آپ اگر صحیح ہیں


ہم خوش قسمت لوگ ہیں اور اس کی بنیادی وجوہات ڈھونڈنے کے لئے ہمیں حضرت داؤدعلیہ السلام سے لے کر آج تک کی انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہم جب یہ مطالعہ کریں گے تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ جنگوں، وارداتوں ایک دوسرے پر حملوں، اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی پالیسیوں سے نقصان انسانوں ہی کا ہوا ہے۔ اس تاریخ میں جب پیچھے کی طرف نظریں پڑ جاتی ہیں تو خون آلُود جسموں، بھاگتے اور ہنہناتے گھوڑوں، ٹوٹی پوٹی تلواروں، زہر آلُود تیروں اور گلے سڑے لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آتا ہے۔ یہ جنگیں کیوں لڑی گئیں اور ان جنگوں کا آخری نتیجہ کتنا دیرپا رہا یہ طے کرنا مشکل بھی ہے اور ناممکن بھی لیکن ایک بات طے ہے کہ ان جنگوں میں زیادہ تر کا مقصد اقتدار کا حصول ہی رہا۔

انسانوں نے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں سے بھی کم تر سلوک کیا اور پھر اقتدار کے حصول کے بعد وہ یہ بھول گئے کہ جس ہُما کو بزور شمشیر خود اپنی سروں پر انہوں نے بھٹایا اس کا کچھ پاس بھی رکھنا ہوگا اور اسی بُھول کی وجہ سے زیادہ تر ریاستیں جنگوں کے بعد ناکام رہی۔ جنگیں تا قیامت جاری رہیں گی اور جنگوں کا فائدہ اگر ایک ہو تو نقصانات بے شمار ہیں۔

ان جنگوں میں نقصانات بہت زیادہ ہوئے ہیں لیکن ایک ایسی ریاست کی تشکیل جس میں انسانوں کے ساتھ انسانیت کے تقاضوں کے عین مطابق سلوک کیا گیا ہو بہت کم قیام میں لائے گئے ہیں۔ ایسی ریاستیں اگر قیام میں لائی بھی گئی ہیں تو اس کے پیچھے بنیادی وجہ حکمرانوں کی انداز زندگی رہی جس میں سادگی، خود احتسابی، فکر آخرت اور اللہ کا خوف کھوٹ کھوٹ کر موجود رہا۔ ان ریاستوں میں ”ریاست مدینہ“ وہ واحد ریاست تھی جس کی خاطر اگر جنگ لڑی بھی گئی تھی تو وہ ایسی جنگ تھی جس میں انسانوں نے ایک خاص حد سے تجاوز نہیں کیا بلکہ جنگ کے عین دوران صلہ رحمی اور محبت کے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ رہتی دنیا تک تاریخ خود بھی حیران رہے گی اور وہ فتین اذہان بھی جنہوں نے علم و تحقیق کے لئے ایک پوری عمر گزاری۔ وہ صحیح لوگ تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے جو کہا وہ کر دکھایا اور ان کی سیاسی اور ریاستی زندگی میں ایک دن ایسا بھی آیا تھا کہ حکمران وقت زکوٰۃ لینے والے لوگوں کو شہر شہرڈھونڈتا رہا لیکن زکوٰۃ لینے والوں کا ملنا محال تھا۔

وہ صحیح لوگ تھے کیونکہ انہوں نے خود انصاف کا بول بالا کیا اور زندگی کی بنیادی ضروریات لوگوں کو اُن کی دہلیز تک کچھ اس رفتار سے پہنچادی کہ ضرورت مند خود حیران رہے۔

تلواروں کے ٹکراؤ اور تیروں کی بارش کے بعد وہ کون سی طاقت تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں نے ایک ایسی ریاست کی تشکیل ممکن بنائی جس میں ہر طرف امن اور محبت ہی تھی جس کی وجہ سے زندگی گزارنا صرف ایک فارمیلٹی نہیں تھی بلکہ انسانوں کا اپنا حق اور شوق تھا۔ وہ اتنے صحیح لوگ تھے کہ اُن کی ریاست میں کتّا بھی بھوکا نہیں رہا اور ظلم کا نام و نشان اس حد تک مٹادیا گیا تھا کہ جانور بھی امن و محبت سے رہا کرتے تھے۔

