گھریلو ملازمہ پر تشدد


وطنِ عزیز سے آئے دن ایک سے ایک لرزہ خیر وارداتوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ پہلے تو یہ زیادہ تر مردوں کی بربریت کے حوالے سے ہوا کرتھیں اب اس خواتین بھی مقابلے پر حصہ ڈالنے لگی ہیں۔ عورت تو محبت کا استعارہ ہے۔ ممتا عورت کا اعزاز اور فخر ہے۔

ابھی ابھی ایک اتنی بھیانک خبر پڑھی ہے کہ سکتے میں ہوں۔ لاہور اقبال ٹاؤن میں ایک سولہ سالہ گھریلو ملازمہ جس کا نام عظمیٰ تھا، اس کو صرف ا س لیے مار مار کر ادھ موا کردیا گیا کہ ا س نے گھر والوں کی بچے کی پلیٹ سے ایک نوالہ لے لیا تھا۔ تشدد اتنا زیادہ تھا کہ بچی جانبر نہ ہو سکی تو اس کو ایک بوری میں ڈال کر بلی کی طرح گندے نالے میں پھنکوا دیا۔ کسی والدین کی لخت جگر کا یہ حشر بلکہ اپنے سفاکیت کو ڈاھنپنے کے لیے الٹا اس پر گھر سے چوری کر بھاگ جانے کا لزام لگا دیا۔ اور یہ سب کرتے ہوئے ان کا ذرا دل نہ کانپا۔

حیرت ہوتی ہے کہ اچھی خاصی عمر کی خواتین کو ا س بچی میں اپنے بچوں کی جھلک نظر نہی آ ئی؟ یہ لوگ جو حب نبویؐ اور سچے عاشق رسول بنتے ہیں کیا نہیں جانتے کہ بھوک میں روٹی چرا لینے کی بھی سزا نہیں ہوتی۔ یہ ایک اضطراری فعل ہے۔ کیا کھا کھا کر پھِٹی ہوئی ان موٹی خواتین کو معلوم بھی ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے؟ کیا پتہ کہ اُس بے چاری کوکام کر کر کے بھوک لگ گئی ہو۔ اور اس کو یقین ہو کہ یہ لوگ مانگنے پر بھی نہیں دیں گے۔

اگر بفرضِ محال اس نے بلا وجہ بھی ایک نوالہ لے لیا ہو تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ا س بچی کا بھی وہی چیز کھانے کو جی چاہ رہاتھا؟ فرمانِ نبوی ؐ ہے کہ جب تم کوئی چیز کھاؤ تو نوکر کو اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلا سکتے تو کم ا زکم اس کو بھی وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو۔ مگر ان فرعونیت کے علمبرداروں کو سنت نبویؐ سے کیا تعلق؟

وہ کام کرنے والی بچی اگر ضرورتمند نہ ہوتی تو ان جیسے کم ظرفوں کے ہاں کام کیوں کرتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھرانہ اخلاقی طور پر دیوالیہ تھا۔ کیا ایک غریب کی حیثیت ان کے لیے کتے بلی سے زیادہ نہیں تھی؟

خوبصورت اور زندگی سے بھرپور بچی جو زندہ رہنے کے وسائل تلاش کرنے ان کے گھر آئی تھی ان ظالموں نے اس کو موت کا پروانہ جاری کردیا۔ تھوڑی سی رقم کے عوض اس کی زندگی موت کے مالک بن گئے۔ خدا کی مارا ور پھٹکارا ور نحوست اب ان کا خاندان نہیں چھوڑے گی۔ یہ جو بھی کر لیں مکافاتِ عمل سے نہیں بچ پائیں گے۔ کئی پشتوں تک لوگ یاد رکھیں گے کہ ان کا خاندان کیسا جلّاد ہے۔ ان کواپنے بچوں کے رشتے ڈھونڈنے مشکل ہو جائیں گے۔

یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ لڑکی کے خاندان پر دباؤ دال کر ڈرا دھمکا کر کیس ڈسمس کرو الیں۔ لیکن اب یہ کیس میڈیا میں طشت از بام ہو چکا ہے۔ واپسی ممکن نہیں۔ ان تین حرافاؤں کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی۔ ان کو ابھی تک اپنی بربریت کا اندازہ نہیں اور نہ ہی ان کو اس غریب کے غم سے ہلکان والدین کی ہی کچھ فکر ہے۔ ضمیر تو مر ہی چکے ہیں ان کے۔ اللہ کرے ان کو ایسی سزا ملے کہ ان جیسی دوسری خون آشام بلاؤں کو بھی کان ہو جائیں۔ اللہ کرے کہ اس بچی کی والدین کو بھرپور انصاف ملے۔ ہرجانہ بھی اور ان کی بیٹی کے مجرموں کو قرا واقعی سزا بھی۔ آمین

حیرت اور غم و غصے سے یہ حالت ہے کہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انسان کیا کرے کس سے کہے کیا لکھے۔ سوچتی ہوں کہ انسان کی بے حسی رعونت اور غصہ اگر مل جائیں تو کیا کیا چاند چڑھاتے ہیں۔ الامان قیامت ہے۔ ان بے عقل بے ضمیر اور جلاد صفت خواتین نے ا س بچی کو ہی نہیں مارا اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بھی تباہ کر لیا ہے۔ اب کبھی ان کی زندگی پہلے جیسی نہیں ہو گی۔ یہ زندہ رہیں گی تو ہر طرف سے نفرت کا نشانہ بنیں گی۔

ان کو ڈائینیں اور چڑیلیں کہا جائے گا۔ اگر ان کو خدا کا خوف ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ اللہ جانے ان کے کون سے گناہ ان کے سامنے آئے ہیں۔ سچ ہے کہ اللہ سے ڈر نے کی بہت ضرورت ہے۔ ورنہ انسان کو شیطان بننے میں دیر نہیں لگتی۔ خدا سب کو اپنی پناہ میں رہے۔ آمین اور اس بچی کے والدین کو انصاف دلائے۔ اب جب ان کا پول کھل ہی گیا ہے تو اپنی غلطی پہ ندامت دکھائیں ا ور مزید گھٹیا پن نہ دکھائیں تو بہتر ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).