مولانا فضل الرحمن کو اصل شکایت کیا ہے؟


وہی بچپن والی بات کہ جس کے پاس بلا، اس کی باری سب سے پہلے، جس کی گیند، اس کی باؤلنگ پہلے، وکٹوں والا بھی اپنی کوئی نہ کوئی منوالیتا تھامگر بعض اوقات میدان میں سب سے زیادہ اس کی چلتی تھی کہ جس کے پاس بھاری بھرکم جثے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک تو اس کے ڈیل ڈول سے بچے کنی کتراتے دوسرا اس کی دھمکی بھی بڑی خطرناک اور فیصلہ کن ہوتی، چلو جی کھیل بند کہہ کے وکٹ کے عین درمیان آلتی پالتی مار کے بیٹھ جانا۔ جس کے بعد سارے کھلاڑی ایک دوسرے کو اس بھاری جثہ کی شرائط کے سامنے ہتھیار ڈالنے پہ آمادہ کرتے۔ مولانا فضل الرحمن بھی ”مجھے کھیلاو، یا مجھے کھلاؤ ورنہ کھیل بند کرو“ کے مصداق اسلام آباد میں ملین مارچ اور دھرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک دن بھی یہ حکومت قابل برداشت نہیں ہے۔ ظاہر ہے ایسی حکومت مولانا کو برداشت کہاں ہونی ہے کہ جس میں خود مولانا ہی شامل نہ ہوں۔

پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اسمبلی سے باہر ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی باہر ہیں۔ ہر سیاسی جماعت یہاں تک کہ چور دروازے سے آنے والی حکومتوں کا بھی ساتھ دینے میں اور انہی قبول کرنے میں مولانا نے کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا، البتہ قیمت ہمیشہ من چاہی وصول کی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جے یو آئی مرکزی حکومت کو شجرہ ممنوعہ کہہ رہی ہے اور حکومت کو گرانے کا ارادہ ظاہر کرکے اس کے خلاف ہر حد تک جانے پہ آمادہ ہے۔

علیل جبران کہتے ہیں کہ مولانا نے چند ماہ انتظار کیا کہ شاید حکومت میں شمولیت کی کوئی راہ نکلے مگر ناکامی پر اب حکومت گرانے کے درپے ہیں یعنی پہلے خود گرنا چاہتے تھے، اب حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کی جانب سے انصافی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے لئے جو الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں، کیونکہ یہ تمام وہ الزامات ہیں کہ جن کا سامنا ماضی کی ان تمام حکومتوں نے کیا کہ مولانا فضل الرحمن جن کا حصہ رہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پہ جو الزامات مولانا کی جماعت تواتر کے ساتھ عائد کر رہی ہے، ان میں پہلا الزام یہ ہے کہ حکومت ایک مخصوص بیرونی ایجنڈے کے تحت لائی گئی ہے اور بیرونی ایجنڈے کی تکمیل اس حکومت کا مقصد ہے۔

دوسرا یہ کہ حکومت اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے اور اس کو تسلیم کرنے جا رہی ہے۔ تیسرا یہ کہ ختم نبوت، ناموس رسالت قوانین کو تبدیل یا غیر موثر کرنا اس حکومت کا مقصد ہے۔ چوتھا انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور موجودہ حکومت کا مینڈیٹ جعلی ہے، لہذا حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا کوئی حق نہیں، جبکہ مہنگائی، قرضے، مرغی انڈے کی معاشی پالیسی اور آئی ایم ایف سے حکومتی مذاکرات بھی حکومتی خرابی اور نا اہلی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اگر حکومت پہ ان سنگین الزامات کی صحت کو جانچیں تو ان میں سے کوئی ایک بھی الزام ایسا نہیں کہ جس کا سامنا پہلی مرتبہ کسی حکومت کو کرنا پڑا ہو۔ مثلاً بیرونی ایجنڈے سے وجود میں آنے والی حکومت کا سب سے زیادہ الزام مشرف حکومت پہ عائد کیا جاتا ہے۔ مشرف دور حکومت کے متعلق اس وقت یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مشرف کا اقتدار نائن الیون اور اس کے نتیجے میں افغانستان پہ امریکی چڑھائی کی وسیع تر منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔

یہ بات یوں بھی درست مانی جاتی ہے کہ مشرف دور میں حکومت نے جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے سرنڈر کیا، شاید کہ وہ کسی بھی عوامی جمہوری حکومت کے لئے ممکن نہ تھا، یہاں یہ سوال بے معنی ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے مقابلے میں ایک فوجی حکومت امریکہ کے لئے زیادہ با اعتماد تھی۔ دوسری طرف افغان جہاد میں کردار ادا کرنے والی مذہبی قوتیں گرچہ مشرف کو مخالف اور دشمن قرار دیتی ہیں، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ مشرف دور میں عوامی مینڈیٹ رکھنے والی تمام سیاسی قوتوں کو توڑا اور تقسیم کیا گیا جبکہ مذہبی جماعتوں کو جوڑ کر انہیں قوت بخشی گئی۔

