عثمان بزدار کی سادگی اور ”حرکت تیز تر“ ماڈل


عثمان بزدار کو مبارک ہو۔ اپنے کپتان کی خواہش کے مطابق وہ ”وسیم اکرم پلس“ تو نہیں بن پائے مگر تحریک انصاف کے شدید ترین ناقد بھی ان سے ہمدردی محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اُڑاتی کلپس کی بھرمار سے اُکتاگئے ہیں۔ بزدار صاحب سے ہمدردی جتانے والے اب یاد دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ موصوف کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ترین علاقے سے ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے حکمران بن جانے کے بعد ان میں غرور نہیں آیا۔

اپنی سادگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سادگی کہیں سے بھی پرکاری نظر نہیں آتی۔ ”ممی ڈیڈی برگرز“ مگر شہری تعصب میں مبتلا ہوئے اس ”پینڈو“ کو طنز ومزاح کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اپنی بات بڑھانے سے قبل اعتراف کرتا ہوں کہ ذاتی طورپر میں بھی بزدار صاحب کی تضحیک مناسب نہیں سمجھتا۔ میری فکر تو یہ ہے کہ ان کی سادگی پر فوکس کرتے ہوئے ہم پنجاب کی سیاست کے حوالے سے کئی اہم ترین پہلو اور سوالات نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

میری دانست میں اہم ترین بات یہ جاننا ہے کہ عثمان بزدار سے ”اصل شکایت“ کیا ہے اور یہ کن لوگوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ ان لوگوں کی نشاندہی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذہن میں رکھیں کہ شہباز شریف 2008 ء سے 2018 ء تک مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے شہباز شریف کا رویہ اپنی جماعت کے ایم پی ایز کے ساتھ بہت دوستانہ نہیں تھا۔ ترقی اور گڈگورننس کا جو ماڈل انہوں نے متعارف کروایا اسے سیاست کے سنجیدہ طالب علم ٹاپ ڈاؤن ماڈل پکارتے ہیں۔

اس ماڈل پر عمل کرنے والا سیاست دان اپنے گرد بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کا ایک کور گروپ اکٹھا کرتا ہے۔ اس گروپ کی معاونت سے میٹروبس جیسے میگا پراجیکٹس بنائے جاتے ہیں۔ انڈر پاسز اور اوورہیڈ پلوں کے ذریعے شہروں کی ایک ”جدید“ تصویر بنائی جاتی ہے۔ یہ ماڈل ”حرکت تیز تر ہے۔ ۔ ۔ “ والی کیفیت 24 / 7 بنیادوں پر برقرار رکھتا ہے۔ ”حرکت تیز تر ہے۔ ۔ ۔ “ والی کیفیت نے گجرات سے ساہی وال تک پھیلے وسیع ترین وسطی پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کا ایک بہت ہی مضبوط ووٹ بینک تشکیل دیا ہے۔

نواز شریف کی نا اہلی اور شہباز شریف کی کرپشن الزامات کے تحت گرفتاری اس ووٹ کو متاثر نہیں کر پائی ہے۔ اسی باعث مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک کا قیام بہت دشوار نظر آرہا ہے۔ یہ بلاک قائم نہ ہوا تو پنجاب میں تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ (ق) جیسے اتحادیوں کی محتاج رہے گی۔ مستحکم نہ ہوپائے گی اور آئندہ انتخابات کے دوران اس کے ٹکٹ پر کھڑے امیدواروں کو اتنے ووٹ اور سیٹیں حاصل کرنا بھی دشوار تر ہوجائے گا جو اسے اگست 2018 ء میں میسر ہوئی تھیں۔

”مائنس نواز“ ہوجانے کے باوجود وسطی پنجاب میں ان کے نام سے منسوب جماعت کا ووٹ بینک اصل مسئلہ ہے جسے کمزور کرنے میں بزدار صاحب کوئی کردار نہیں ادا کر پائے۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ مذکورہ ووٹ بینک کو تحریک انصاف کی جانب راغب کرنے کے لئے چودھری سرور یا علیم خان کیا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان دونوں کو ہر حوالے سے ”فری ہینڈ“ میسر ہے۔ لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد کئی برس تک تحریک انصاف کی جاندار پہچان رہی ہیں۔

