ادیبوں اور شاعروں کے لطیفے


(شیطان غالب)

رمضان کا مہینہ تھا، ”اسد اللہ غالب“ نوا ب حسین مرزا صاحب کے ہاں بیٹھے تھے۔ غالب نے پان منگوا کے کھایا۔ ایک فرشتہ سیرت، نہایت متقی وپرہیز گار صاحب اس وقت حاضر تھے۔ انہوں نے پوچھا، قبلہ آپ روزہ نہیں رکھتے؟ غالب بولے ”شیطان غالب ہے“۔

(سودائی)

ایک مجلس میں غالب صاحب اور شیخ ابراہیم ذوق صاحب دونوں موجود تھے۔ مرزا غالب نے میر تقی میر کی تعریف کی، ابراہیم ذوق نے سودا کو میر تقی میر پر تر جیح دی۔ مرزا غالب یہ سن کر ذوق سے فرمانے لگے،

میں تو آپ کو میری سمجھتا تھا
مگر اب معلوم ہوا کہ آپ سودائی ہیں

(شرابی)

ایک دفعہ ایک شخص نے مرزا غالب کے سامنے شراب کی برائیاں بیان کیں اور کہا کہ شرابی کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب بولے ”بھائی جس کو شراب میسر ہے اس کو اور کیا چاہیے جس کے لیے دعا مانگے“۔

(بندہئی کمینہ)

مرزا اسد اللہ غالب آخری ایام میں حکیم محمود خان کے دیوان خانہ کے متصل مسجد کے عقب میں آن رہے تھے۔ ایک مجلس میں کسی نے پوچھا، حضرت مکان کہاں ہے آپ کا؟ آپ فرماتے ہیں،

مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہو
یہ بندہ کمینہ ہمسایۂ خدا ہے

(گدھے کی لات)

مرزا غالب نے ”قاطعِ بر ہان“ کیا لکھی کہ فارسی دانوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔ بہت سے لوگوں نے جواب تحریر کیے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ منہ سے چڑہایا، جواب نہ بن پڑا تو گالیوں پر اتر آئے۔ مرزا غالب نے توجہ نہ دی۔ ایک شخص نے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے معین الدین کی کتاب کا جواب کیوں نہیں لکھا؟ مرزا نے فرمایا ”بھائی اگر کوئی گدھا تمہارے لات مارے تو تم اس کا کیا جواب دو گے“۔

(اجرت)

مرزا غالب کے خاص شاگرد اور دوست میر مہدی مجروح نہایت بے تکلفی سے اکثر شام کو ان کے پاس جا بیٹھتے تھے اور پر لطف باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک روز مرزا پلنگ پر پڑے کراہ رہے تھے۔ میر مہدی مجروح پاؤں دابنے لگے۔ مرزا نے کہا بھئی تو سید زادہ ہے، مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے۔ میر مہدی نہ مانے اور کہا کہ آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجیے گا۔ مرزا نے کہا ”ہاں اس کا مضائقہ نہیں“۔ جب وہ پاؤں داب چکے اور اجرت مانگی تو مرزا بولے ”کیسی اجرت، تم نے میرے پاؤں دابے میں نے تمہارے پیسے دابے، حساب برابر ہو گیا“۔

(چودہ طبق)

ایک دفعہ غالب صاحب کے ایک شاگرد نے کہا ”حضرت آج میں امیر خسرو کی قبر پر گیا تھا۔ مزار پر کھر نی کا درخت ہے۔ میں نے کھر نیاں خوب کھائیں، ان کا کھانا تھا کہ گویا فصاحت و بلاغت کا دروازہ کھل گیا۔ دیکھیے تو میں کتنا فصیح ہو گیا ہوں“۔ مرزا صاحب نے کہا ”میاں اتنے دور کیوں گئے، میرے پچھواڑے کے پیپل کی پپلیاں کیوں نہ کھا لیں، چودہ طبق روشن ہو جاتے“۔

(سنی مسلمان)

رمضان کا مہینہ تھا۔ مولوی عبدالقادر دہلوی مرزا صاحب سے ملنے آئے۔ عصر کا وقت تھامرزا نے پانی مانگا۔ مولوی صاحب نے تعجب سے پوچھا، جناب کا روزہ نہیں ہے؟ مرزا نے کہا ”سنی مسلمان ہوں، چار گھڑی دن رہے روزہ کھول لیتا ہوں“۔

(آدھا مسلمان)

ہنگامہ کے بعد پکڑ دھکڑ ہوئی تو مرزا غالب بھی بلائے گئے۔ انگریز کرنل نے پوچھا ”تم مسلمان ہو؟ “ مرزا بولے ”آدھا“۔ کرنل نے پوچھا اس کا مطلب؟ مرزا نے جواب دیا ”شراب پیتا ہوں، سور نہیں کھاتا“۔ سب یہ سن کر ہنسنے لگے۔