ایم ایم اے کی صورت میں جس مذہبی اتحاد کے حوالے پورا صوبہ (خیبر پختونخوا) کیا گیا، وہی صوبہ سب سے زیادہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہوا۔ مذہبی جماعتوں کے اس طاقتور الائنس میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی شامل تھی، یہی نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا جے یو آئی باقاعدہ حصہ رہی۔ ممکنہ طور پر بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر لائی گئی اس حکومت سے مولانا کی جماعت نے کبھی مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا۔ مطالبہ تو درکنار اس سے کنارہ کشی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

مولانا فضل الرحمن کی اسی حلیف حکومت کے دور میں سب سے زیادہ مشرقی تہذیب کا بستر گول ہوا، یہاں تک کہ مخلوط تعلیم کی حوصلہ افزائی، نصاب تعلیم میں سے اسلامی تعلیمات کا اخراج، نصاب تعلیم میں تبدیلی، مدارس پہ پابندی، ناکوں پہ منہ سونگھنے، نکاح نامہ مانگنے پہ پابندیاں بھی اسی دور کا تحفہ تھے۔ علاوہ ازیں دہشتگردی کے جس خوفناک عفریت سے سب سے زیادہ یہ ملک متاثر ہوا، دہشتگردی کے اس سلسلے کا آغاز بھی مشرف دور حکومت میں ہوا۔

ایک جانب مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت مشرف حکومت کے حلیفوں میں تھے اور دوسری جانب جہادی گروہوں کا موقف بھی وقتا فوقتا بیان کرتے رہے، طویل عرصہ تک عوام کا یہ مغالطہ ہی دورنہیں ہو پایا کہ مولانا امریکی مشرف کے زیادہ ساتھی ہیں یا ان کے مخالف جہادیوں کے۔ (مغالطہ مکمل طور پہ تاحال دور نہیں ہوا) یہی نہیں بلکہ آج تک جے یو آئی کے کسی بھی رہنما نے نام لے کر دہشت گرد گروہ کی کسی کارروائی کی مذمت نہیں کی، حالانکہ جے یو آئی کے اپنے مرکزی رہنماؤں پہ بھی شدید حملے ہوئے۔ 2013 ٹی ٹی پی قیادت کی امریکی حملے میں ہلاکت پہ یہ بیان مولانا کا ہی تھا کہ امریکہ اگر کتے کو بھی مارے تو اسے بھی شہید کہوں گا۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی وہی گروہ کہ جس نے پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

تین دن قبل ڈی آئی خان میں جے یو آئی کے ملین مارچ کے شرکا نے اپنے نعروں میں وردی پہ دہشت گردی کے سنگین الزامات عائد کیے۔ بسوں کی چھتوں پہ جمعیت کے جھنڈوں کے ساتھ موجود جمعیت کے ان کارکنوں نے نہ صرف کالعدم دہشت گرد تنظیم زندہ باد کے نعرے لگائے گئے بلکہ پاک فوج اور دیگر اداروں کی نفرین بھی کی۔ یہی نہیں بلکہ سٹیج سے جمعیت کے مرکزی رہنماں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، پاک فوج، سپریم کورٹ کے نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

وردی اور دہشت گردی سے متعلق نعروں کی فوٹیج منظر عام پہ آنے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے ٹوئٹر پہ اپنا بیان جاری کیا ہے کہ فوج سے متعلق ان کی جماعت کی یہ پالیسی نہیں۔ اس بیان کے ساتھ کچھ دیر بعد ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہیں۔ عدلیہ میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت کے کارکنوں کے ان منافرانہ نعروں کی تو تردید کی ہے اور اس سے اظہار برائت کیا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کی جماعت ایک جانب موجودہ حکومت کو جعلی مینڈیٹ والی بیرونی ایجنڈے کے تحت مسلط کی گئی حکومت قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف فوج اسٹیبلشمنٹ پہ یہ بھی الزام عائد کرتی ہے کہ انہوں نے یہ حکومت مسلط کی ہے۔ تو کیا جے یو آئی ریاستی اداروں پہ بالواسطہ طور پہ سنگین الزامات عائد کرتی ہے۔ ؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہاں میں ہے۔