وہ ایک با اختیار وزیر صحت بھی ہیں۔ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مگر انہوں نے وسطی پنجاب میں صحت عامہ کی سہولتوں میں ”انقلابی“ تبدیلیاں نہیں دکھائیں۔ تحریک انصاف کے ہر حوالے سے مہربان کہلانے کے مستحق عزت مآب ثاقب نثار بھی ان سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے رخصت ہوئے۔ وسطی پنجاب کے لئے تحریک انصاف کی پہچان اب صوبائی وزیر اطلاعات وثقافت جناب ضیاض الحسن چوہان ہیں۔ وہ اپوزیشن پر تابڑتوڑ حملوں سے تحریک انصاف کی غصہ بھری بیس کو خوش رکھتے ہیں۔

تحریک انصاف کا پڑھے لکھے طبقات سے تعلق رکھنے والا حامی مگر خود کو ان سے آئیڈینٹفائی نہیں کرپاتا۔ ان کے سوا تحریک انصاف کے پیغام کو وسطی پنجاب میں پھیلاتا کوئی اور نظر نہیں آرہا۔ وسطی پنجاب میں نواز لیگ کے ووٹ بینک کو زک پہنچانا اصل ٹارگٹ ہے۔ عثمان بزدار کی حکومت یہ ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، وزیر آباد سے لے کر ساہی وال تک پنجاب میں سیاسی ماحول فی الوقت جامد ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

سیاست میں جمود مگر ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بیگانگی بڑھتی رہے تو بالآخر احتجاجی تحریکوں کی صورت پھوٹ پڑتی ہے۔ برطانوی سرکار نے پنجاب پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کے بعد ”یونینسٹ پارٹی“ کے ذریعے بڑے جاگیرداروں اور شہری ”شرفا“ کا ایک طبقہ ٹوڈیوں کی صورت جمع کیا تھا۔ نظر بظاہر اس جماعت نے کئی برس تک پنجاب میں ”جی حضوری“ والی فضا برقرار رکھی۔ اقبال مگر اسے ”خوئے غلامی“ کہلاتے ہوئے بلبلا اُٹھے۔

مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ اخبار لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے لگا۔ مجلس احرار نے مستقل احتجاج کی صورت بنادی۔ احتجاج کی اس روایت کی بنا پر ہی قیام پاکستان کے صرف چھ سال بعد لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا تھا۔ 1953 ء کے بعد والے سالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم 70 ء کی دہائی میں آجائیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 ء تک پنجاب میں ”استحکام“ کی فضا برقراررکھی۔ اس برس ہوئے انتخابات کے بعد بنیادی طورپر وسطی پنجاب کے شہروں ہی سے ”دھاندلی“ کے خلاف ایک تحریک اُبھری جس کے نتیجے میں مارشل لاء لگانا پڑا۔

اس مارشل لاء کی طوالت کا اصل سبب یہ تھا کہ وسطی پنجاب کے لاہور، گوجرانوالہ اور وزیر آباد جیسے شہروں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری حضرات مطمئن تھے۔ خلیجی ممالک میں گئے پنجابیوں کی بھیجی رقوم سے اپ ورڈ موبائلٹی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ پراپرٹی کا دھندا عروج کو پہنچا۔ نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہوکر کسی زمانے میں ”کمی“ کہلاتے گھرانے خوش حال متوسط طبقے کی صورت اختیار کرنے لگے۔

نواز شریف اور ان کی جماعت کی کور کانسٹی ٹیونسی مذکورہ بالا طبقات تھے۔ تحریک انصاف اس کانسٹی ٹیونسی میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے اور بنیادی وجہ اس کی عثمان بزدار نہیں اسد عمر کی متعارف کردہ اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ روزگار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کاروباری طبقے نے مختلف النوع وجوہات کی بنا پر نئی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔

عثمان بزدار کی جگہ کوئی اور شخص بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جائے تو وفاقی حکومت کی موجودہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے لاہور، وزیر آباد، سیالکوٹ وغیرہ میں ”رونق“ لگی نظر نہیں آئے گی۔ یہ رونق طویل عرصے تک معدوم نظر آئی تو کسی نہ کسی نوعیت کی احتجاجی تحریک پھوٹ پڑے گی۔ جس سے نبردآزما ہونا تحریک انصاف کے لئے تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ انگریزی محاورے کے مطابق اصل مسئلہ ”It is the Economy Stupid“ کا ہے۔ عثمان بزدار کی سادگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).