سب انجنیئرز کی اسامیاں اور بلوچستان کی تباہی


اگر آپ بلوچستان میں رہتے ہیں اور اخبار باقاعدگی سے پڑھتے ہیں حالات واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو پریشان ہونا آپ کی زندگی کا لازمی جز بنے گا۔ کیونکہ آپ اپنی زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر نت نئے طریقے اور حکومتی اقدامات اور ایسے فیصلے جو پنچایت میں بھی نہ ہوتے ہوں حکومتی سطح پر ہوتے ہوئے دیکھتے آپ انگشت بدندان رہتے ہیں اور آپ کی رائے، رائے عامہ سے محروم معاشرہ قبول کرنے کو تیار بھی نہہو،  ایسے میں اگر خدانخواستہ آپ حساس طبیعت کے مالک انسان ہیں تو آپ کو لگتا ہے غلط آپ ہیں، معاشرہ نہیں۔ شاید آپ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوچکے ہیں۔ آپ کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس علاج کی غرض سے جاتے ہیں تو معالج آپ کو بطور علاج اخبار پڑھنے سے پرہیز اور شہر میں نکلنے کے بعد اپنی آنکھوں بند رکھنے کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے باقی آپ کو صحت مند انسان قرار دیتا ہے۔

باوجود اس ڈاکٹری تجویز اور مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ اپنی زندگی کے معمول جاری رکھتے ہیں تو کسی کو یہ کہنے میں عار نہیں ہو گا کہ آپ نفسیاتی مسئلے کا شکار انسان ہیں۔ صبح اخبار دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ لوکل گورنمنٹ بلوچستان میں سب انجنیئرز کی اسامیاں آئی ہیں۔ خوشی ہوئی۔ نوجوان بلوچستانی انجینئرز کا مجھ سے ہمیشہ گلہ رہا ہے کہ ان کے مسائل بیان نہیں ہوتے لیکن پھر سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کوئی نائب قاصد کی اسامی تو نہیں جن کا امتحان محمکہ لوکل گورنمنٹ خود لے رہا ہے۔

یہ اسامیاں تو خالصتاً بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پر کرنی چاہیے۔ خیال آیا کہ وزیراعلی بلوچستان تو بارہا یہ بات دہرا چکے ہیں کہ اب حکومت ماضی کی پالیسی پر نہیں چلے گی تو کیا یہ ماضی کی پالیسوں کا حصہ نہیں ہے؟ جس میں دیگر محکموں کی طرح کابینہ کے فیصلے کی آڑ میں 1 سے 15 گریڈ تک محمکہ کے ذریعے پر کرنا ہے۔ یہ ماضی کی کابینہ کا ایک مضحکہ خیز فیصلہ تھا۔ کیونکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومتوں نے یہ نہیں سوچا کہ سب انجنیئرز جیسی اہم بھرتیاں جن کو محکمے کی نگرانی میں شفافیت سے کرانا ممکن نہیں ہے۔

تو پھر کیوں براہ راست بذریعہ محکمہ بھرتی کی منظوری دی؟ لوکل گورنمنٹ بلوچستان میں 43 سب انجینئرز کی بھرتی کا اعلان تو خوش آئند ہے، جس سے صوبے کے بیروزگار انجینئر کو روزگار کے ساتھ ساتھ اپنے صوبے کی خدمت کا موقع ملے گا لیکن لوکل گورنمنٹ کے ذریعے براہ راست بھرتی نظام کے لئے نقصان دہ عمل ہے۔ جس نے ماضی میں بھی لوکل گورنمنٹ کو اچھے انجینئرز اور حقدار کو حق سے محروم رکھا۔ کیونکہ ماضی کی حکومتوں کو دیکھتے ہوئے اس سیاسی نظام میں سب انجینئرز کی بھرتی میرٹ پر ہونے کا یقین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی خیال کیا جاتا ہے، اور تاثر یہ ہے کہ تمام اضلاع کے ایم پی ایز کے لوگ ہی ان پوسٹوں پر تعینات ہوں گے۔

جبکہ پبلک سروس کمیشن میں یہ عمل خالصتاً میرٹ پر ہوگا۔ کیونکہ صوبے نے ان کو کوئی صفائی ستھرائی کے لئے نہیں بلکہ تعمیراتی عمل کے لئے تعینات کرنا ہے جنھوں نے مستقبل میں صوبے کے ترقیاتی عمل میں ایک کلیدی کردار ادا کرنا ہے اور ترقی کرنی ہے اگر یہ نائب قاصد یا جونیر کلرک کا عہدہ ہوتا تو محکمہ کے ذریعے تعیناتی کی بات سمجھ میں آتی اس پوسٹوں کی مارکیٹ میں بولی لگی گی جو زیادہ پیسے دے گا یہ سیٹ اس کی ہوگی