جے یو آئی موجودہ حکومت پہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنے کا الزام بھی عائد کرتی ہے حالانکہ عملی طور پر مشرف دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سب سے زیادہ کوشش ہوئی۔ مشرف دور میں میڈیا نے یہاں تک دعوی کر دیا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سمری تیار ہوچکی ہے اور فلاں تاریخ کو فلاں شخصیت سے ملاقات کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ تاریخ کے پنوں میں محفوظ ہے کہ اس حکومتی اقدام کے خلاف وہ ممکنہ ردعمل نہیں آیا تھا، جو آج محض الزام یا امکان کی بنیاد پہ موجودہ حکومت کے خلاف ملین مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکیوں کی صورت میں مولانا فضل الرحمن دے رہے ہیں۔

مولانا موجودہ حکومت سے متعلق یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس مینڈیٹ جعلی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور موجودہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں چونکہ اس حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، لہذا اسے ایک دن کا بھی وقت نہیں دینا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں باقاعدہ طور پر مساجد سے فتوے جاری ہوتے ہیں کہ مولانا کا انتخابی نشان قرآن مجید ہے، لہذا اس انتخابی نشان کے مقابلے میں کسی بھی دوسرے انتخابی نشان پہ مہر لگا نا اللہ کو ناراض کرنا اور قرآن کی بے حرمتی کرنا ہے۔ ان طریقوں سے ایوان میں پہنچنے والوں کا مینڈیٹ ”حقیقی اور اسلامی“ ہوتا ہے۔

وطن عزیز کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انتخابی عمل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اب تک کی تمام حکومتوں کو لگ بھگ دھاندلی کے الزام کا ہی سامنا کرنا پڑا اور ان ”دھاندلی زدہ“ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی تمام حکومتوں میں مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت حصہ دار رہے۔ یہ حصہ داری صرف حکومت کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ ان حکومتوں کو جن سنگین الزامات کا سامنا رہا جیسے ناموس رسالت قانون میں تبدیلی کی کوشش، افغانستان میں تباہی و بربادی پھیلانے کے لئے امریکہ کی معاونت، دہشتگردوں سے ساز باز، پاکستانیوں کی امریکی سی آئی اے کو حوالگی، بلیک واٹر کو ویزوں کا اجراء، اعلیٰ سطح پہ جعلی ڈالر کی چھپائی، پاکستانی زمین پہ امریکی اڈوں کی اجازت، دارالحکومت میں امریکہ کے سب سے بڑے سفارتخانہ کی تعمیر، کوئٹہ میں امریکی قونصل خانے کی اجازت، ریمنڈ ڈیوس ڈیل، اپنے ہی اداروں کو بدنام کرنے کے لئے بھارتی ہدایت پہ سکینڈل، ان الزامات کی زد میں لامحالہ مولانا اور ان کی جماعت بھی آئی، کیونکہ یہ برسراقتدار حکومت کا حصہ تھے، انہی کے حلیف تھے۔

برسوں اقتدار کی شراکت کے مزے لوٹنے والے مولانا اور ان کی جماعت محض پانچ ماہ کے بعد ایسی حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں، جو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئی ہے۔ محض اس لیے کہ مولانا اور ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اس حکومت کا حصہ نہیں ہے۔ مولانا آج ناموس رسالت قانون کے دفاع کے جملہ حقوق بھی اپنے پاس محفوظ کرنا چاہتے ہیں مگرمولانا کی گزشتہ حلیف حکومت کے دور میں جب اسی قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس کے خلاف پہلی آواز کسی مذہبی جماعت کے نمائندے نے نہیں بلکہ شیخ رشید نے اٹھائی تھی۔

چنانچہ جے یو آئی کے ان تمام الزامات میں سے ایک بھی اس نوعیت کا نہیں کہ جس کی بنیاد پہ حکومت کے خلاف کوئی محاذ ترتیب دیا جائے۔ تمام تر صورتحال میں پی ٹی آئی کا اکلوتا جرم محض یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کے دور حکومت میں مولانا حکومت سے دور ہیں۔ کیا موجودہ حکومت کا یہ جرم اتنا ہی سنگین ہے کہ اس کی پاداش میں اسے بے دخل کیا جائے۔ اگر مولانا اور ان کی جماعت فوجی حکومتوں کا بوجھ برسوں برداشت کرسکتے ہیں تو پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کا کیوں نہیں، کیا پی ٹی آئی کی یہ جمہوری حکومت آمریت سے بھی گئی گزری ہے۔

ویسے جمعیت علما اسلام حکومت پہ تنقید کی آڑ میں ریاستی اداروں کو زیادہ لعن طعن کر رہی ہے اور اپنے اس طرز عمل سے عوام کی نظروں میں اپنا کھویا معیار مزید کھو رہی ہے۔ لحظہ بھر کے لئے یہ مان لیا جائے کہ بیرونی اشارے پہ نادیدہ ہاتھوں نے پی ٹی آئی حکومت کے قیام میں کردار ادا کیا ہے۔ تو پھر مولانا کے لئے مشورہ مفید یہی ہے کہ اس حکومت کو قبول کریں ورنہ برداشت کرنا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).