ہم اگر بنیادی فرق ڈھونڈ نکالیں تو ہم خود کو خوش قسمت ضرور ٹھہرائیں گے کیونکہ ہمارے دور میں اُس قسم کے جنگ اور خون ریزیاں نہیں ہیں اور ہمارا اپنا ایک ملک ہے جس کی اپنی سرحدیں ہیں اور سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہماری فوج دنیا کی سب سے بہترین فوج ہے۔ ان ساری خوش قسمتیوں کے باوجود وہ کون سی بدقسمتی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے عوام خود کو ہر وقت ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے میدان جنگ میں بے لگام گھوڑوں سے خود کو بچاتے ہوئے شکست خوردہ سپاہی۔

جنگ اگر نہیں ہے اور لاشیں اگر نہیں گر رہی تو اس کا مطلنب یہ ہوا کہ ہمیں زمین کا وہ ٹکڑا دستیاب ہے جس کی لئے ماضی میں انسانوں نے بے تحاشا ایک دوسرے کا خون بہایا۔ یہ شاید سیاست اور مفادات کا گندہ ترین کھیل ہے جو جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور جس کی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کو اپنا ہر کام صحیح لگ رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں اور جب تک یہ غلط فہمی ختم نہیں ہوگی کہ ”آپ ہی صحیح ہیں“ تب تک تغّیر بالکل صرف کہانیوں تک ہی محدود رہے گا۔

آپ اگر صحیح ہیں تو کیا تاریخ کے وہ لوگ جنہوں نے ایک فلاحی ریاست کے لئے اپنی پوری زندگیاں داؤ پر لگائی تھی غلط تھے؟ فرق کہاں ہے آپ میں اور اُن میں۔ آپ اگر صحیح ہیں تو کیوں بھرے ہجوم میں نہتے لوگوں پر گولیاں چل جاتی ہیں اور پھر بجائے اس کے کہ ریاست خلیفہ دوم کی طرح خود کو جواب دہ ٹہرائے حقیقت سے بھاگ جاتی ہے۔

آپ اگر صحیح ہیں تو دن بہ دن کیوں جنگوں کے بغیر ہی عوام کی زندگی اجیرن بنتی جارہی ہے۔ آپ کو پتہ ہے پاکستان میں نوجوانوں کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی آپ کے نوجوان ہر وقت خود کو حالت جنگ میں محسوس کررہے ہیں۔

آپ کی زندگی میں جنگ اور لاشوں کے ڈھیر نہیں ہیں تو پھر کیوں ہر طرف جنگ کا سماں ہے۔ آپ اگر صحیح ہیں تو کسی دن عام آدمی بن کر ایک عام سی شاہراہ پر نکل کر دیکھ لیجیے تو آپ کو معلوم پڑے گا کہ آپ ہی ہیں جو غلط ہیں۔ آپ کو اگر اس کے بعد بھی خود اپنی ہر چیز صحیح لگے تو عام آدمی بن کر ایک دو چکر اس ملک کے کسی سرکاری ہسپتال کا لگا لیں اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ کس طرح غریب سسک سسک کر اپنی زندگی کی بھیک مانگتا پھر رہا ہے۔

آپ اگر صحیح ہیں تو ایک دن بھیس بدل کر اس ملک کے کورٹ کچہری کا بھی چکر لگالیں تاکہ آپ کو پتہ چل جائے کہ آپ ہی کے ملک میں کس طرح انصاف ظالم کی دہلیز پر دم توڑ رہا ہے۔ آپ اگر پھر بھی خود کو صحیح سمجھنے سے باز نہ آئے تو کسی غریب کے گھر کے کھلے آنگن میں بیٹھ جائیں اور وہاں گلے سڑے دیواروں اور میلے کُچیلے بچّوں کی مسکراہٹوں سے خالی چہروں کو دیکھ لیجیے۔ آپ اگر خود کو یہاں بھی صحیح سمجھ لیں تو اُس گھر کا ایک نظارہ کیجیئے جس گھر کے مکین برسوں سے غائب ہیں اور وہاں پر جوان دوپٹے اور ضعیف و کمزور ہڈیاں ہر وقت دروازے کے ساتھ لٹکتے زنجیر کی حرکت سن کر دھڑادھڑ دروزے کی طرف بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔

آپ یہاں بھی اگر خود کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ آپ ہی صحیح ہیں تو خود کش دھماکوں میں مرحومین کے رشتہ داروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی محرومی سے بھرے سوالات کے جوابات دیجیئے۔ آپ اگر واقعی خود کو صحیح سمجھتے ہیں تو کسی دن خود کو اور اپنے بچّوں کو دو دن کے لئے بھوکا رکھیئے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ صحیح نہیں ہیں اور جس دن آپ یہ مان لیں گے کہ آپ صحیح حقیقیت میں نہیں ہیں اُسی دن سے یہ ملک، اس ملک کے عوام اور پوری دنیا مان جائیں گے کہ آپ ہی صحیح ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).