگر ذرائع سے کارپوریٹ سیکٹر کی میڈیا پر اجارہ داری جوں کی توں قائم ہے۔

جیسا کہ ظاہر ہے پیسہ کاروبار کی بنیاد اور پیسہ کمانا ہی کاروبار کابنیادی محرک ہے۔ اس سے سوال پید اہوتا ہے کہ فنڈنگ کے ذرائع کیسے تشکیل پاتے ہیں۔ جہاں تک خبروں اور میڈیا کی بات ہے اس کی فنڈنگ کے بنیادی ذرائع سبسکرپشن ماڈل اور اشتہارات  ہیں۔ ان دونوں کے ذریعے خبر کو سستے داموں صارفین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور ویب میڈیا کا زیادہ تر انحصار انھیں ذرائع پر ہوتا ہے۔

لہٰذا خبر، مضمون یا پروگرام ریٹنگ کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ جو مواد جتنی ریٹنگ کھینچ سکے وہ اتنا ہی زیادہ چلایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایڈیٹرز اور میڈیا منیجرز اشتہاری اداروں کی ناراضگی کا رسک افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی مرضی کامواد اگر نشر نہ کیا جائے تووہ اشتہارات کے ذریعے کی جانے والی فنڈنگ سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں یوں وہ میڈیا پر براہ راست اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ نشر ی مواد کو فلٹر کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔

ایک اور بہت بڑا سوال ہے کہ میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں آتی کہاں سے ہیں؟ میڈیا اداروں کے پاس بظاہر خبریں اکٹھی کرنے کے اپنے ادارہ جاتی ذرائع محدودہوتے ہیں۔ نہ صرف چھوٹے بلکہ بڑے میڈیا اداروں کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ جگہ جگہ خبروں کے حصول کے لئے اپنے رپورٹرز کو بھیج سکیں چنانچہ متبادل اور آسان ذرائع سے خبروں کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔ یوں جلدشائع یا نشر کرنے کی دوڑ میں متبادل ذرائع سے آنے والی خبروں کی چھان بین اور حقیقت پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جس سے معاشرے میں افواہ سازی کو فروغ ملتا ہے۔

یہ عمل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے عناصر کے مفاد کو تقویت دیتاہے۔ کاروباری کمپنیوں اور گورنمنٹ کے پاس مارکیٹنگ اور پی آر کے بڑے بڑے ادارے اور ماہرین موجود ہوتے ہیں جو پریس ریلیز تیار کرتے ہیں اوراپنے کمرشل مفاد کی وجہ سے میڈیا ادارے بھجوائے گئے مواد کی تصدیق کیے بغیر اس مواد کو من و عن نشر یا اشاعت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کاروباری کمپنیاں اور گورنمنٹ اپنے ماہرین کو انٹرویو کے لئے بھی بھجواتے ہیں جو ظاہر ہے اپنے ادارہ جاتی ایجنڈے کی حمائیت یا اس کا دفاع کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ بعض اوقات خاص مقاصد یا ایجنڈے کو فروغ دینے اور تضادات پھیلانے کے لئے اکیڈمک ریسرچ کی بھی فنڈنگ کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہیں لیکن قابل ذکر پزیرائی صرف چند ایک کو ہی ملتی ہے۔ جس طرح انڈسٹریز پر چند بڑے کھلاڑیوں کی اجارہ داری ہوتی ہے اسی طرح میڈیا پر بھی چند بڑے میڈیا پرسنز کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے جن کو بڑے کارپوریٹ یا حکومتی ادارے اپنے بیانیے کے فروغ کے لئے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے بڑی آسانی سے قابو کر لیتے ہیں۔

بعض دفعہ میڈیا پر کچھ ایسا مواد نشر یا شائع ہو جاتا ہے جو طاقتور لوگوں کی طبع نازک پہ گراں گزرتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس صورتحال پر قابو پانے کے لئے بہت سے طریقے موجود ہوتے ہیں۔ ناپسندیدہ خبروں کو رکوانے کے لئے یا تو کوئی بہت بڑی پیشکش کی جاتی ہے، بصورت دیگرکچھ ایسے میڈیا صارفین پیدا کیے جاتے ہیں جن کی اس مواد کے متعلق شکائیت کو وائرل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ وکیلوں کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔

یہاں تک کہ خبر نشر کرنے والے ادارے کے کاروباری مفادکو نقصان پہنچانے اور قید یا سزا کے دیگر پہلوؤں کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یوں ”بڑے بھائی“ کو ناراض کرنے والے مواد کی تشہیر کو روکنے کے لئے مختلف تخریبی حربوں کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ”خبر“ پر فلٹر لگا دیا جاتا ہے۔ فلیک   کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں جن میں بلاگز، نیوز لیٹرز، تقاریر، دھرنے، سپانسرشپ، پارلیمنٹ میں قانون سازی، دھمکی آمیز کالیں اور خریدنے کے دیگر ذرائع بھی شامل ہیں۔ اس طرح طاقتور سوشل ایلیٹ کے مفادات کے آڑے آنے والوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں انھیں عبرت کی مثال بنا دیا جاتاہے۔ جب تک حریف کو سمجھ آتی ہے وہ چاروں شانے چت ہو چکا ہوتا ہے۔

اس پراپیگنڈا ماڈل کا نقطہ عروج ڈر یا خوف کی مسلسل تشہیر یا اس کو بیچنا ہے۔ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے پہلے بہت سی عفریتوں کو پید اکیا جاتا ہے پھر ان کی آڑ میں سیکیورٹی و دفاعی صلاحتیں بڑھانے، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور دفاعی صنعت کو ترقی دینے کے جواز پید اکیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں کئی سال تک کمیونزم کو ایک عفریت کے طور پر پیش کیا گیا اور پھرسوویت ریپبلک کے زوال کے بعداسلامی دہشت گردی کا عفریت پید اکر دیا گیا۔

پبلک کے موڈ کو اس عفریت سے ہم شناس کرنے کے لئے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں تخلیق کی جانے لگیں۔ ڈر ایک طاقتور عنصر ہے جو لوگوں کو تحفظ کی طرف مائل کرتا ہے اور وہ واقعات کی تہہ میں جانے کی بجائے اس کے سطحی پہلوؤں کی جانب راغب ہو جاتے ہیں یوں ڈر کا پراپیگنڈادھیرے دھیرے لوگوں کے ذہنوں میں اثر پزیر ہو جاتا ہے۔

کمیونزم اور دہشت گردی کی مثال ڈر پید اکرنے کے محض دو پہلو ہیں۔ بہت سے دیگر حقیقی خطرات میں اپنی بچتوں یا گھر سے محروم ہونے کا ڈر، ملازمت سے ہاتھ دھونے کا ڈراور اسی طرح ڈر کے بہت سے دیگر پہلو لوگوں کو انجانے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔ نیو ہیڈ لائنز ڈر اور خوف کی ان پرچھائیوں کو حقیقت کا روپ دیتی رہتی ہیں یو ں معاشرے پر سوشل ایلیٹ کی اجارہ داری قائم رہتی ہے اور سچ تہہ در تہہ چھپا رہتا ہے۔ ایسے میں آزادی صحافت اور اظہارکی آزادی  کو ہم محض لفظوں کا ہیر پھیر ہی کہہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).