ڈاکٹر نائلہ علی خان کا آکسفورڈ اسلامک سٹڈیز کی ڈی لانگ باس کے ساتھ انٹرویو


اُس وقت انڈین نیشنل کانگریس نے اس طرح کے فیصلے لینے میں شیخ صاحب کا ساتھ دیا، لیکن اُس پار جاگیردار پرور نظام میں ایسا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ کے کٹر ترین سیاسی حریف بھی اس حقیقت سے منکر نہیں ہیں کہ کشمیر کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کا خالق وہی ایک رہنما تھا۔ 1947 ء میں الحاق کا معاملہ سامنے آتے وقت کشمیر مسلے کو ریفرنڈم کے ذریعہ حتمی طور طے کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن بھارت سرکار اپنے اس وعدے سے منحرف ہو گئی۔

 شیخ صاحب کو ریاست کی اٹانومی کے حق میں آواز بلند کرنے کی پاداش میں قید کیا گیا اور 1972 ء تک ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں منتقل کیا جاتا رہا۔ اُن کی غیر حاضری میں میری نانی بیگم اکبرجہاں کو ظلم وجبر کے اُس ماحول میں اپنے پانچ کمسن بچوں کی پرورش کرنے کے علاوہ کشمیری سماج کو نامی گرامی رہنما شیخ محمد عبداللہ کی بلندوبالا سیاسی، سماجی شخصیت کے ساتھ جوڑے رکھنے کی ذمہ داری بھی نبھانا پڑی۔

1975 ء میں طویل قیدوبند اور جلاوطنی کے بعد شیخ صاحب کی ایک نئی دنیا میں واپسی ہوئی۔ بھارت کی فوجی برتری کے نتیجے میں بر صغیر کی جغرافیائی پوزیشن تبدیل ہو چکی تھی۔ اب اقوام عالم کی سیاسی و سفارتی ترجیحات میں بھی تبدیلی رونما ہونے لگی تھی۔ پاکستان کے ساتھ جنگ میں فتح پانے کے نتیجے میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی لیڈرشپ کا سکہ چل پڑا تھا اور اُنہوں نے جموں کشمیر میں رائے شماری کی آواز کو دبانے کے لئے اپنا لہجہ سخت تر کر دیا تھا۔

یہاں تک کہ 42 فروری 1975 ء کو پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے جموں کشمیر کے لئے 1953 ء کی آئینی پوزیشن کی بحالی کے مطالبے کو بھی مسترد کردیا تھا۔ کچھ لوگ شیخ صاحب کی قومی دھارا میں واپسی کو اُن کی سیاسی خود کُشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور کشمیر کے ساتھ شیخ محمد عبداللہ کی وابستگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اور بدلے حالات میں اُن کی سیاست میں واپسی واحد مناسب اقدام تھا۔

بیگم اکبر جہاں

مخصوص سیاسی و علاقائی مناسبت سے خواتین کی خود اختیاری حقوق کے لئے بیگم اکبر جہاں کی کاوشوں کے بارے میں ڈی لانگ باس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ میری نانی نے اس میدان میں جتنا کام کیا ہے، تاریخ میں تفصیلی طور وہ سب درج نہیں کیا جا سکا۔ اُنہوں نے سماج کو جتنا سہارا دیا ہے، اور تلاطم خیز حالات میں حاشیہ پر بیٹھی اور بے وسیلہ عورتوں کی جس طرح سے دلجوئی کی ہے، تاریخ میں وہ درج نہیں کیا جا سکا۔ صدیوں سے جو خواتین رفاہ عامہ کے کام انجام دیتی آئی ہیں، نادار لوگوں کی خدمت کرتی رہی ہیں، آبادیوں کا حوصلہ بڑھاتی رہی ہیں، مفلسوں کے لئے خوراک مہیا کرتی آئی ہیں اور جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد سماج کی تعمیر نو میں حصہ دار بنتی رہی ہیں، تاریخ نے اُن سب کو بھی بیگم اکبر جہاں کی طرح یاد نہیں کیا ہے۔

