گندے نالے میں تیرتی انسانیت


میں لفظوں کی تمہید کیسے باندھوں۔ کم سن عظمیٰ کا چہرہ میری نظروں سے ہٹ نہیں رہا۔ اس کی نیل و نیل آنکھ الجھے بکھرے بال پچکا ہوا چہرہ سوجن زدہ ہونٹ اس کی بے بسی چیخ چیخ کے بتا رہی ہے کہ اس کے ساتھ کیا جانے والا سلوک کس قدر اندوناک تھا۔ کس بے دردی سے اسے مارا گیا ہو گا۔ کتنے دن درد سے تڑپتی رہی ہو گی۔ کیسے سسکتی رہی ہو گی۔ جب رسی ڈال کر کھنچا گیا ہو گا کتنا پھڑکتی رہی ہو گی۔ ماں کو تو پکارا ہو گا۔ یہ سوال پچھلی تین راتوں سے مجھے سونے نہیں دے رہے۔

عظمیٰ کا جرم بھی تو دیکھیں آپ کتنا بڑا تھا۔ مالکن کے کھانے سے نوالہ ہی لے لیا۔ غریب کی ہمت تو دیکھو یہ سلوک تو ہونا چاہیے تھا۔ عورت کے خمیر میں تو خالق کائنات نے رحم اور شفقت کا جذبہ تھوڑا زیادہ رکھا ہے۔ کیسے بے رحمی سے برتنوں سے وار کر کے اسے اذیت دیتی رہیں۔ گا ڑی میں لاش ڈالے سڑکوں پر گھومتی رہیں۔ برگر کھاتی رہیں۔ موقع ملتے ہی لاش ٹھکانے لگائی چلو پاکستان سے ایک غریب تو ختم ہوا۔ چالاکی تو دیکھو پھر ایف آئی آر بھی کٹوائی۔

یہ تو بھلا ہو نالے کا جس نے راز اگل کر باہر پھینک دیا۔ مجبور والدین جب اپنی بچیوں کو بڑے گھروں میں کام کے لیے بھجتے ہیں تو پلٹ کر خبر لینا کیوں بھول جاتے ہیں۔ آنے جانے کا کرایہ بچ رہا ہے فون پر بات ہو رہی ہے بس۔ انجام تو پھر یہی ہونا ہے نا۔ کبھی عظمیٰ باتھ روم کے ٹھنڈے فرش پر تڑپ تڑپ کر جان دے رہی ہے۔ تو کبھی کوئی طیبہ عدل کے اونچے منصبوں پر فائز فرعونوں کے ہاتھوں پٹ رہی ہے۔ اخلاقیا ت کا جنازہ نکل چکا ہے۔

انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ بے حسی ہم پر طاری ہو رہی ہے۔ زمین گناہوں سے بھر رہی ہے۔ ہر با اختیار اپنی ذات میں خدا بنا بیٹھا ہے۔ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس اند ہیر نگری میں مظلوم مزید ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ ظالم کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ غریب کے بچے مر رہے ہیں۔ چلو ملک سے کچھ تو غربت کام ہو گی ایسے۔ ہر روز ایکنئی قیامت برپا ہو رہی ہے۔ انسان احسن تقویم سے اسفل سافلین کا سفر بڑی تیزی سے طے کر رہا ہے۔

اپنے مقام سے گرتا جا رہا ہے۔ رحم برداشت ہم میں سے ختم ہو رہی ہے۔ ہم اذ یت پسند بنتے جا ریے ہے۔ ۔ جانوروں کی طرح لڑنے والے۔ جس طرح کتے ہڈی کے لیے لڑتے ہیں اسی طرح گوشت کی اک بوٹی کے لیے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ہم برائی سے حظ اٹھانے والے بنتے جا رہے ہیں۔ دوسروں کے غم کو انجواے کرنے والے۔ میسنی ہنسی ہستے ہیں۔ اخلاقیات سے عاری بے حس قوم بنتے جا رہے ہے۔ یا پھر صم بکم ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).