پولیس کو پیسے کھلائیں اور جی بھر پتنگیں اڑائیں


چند روز قبل ٹیرس پر بیٹھی دھوپ اور چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ پڑوس میں ہونے والی غیر روایتی دستک نے چونکا کر رکھ دیا۔ دستک کیا تھی غضب اور بد تہذیبی کی ایک لہر تھی جو چند سیکنڈز کے وقفے کے بعد پے در پے دروازے کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے تھی۔ بہت کوشش کی کہ درگزر کر کے بیٹھی رہوں مگر گلی میں ہونے والی غیر معمولی بھاگم بھاگ، بچوں کے شور، دروازہ کھولو بچے کو باہر نکالو وغیرہ کی آوازوں نے مجبور کر دیا کہ اٹھ کر گلی میں جھانکوں کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ دیکھتی کیا ہوں کہ گلی میں چند پولیس والے کھڑے ہیں۔ جن سے ہماری ہمسائی اپنے ٹیرس میں کھڑے ہو کر بات کر رہی ہیں بلکہ صفائیاں دے رہی ہیں کہنا زیادہ مناسب رہے گا۔ معاملہ سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ پولیس پتنگ بازوں کے خلاف بھرپور ایکشن کے موڈ میں ہے لیکن آنٹی ہیں کہ اپنے لال کو ان کے سامنے پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔

پولیس اہلکار تقریباً آدھا گھنٹہ کھڑے بحث کرتے رہے، بچے کے بھائیوں نے پولیس کو قائل کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہی۔ آنٹی کا موقف تھا کہ بچہ پتنگ نہیں اڑا رہا تھا وہ تو کٹ کر آئی پتنگ پکڑ بیٹھا مگر جب انہوں نے بچے کو سمجھایا کہ آج کل بہت سختی ہے تو وہ باز آ گیا مگر پولیس اہلکار کہتے تھے کسے ماموں بنانے کی کوشش کر رہی ہیں؟ ہم نے اس کی پتنگ بازی کرنے کی پورے دو تین منٹ کی فلم بنائی ہے دروازہ کھولیں ورنہ پرچہ کاٹ دیں گے۔ خیر ہوا یوں کہ ان کے شوہر آئے جن کے ساتھ کوئی اور آدمی بھی تھا اسی گھر کا دروازہ بھی کھل گیا، اسی گھر کی بیٹھک میں براجمان بھی ہو گئے، اور چند منٹوں کے بعد چل بھی دیے۔ بچہ بھی وہیں کا وہیں رہ گیا اور قانون کے ویڈیو ثبوت بھی۔

تھوڑی تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ آج کل علاقے کے تقریباً سب ہی پولیس اہلکار باقی تمام جرم بھول کر ننھے پتنگ بازوں کے درپے ہیں۔ گلی محلوں میں گشت بھی برابر چل رہا ہے۔ اہلکار کسی کے بھی گھر میں گھس کر مناسب اینگل سے ملزمان کی دو تین منٹ کی فوٹیج بناتے ہیں اور پھر بچے کو جا دبوچتے ہیں، ایسے میں اہلکار کہیں نہ کہیں والدین سے بارگین کرتے نظر آنا معمول بن چکا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پچھلے دور حکومت میں تقریباً ختم ہو چکا تھا مگر حکومت کے نامناسب اعلان نے اس میں نئی جان ڈال دی۔ حکومت کی جانب سے بسنت منانے کا اعلان ہوا تو مجموعی طور پر لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، پہلے تو وہ تھے جو اس اقدام کو غیر محفوظ اور غیر اہم گردانتے تھے۔ ایسے لوگوں کا ماننا تھا کہ بسنت کی کوئی ضرورت نہیں اس سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ببسنت کا حامی تھا یا وہ چاہتا تھا کہ حکومت محفوظ بسنت منانے کے انتظامات کرے۔

ایسے لوگ جو پتنگ بنانے میں مشاق تھے انہوں نے حکومتی اعلان کے پیش نظر بزنس کی غرض سے پتنگ بنانا شروع کر دیں۔ کیونکہ حکومت نے پابندی ہٹائی تو یہ ایک جائز پیشہ بن گیا۔ فیصلے کو تو حکومت نے بروقت واپس لے لیا مگر وہ پتنگیں جو بن چکیں تھیں کیسے واپس ہوتیں؟ لوگوں نے اپنا لگا سرمایہ حلال کرنے کے لیے پابندی کے باوجود چھپ چھپا کر پتنگیں بیچنا شروع کر دیں ہیں۔ نتیجتاً پولیس اور بچوں میں آنکھ مچولی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ یہ بات باعث حیرت ہے کہ جس قدر پولیس سرگرم نظر آ رہی ہے پتنگ بازی تو ہونی ہی نہیں چاہیے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ دن میں کسی بھی وقت آسمان پر نظر دوڑائیں دنگ برنگ پتنگیں آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز ہی ملیں گیں۔

آج شام کسی غرض سے چھت پر جانا ہوا تو وہی موصوف جن کی پتنگ بازی کے سبب چند روز قبل محلے میں شور و غل بپا تھا دوبارہ بڑے انہماک سے پتنگ بازی کرتے ملے۔ میں نے تنبیہ کی کہ تم پھر شروع ہو گئے بھول گئے ہو چند دن پہلے کیا ہوا تھا؟ موصوف کے لبوں پر عجیب فاتحانہ سی مسکراہٹ ابھری اور گویا ہوئے آپ جانتی ہیں اس دن پولیس والے انکل جتنے پیسے لے کر گئے تھے اس سے زیادہ تو ابھی بھی میری جیب میں جمع پڑے ہوئے ہیں اب کی بار پولیس آئی تو میں خود معاملات طے کر لوں گا ابو کو نہیں پتا لگنے دوں گا، پچھلی بار بھی فضول میں ڈانٹ پڑ گئی تھی اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).