خود میرے لئے بیگم اکبر جہاں کے مخصوص کام کے بارے میں لکھنا آسان نہ تھا کیونکہ جن دنوں وہ اہم سیاسی و سماجی شخصیت شیخ محمد عبداللہ کی سیاست اور ارادوں کو پختہ بنانے کے لئے ہمہ تن مصروف عمل تھی اور اپنے شریک حیات کے خوابوں کو کشمیری اور گوجر خواتین کی خود اختیاری میں اضافہ کرنے کے کام میں لگی تھی، اُ س وقت میں ایک چھوٹی بچی تھی۔ مانا کہ اکبر جہاں کا تعلق ایک دولت مند اور ریئس خاندان سے تھا اور ایسے سماج میں خواتین کو تنہائی اور پردے میں رکھنا خاندانی پہچان سمجھی جاتی تھی، لیکن اُنہوں نے سیکورٹی اور مراعات جیسی بیساکھیوں پر جینے کی عادت ترک کرنے کے باوجود عورت ذات کے لئے وضع پردے کی اہمیت کو باعث حوصلہ قرار دیا۔

میں اکبر جہاں کے بارے میں معتبر اور روایتی ذرائع سے جو بھی اطلاعات حاصل کر سکی، وہ سب سماجی، قانونی، اقتصادی میدان میں جموں کشمیر کی خواتین کا رتبہ بڑھانے کے کام میں اُن کی نزدیکی وابستگی کا آئینہ دار ہے۔ وہ خواتین کی تعلیم کو عام کرنے کے لئے ان تھک کام کرتی رہی۔ وہ تبھی جانتی تھی کہ مستقبل قریب کے متحرک اور جدید سائینسی دور میں نظرانداز ہوئی خواتین اور ان پڑھ بچیوں کو زندہ رہنے کے لئے شاید ہی کوئی جگہ مل پاتی۔ اکبر جہاں گورنر جنرل آف انڈیا کی اہلیہ لیڈی ماونٹ بیٹن کے ساتھ بھی کام کرتی رہی اور دونوں نے مل کر کئی ایسی خواتین کو برآمد کرنے اور اُن کی بحالی کے لئے راستہ ہموار کرنے میں مثالی کردار کیا، جن کو برصغیر کی تقسیم کے خونین دور میں طاقت کے بل پر اپنے خاندانوں سے جدا کیا گیا تھا۔

میری ماں ثریا اور خالہ خالدہ کا کہنا ہے کہ اکبر جہاں نے برصغیر کے بٹوارے کے دوران فرقہ پرست ظلم و ستم کی شکار بنائی گئی خواتین کی عزت و ناموس کی بحالی کے کام میں اپنے دن رات ایک کر دیے تھے۔ 1948 ء میں اکبر جہاں کی ہدایات پر بنائی گئی اُن ریلیف کمیٹیوں کا بہت کم ذکر کیا گیا ہے، جو ایک سال قبل سے جاری بدنظمی کے پیدا کردہ اقتصادی نقصانات کو پورا کر نے کے لئے کام کر رہی تھیں۔ فروری 1947 ء میں ریاست خاص کر سرینگر شہر میں قحط جیسے حالات پیدا ہو گئے تھے۔ اکبر جہاں کی صدارت میں فوڈ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لانے کے نتیجے میں لوگوں کو بہت حد تک راحت پہنچائی جا سکی تھی۔ ا

انہوں نے مرکز بہبودی خواتین انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جہاں سے خواتین کو علم کے نور سے منور کرنے، دستکاریوں، صحت عامہ اور سوشل سیکورٹی معاملات میں ہنر یافتہ بنانے اور اُن کو برسرروزگار کرنے جیسی اہم ذمہ داریاں انجام دی جا رہی ہیں۔ میں اپنی ایک اور کتاب میں اکبر جہاں کی سماجی اور سیاسی زندگی پر تفصیلی طور تحریر کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ اکبر جہاں کی خدمات کے نتیجے میں اسلام اور عورت سے متعلق مغرب میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا توڑ کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan