مسیحا کی تلاش اور ہم عوام


ہم برصغیر پاک و ہند کے عوام کے ڈی این اے میں ایک عنصر بقدرِ اضافی پایا جاتا ہے اور وہ ہے مرعوبیت کا۔ ہم بہت جلد کسی سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس خطے میں کوئی بھی چورن بیچنا بہت آسان ہے۔ مثلاً کوئی جمہوریت بیچتا ہے تو ہم خرید لیتے ہیں، کوئی اسلامی نظام بیچتا ہے تو ہم خرید لیتے ہیں، کوئی طالع آزما مسیحا بن کر آتا ہے تو ہم مرعوب ہو جاتے ہیں، کوئی صحت اور شادی سے لے کر کاروبار تک میں بہتری کا ایک ہی مجرب تعویذ بیچتا ہے تو ہم جمع پونجی سمیٹ کر خرید لیتے ہیں۔ کوئی منصف اپنے مسخرے پن سے اچھا لگنے لگتا ہے تو کسی نام نہاد سائنسدان کو ہم محسن بھی مان لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی جوکر پانی سے گاڑی چلانے کا تجربہ بھی کرے تو ہمارے پڑھے لکھے دانشور اور پارلیمانی نمائندے تک اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ کتنے بھولے ہیں ہم؟

کوئی افغانستان سے لٹیرا اٹھ کر آئے تو ہم دیدہ و دل فرشِ راہ کئیے دیتے ہیں۔ کوئی ایران سے آ کر ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دے تو بج جانے والے اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ کوئی وسطی ایشیائی شہزادہ جان بچانے کو بھی ادھر دوڑا چلا آئے تو ہم اسے تختِ دہلی پر بٹھا کر ہی دم لیتے ہیں، پھر وہ چاہے نسل در نسل حکومت کرے۔ مزید برآں کے طور پر ان لٹیروں کی حکومت کو اسلامی حکومت کا نام بھی دیتے ہیں۔ کسی کو نہ یقین آئے تو محمود غزنوی، محمد شاہ تغلق سے لے کر ظہیر الدین بابر تک کے کارنامے پڑھ لے۔

ان میں سے کون اس دھرتی کا سپوت تھا؟ لے دے کر ایک ٹیپو سلطان تھا اسے بھی اسی دھرتی کے بیٹوں نے نئے مسیحا کے ہاتھ بیچ دیا۔ انگریز آیا تو ہم نے انگریزی سیکھ لی اور خوشامدوں کے نئے انگریزی ریکارڈ مرتب کر لئے۔ اس پر بھی کسی کو شک ہو تو آج کے اپنے بیشتر سیاستدانوں اور گدی نشینوں کا شجرہ نکال لیجئیے اور دیکھیے کہ ان میں سے کتنے رئیس ابن رئیس تھے اور کتنوں کو دھرتی ماں بیچنے کے عوض ہزاروں ایکڑ اراضیاں ملیں۔ ان میں بھگت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل جیسے بہادر سپوت خال خال ہی تھے۔ باقیوں کی آل اولاد آج بھی ہم پر حکومت کرتی ہے۔

یہی خُو ہماری اب تک چلی آتی ہے۔ زیادہ دور نہ جائییے۔ امیر المومنین جنرل ضیا الحق سے شروع کر لیجئیے۔ بھٹو ایسے فاسق و فاجر حکمران سے نجات دلانے اور اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لئے موصوف آئے۔ اگرچہ اس کا ادراک خود موصوف کو بھی اس وقت ہوا جب تین ماہ میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کرنا تھا اور ایک موزوں عُذر کی تلاش تھی۔ بس پھر ہم نے اسلام کے نام پر ہونے والے بیوپار کے پیچھے لگ کر وطنِ عزیز کے قیمتی گیارہ سال گنوا دیے۔

موصوف راہی ملکِ عدم ہوئے تو ہمیں جمہوریت میں ملکی مسائل کا حل نظر آنے لگا۔ یہاں لیفٹ اور رائٹ کی متناسب تقسیم سے جمہوریت نے پاؤن پاؤن چلنا شروع کیا تو جنرل پرویز مشرف وارد ہوئے۔ قوم نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اور تو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی خوش آمدید کہا۔ مذہبی طبقوں نے بھی خوشی منائی اور لبرل طبقے بھی شاد نظر آئے۔ احتساب اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ہی اتنا دلفریب تھا۔ قومی تعمیرِ نو اور احتساب سمیت ہر اہم کام کے لئے ایک بیورو بنا اور کسی ایک جنرل صاحب کی نوکری کا اہتمام ہو گیا۔

ٹیکنو کریٹس کی حکومت تھی۔ معیشت نے سانس لینا شروع کیا تو ہمیں پھر جمہوریت یاد آ گئی۔ خیر سے جنرل مشرف مستعفی ہوئے تو ساری کی ساری قوم ہی جمہوریت پسند ہو گئی۔ وہ تمام لکھنے والے اور میڈیا پر بھاشن دینے والے جو جنرل مشرف کی مسیحائی میں قوم کا مستقبل دیکھتے تھے اور انہیں وردی میں دس بار منتخب کروانا چاہتے تھے، سب پتلی گلی سے نکل لئے۔ ہمارے عوام بھی، بشمول ان کے جو مشرف صاحب کے جلسوں میں جا کر بیٹھتے تھے ایک دم سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی فطری تقسیم میں اپنے اپنے خانوں میں جا بیٹھے۔

خیر سے جسٹس افتخار چوہدری نے ہیڈ لائنز میں جگہ بنانی شروع کی تو ہمیں ہر مسئلے کا حل سوموٹونوٹس میں نظر آیا۔ موصوف کو بھی خوش فہمی ہو چلی تھی کی اپنی ذاتی مقبولیت کی وجہ سے بحال ہوئے ہیں اور قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ کاروبارِحکومت کو عملی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا، جب گئے تو اپنے پیچھے پہلے سے بد تر عدلیہ چھوڑ کر گئے اور اس سارے عمل میں وکلا برادری کو بدمعاشی کے نئے طور طریقے بھی سکھا گئے۔ جو آج بھی گاہے اپنا نمونہ دکھاتے رہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد اور میاں نواز شریف کے تیسرے دورِحکومت میں ہمیں کرپشن ہر خرابی کی جڑ نظر آنے لگی۔ اسی اثنا میں عمران خان کرپشن کے خلاف بڑی آواز بن کر اُبھرے۔ اور ہم نے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ ملک بھی چلا پائیں گے یا نہیں انہیں مسندِ اقتدار پر لا بٹھایا۔ اس دوران قوم نے جسٹس ثاقب نثار کی شکل میں ایک نیا مسیحا بھی تلاش کر لیا۔ موصوف کو اپنی ذاتی تشہیر کی اتنی شدید خواہش تھی کہ ہیڈ لائنز میں رہنے کے لئے محض سوموٹو نوٹسز اور عدالتی کارروائیوں میں مسخرہ پن کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ڈیم بنانے، ہسپتال ٹھیک کرنے، صاف پانی کی فراہمی، آثارِ قدیمہ کی نگہداشت، بجلی کے منصوبوں، آبادی میں کمی، تعلیمی اداروں کے معیار سمیت ہر اس کام کا بیڑہ اٹھا لیا جو ان کے کرنے کا نہیں تھا۔ بھولی قوم ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر دوڑتی چلی گئی، یہاں تک کہ جج صاحب کی ریٹائرمنٹ کا دن آن پہنچا اور پتہ چلا کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں میں اندھیرے لئے ہم ایک ہی دائرے میں دوڑتے رہے، حاصل وصول کچھ نہیں۔

ہر تھوڑے عرصے کے بعد، ہم ایک نیا مسیحا دریافت کرتے ہیں، اور ایک نئے کدال سے پہاڑ کھودنا شروع کر دیتے ہیں اور ہر بار پہاڑ سے چوہا ہی نکلتا ہے خوشحالی کی نہریں نہیں بہتیں۔ اور ہم اتنے بھولے کہ پچھلے تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے نیا کدال لے کر نیا پہاڑ کھودتے ہیں اور ایک نیا چوہا دریافت کرتے ہیں۔

چلیں ایک لمحے کو مان لیں کہ ہماری قسمت ہی بری ہے، ہمارا طریقہِ تلاشِ مسیحا غلط نہیں۔ کیا دنیا میں کسی اور ملک نے بھی کسی مسیحا کی بدولت راتوں رات ترقی کی ہے؟ شخصی حکمرانی کی بیسیوں مثالیں مل سکتی ہیں، ان میں سوائے سنگا پور کے کس ملک میں ترقی کا معیار اس مسیحا کے جانے کے بعد بھی قائم رہا ہے؟ سنگا پور کو استثنیٰ دے دیجئے کہ اس چھوٹے سے ملک کا تجربہ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ باقی ساری دنیا میں جس ملک نے بھی ترقی کی ہے وہ ارتقائی عمل سے کی ہے۔ نظامِ حکومت کو خواہ کچھ بھی نام دیجئیے، لیکن ملک ارتقائی عمل سے آگے بڑھتے ہیں۔ راتوں رات مسیحا آ کر کوئی انقلاب نہیں برپا کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).