پاکستان میں پہلی بار جبری گمشدگی جرم بن گیا لیکن؟


پاکستان میں گزشتہ تین سال سے جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہورہا تھا انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس غیر آئینی قدم کو جرم قرار دینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کی جانب سے بارہا اس کو جرم قرار دینے کی عملی اقدامات کیے گئے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے اس سنگین مسئلہ کے بارے قانون سازی کی بات کی ہے جو پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جبری گمشدگی کو متعدد بار انسانی وقار کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیاءکی کسی بھی ریاست میں جبری گمشدگی کو ایک باقاعاعدہ جرم تصور نہیں کیا جاتا، جو کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔ جبری گمشدگی پر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے غیر تسلیم شدہ حراستوں کو محض گمشدہ افراد قرار دیا جاتا ہے۔ جبری گمشدگیوں پر صرف اس صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ خطے کی حکومتیں انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کو فوری طور پر جرم قرار دیں، تاکہ ماورائے قانون جبری حراست کا یہ معاملہ ختم ہو پائے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت اگر ریاستی اہلکاروں کی طرف سے ریاست کی اجازت، حمایت یا خاموش رضا مندی سے کارروائی کرنے والے افراد کی طرف سے کسی کو گرفتار، اغوا یا حراست میں لیا جاتا ہے اور بعدازاں حراست سے انکار سے کیا جاتا ہے یا گمشدہ فرد کی حالت یا مقام کو چھپایا جاتا ہے، جس کے سبب وہ فرد قانون کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر چلا جاتا ہے تو یہ کارروائی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ سنگین ہوچکا ہے، آئے روز کوئی بلوچی کوئی صحافی یا کسی تنظیم کا فرد جبری طور اغوا کر لیا جاتا ہے۔

یہ معاملہ اس قدر افسوسناک ہے کہ مغوی کے ورثا کئی دنوں تک احتجاج کرتے ہیں، پریس کانفرنسز دھرنے اور بھوک ہڑتال کرتے ہیں، لیکن گم شدہ افراد نجانے کہاں پر غائب کر دیے جاتے ہیں اور اہل خانہ اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ جبری طور پر اغواءکا یہ معاملہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی سنگین ہوچکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں آئے روز ایسے معاہدے پر دستخط کرتی رہتی ہیں، جس پر یہ طے ہوتا ہے کہ قانون اور عدالتوں کی موجودگی میں کسی بھی فرد کو جبری طور پر اغوا کرنا جرم اور قابل مذمت ہے، لیکن یہ سلسلہ گذشتہ تین سال سے شدت اختیار کر چکا ہے اور آئے روز کسی بھی شہری کو اٹھا لیا جاتا ہے۔

دوسال قبل بلوچ رہنما واحد بلوچ کو جبری طور پر اغوا کیا گیا، جس کے لئے ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند کی گئی اور وہ کچھ مہینوں بعد واپس آگئے۔ دو سال قبل سلمان حیدر اور گورایا وغیرہ کو بھی لاپتہ کیا گیا اور وہ 20 روز بعد لوٹ آئے۔ بعد ازاں مذہبی جماعت کے ناصر شیرازی کو بھی ایک ماہ کے لئے اغوا کیا گیا اور اب تک سیکڑوں افراد جبری طور پہ اغوا کیے جا چکے ہیں جبری طور پر گمشدہ افراد جب واپس آتے ہیں تو ہمراہ کوئی الزام بھی لاتے ہیں، جو چند روز بعد ہی ختم ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی پارٹی یا مذہبی گروہ ہو، جس کے کارکنان کو اغوا نہ کیا گیا ہو۔ لاپتا افراد کے کمیشن کے مطابق انہوں نے 30 نومبر تک 5 ہزار 6 سو 8 کیسز میں سے 3 ہزار 4 سو 92 نمٹا دیے۔ کمیشن کوگزشتہ برس 31 اکتوبر تک 5 ہزار 5 سو 7 کیسز جبکہ نومبر تک مزید 111 کیسز موصول ہوئے تھے۔ گزشتہ سال پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سابق حکومت کو اقوامِ متحدہ کے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹ میں رد و بدل کرنے کی کوشش سے خبردار کر تے ہوئے بتایا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے یونیورسل پریاڈک ریویو کے گذشتہ اجلاس میں جو پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہوا تھا، میں پاکستان نے ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی، تاہم خواجہ آصف کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ مسئلہ موجود ہی نہیں تھا۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تجویز دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ پاکستان جبری گمشدگیوں کے بارے دوٹوک موقف اپنائے تاکہ ملک میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا جائے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین علی نواز چوہان نے بھی گزشتہ حکومت سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لیے پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کی جائے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اس غیر آئینی قدم کے خلاف واضح اقدامات سامنے آئے لیکن ن لیگ نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور لیگی دور میں سب سے زیادہ جبری گمشدگیوں کے واقعات رونما ہوئے۔ گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت جو لوگ شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انسانی حقوق کے اجلاس میں کیا گیا۔ بیان کے مطابق کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتہ کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس بارے کہا ہے کہ ’اس فیصلے کے بعد جو لوگ شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے، سول عدالتوں میں ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ گمشدہ افراد کے بارے حقائق کچھ بھی ہوں لیکن یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے اور ایسے مجرموں کے ساتھ ساتھ کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے جو پاکستان کے اداروں کی ساکھ کو خراب کرتے ہیں۔

وزیر اعظم کا جبری گمشدگیوں کے حولے سے فیصلہ خوش آئند ضرور ہے پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جبری طور گمشدگی کو جرم قرار دیا گیا ہے اس سے قانون کی بالادستی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پہ عمل درآمد بھی ہوگا؟ یا کسی سیکورٹی ادارے کسی بھی جواز کی بنیاد پہ شہریوں کو کچھ گھنٹوں، دنوں یا برسوں کے لئے اغوا کرسکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).