جو قابلیت کی بجائے پیسے کے ذریعے اس پوسٹ پر آئے گا تو وہ عوامی مفادات کی بجائے پیسے کو ترجیح نہ دے گا تو کس کو دے گا؟ انجینئرز کی ایک شکایت یہ بھی رہی ہے کہ وہ 18 سال تک تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں پندرہ سال تک تعلیم حاصل کرنے والے ڈپلومہ ہولڈرز کو اہمیت دی گئی ہے اور ڈپلومہ ہولڈر اکثر سفارشی ہوتے ہیں اور میرٹ پر ان کی تعیناتی نہیں کی جاتی۔ آپ کو جعلی سازوں کی مدد سے جعلی ڈپلومہ آسانی سے جبکہ جعلی ڈگری نسبتا مشکل ملتی ہے۔

انجینئرز دو شعبوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک ڈپلوما انجینئر ہے جو میٹرک کے بعد تین سال کا ڈپلوما کورس کرتا ہے جبکہ دو سال تک بی ٹیک کا کورس کرتا ہے اور یوں اس کی پڑھائی 15 سال مکمل ہوجاتی ہے جبکہ دوسرا انجینئر جو کہ ڈگری ہولڈر ہوتا ہے ڈگری ہولڈر انجینئر بننے کے لئے انجینئر کو ایف ایس سی کے بعد چار سال تک مسلسل انجینئرنگ کا کورس کرنا ہوتا ہے دو سال ایم ایس کرتا ہے اور یوں اس کے 18 تعیلمی سال انجینئر بننے میں لگ جاتے ہیں، ڈگری ہولڈرز انجینئرز کی بلوچستان میں ایک بڑی تعداد ایسی موجود ہے جو کہ پڑھے لکھے تو ہیں لیکن تعلق اور پوسٹ خریدنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی نان شبینہ کے محتاج ہیں، جس کی بنیادی وجہ حکومت کی غفلت اور غلط منصوبہ بندی ہے۔ اکثر انجینئرز نے انجینئرنگ کا شبعہ چھوڑ دیا ہے کوئی جی اے وی ٹیچر بن گیا ہے تو کوئی ایس ایس ٹی ٹیچر کوئی پولیو میں افسر لگ گیا ہے تو کسی نے غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر میڈیکل ریپ کے طور پر کام شروع کردیا ہے کسی نے پیسے ادھار لے کے اپنی ٹھیکیداری شروع کر دی ہے

بلوچستان میں سب سے زیادہ رقم جو پی ایس ڈی پی کے ذریعے خرچ کی جاتی ہے۔ تمام محمکوں میں سب انجینئرز کی بھرتی براہ راست پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائے تاکہ میرٹ پر سب انجینئرز محکموں کا حصہ بن جائیں، کیونکہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ان کو محکموں کی اہم پوسٹوں پر فائز ہونا ہے۔ میرٹ کا گلا گھونٹنے کے عادی لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ 1 سے 15 گریڈ کی بھرتی خالصتاً متعلقہ محکمہ کا اختیار ہے اس بات سے بالکل اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن ہم یہ بھرتی کسی نائب قاصد یا جونیئر کلرک کی نہیں کر رہے ہیں بلکہ سکول سے لے کے اسپتال تک روڈ سے لے کر نالی کی تعمیر تک کا کام مستقبل قریب میں ان انجنیئرز کے حصہ میں آئے گا۔ لیکن یہاں تو یہ بات کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے ترقی کرنا ہے انہوں نے چیف انجینئر تک جانا ہے اب دیگر محکمے ایک گریڈ سے 15 گریڈ تک جو لوگ لگاتے ہیں وہ تو زیادہ سے زیادہ 17 گریڈ تک بمشکل پہنچ جاتے ہیں۔ جبکہ ان انجینئرز نے ترقی کرنی ہے اور مستقبل میں اہم ذمہ داریاں سرانجام دینی ہیں اس لیے انجینیئرز کی بھرتی کو جونیئر کلرک کی بھرتی کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔

موجودہ وزیراعلی بلوچستان اصول پرست اور کام پر یقین رکھنے کے دعویدار ہیں، بلوچستان میں چونکہ ترقیاتی رقم ایک بڑی تعداد میں لوکل گورنمنٹ کے ذریعے خرچ کی جاتی ہے، انجینئرز کی آسامیاں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرنے کے احکامات جاری کریں تو یہ وزیراعلی کا ایک تاریخ ساز فیصلہ ہوگا اور اس سے اچھے اور پڑھے لکھے انجینئرز لوکل گورنمنٹ کا حصہ بنیں گے۔ جو کہ مستقبل میں احسن طریقے سے لوکل گورنمنٹ کو چلانے کی سکت رکھتے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).