(رتھ)

دہلی میں رتھ کو بعض لوگ مذکر تو بعض مونث بولتے تھے۔ کسی نے اس بارے میں غالب سے پوچھا تو بولے ”جب رتھ میں عورتیں بیٹھی ہوں تو مونث کہو، اور جب مرد بیٹھے ہوں تو مذکر سمجھو“۔

(گدھا اور آم)

مرزا غالب کے دوست حکیم رضی الدین کو آم نہیں بھاتے تھے۔ ایک دن مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے۔ گلی سے ایک آدمی گدھا لے کے گزرا۔ گدھے نے گلی میں پڑے آم کے چھلکے سونگھ کے چھوڑ دیے۔ حکیم صاحب یہ دیکھ کے بولے ”آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا“۔ مرزا نے کہا ”بے شک گدھا آم نہیں کھاتا“۔

(آم)

مولانا حالی لکھتے ہیں کہ ایک مجلس میں ”آموں“ پر گفتگو ہو رہی تھی۔ مولانا فضلِ حق خیر آبادی نے آم کے بارے میں غالب سے رائے مانگی۔ مرزا بولے ”میرے نزدیک تو آم میں دو باتیں ہونی چاہیے، میٹھا ہو اور بہت ہو“۔

(شو میکری)

اکبر الہ آبادی کے ایک دوست نے جوتوں کی دکان کھولی۔ افتتاح کے موقع پر انہیں کچھ کہنے کی دعوت دی گئی تو آپ بولے،

شو میکری کی ہم نے کھولی ہے دکان
اب ہم کمایئں گے جوتوں کے زور سے

(داد)

جوش ملیح آبادی کی کسی نظم پر ایک سکھ نے داد دی کہ ”دیکھو پٹھان ہو کر کتنی عمدہ شاعری کر رہا ہے“۔ جوش صاحب بولے ”دیکھوسکھ ہو کر کتنی عمدہ داد دے رہا ہے“۔

(کتے )
جو ش ملیح آبادی ایک بار مشاعرہ پڑھ رہے تھے کہ رات کافی گزر گئی۔ رات گزرنے کی شکایت کی تو میزبان بولے ”ہم آپ کو چھوڑ دیں گے“ جس پر جوش نے کہا ”چھوڑے تو کتے جاتے ہیں“۔

(خالی دماغ)
ایک بار پنڈت جواہر لال نہرو نے مولانا آزاد سے پوچھا کہ ”جب میں سر کے بل کھڑا ہوتا ہوں تو خون سر کی طرف جمع ہو جاتا ہے مگر جب پاؤں پر کھڑا ہوتا ہوں تو ایسا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ “ مولانا آزاد نے جواب دیا ”جو چیز خالی ہو گی، خون وہیں جمع ہو گا“۔

(ناکام شاعر)
ایک دفع جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا ”میں ناکام شاعر ہوں“۔ اس پر مشفق خواجہ نے مشورہ دیا:
”جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں“۔

(خون سفید)
نامور شاعر منیر نیازی صاحب شادی کے بعد کراچی گئے تو ”جون ایلیا“ سے ملاقات ہو گئی۔ جون ایلیا نے کہا ”منیر خان تمہارے تو آدھے بال سفید ہو گئے ہیں“۔
منیر نیازی بولے :
”شادی کے بعد جو مجھ پہ گزری اگر تم پر گزرتی تو تمہارا تو خون بھی سفید ہو جاتا“۔

(ڈکشنر ی)
اسرارالحق مجاز نے عالمِ مد ہوشی میں ایک صاحبِ ذوق خاتون سے کہا، ”میں ڈکشن کا ماسٹر ہوں“۔
خاتون نے دل لگی کی خاطر سوال کیا کہ ”پھر جوش ملیح آبادی کیا ہیں؟ “ تو مجاز بولے ”وہ ڈکشنری کے ماسٹر ہیں“

(سٹینلے گارڈنر)
مشہور جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی سے کسی نے کہا ”سٹینلے گارڈنر کی طرح لکھا کریں“۔ ابنِ صفی نے کہا،
”آپ سٹینلے گارڈنر کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ وہ میری طرح لکھا کرے“۔

(سبحان اللہ، سبحان اللہ)
کوئٹہ میں احمد ندیم قاسمی کی زیرِ صدارت مشاعرہ ہو رہا تھا۔ قاسمی صاحب کے ہر شعر کو سوچے سمجھے بغیر ایک شخص باربار داد دے رہا تھا کہ ”سبحان اللہ، سبحان اللہ ماشا اللہ“۔ قاسمی صاحب کی طبیعت پر بات گراں گزری تو بولے ”میاں! اتنے زور زور سے اللہ کو یاد کر رہے ہو، اللہ نے دھیرے سے بھی یاد کر لیا نا تو یہ مشاعرہ آپ کا آخری ہو جائے گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).