ہماری اصل حکومت سفیدے کا درخت


ہماری اصل حکومت سفیدے کے درخت کی مانند ہے۔ ایک خاص وقت میں، خاص لوگوں کے مفادات کو بڑھاوا دینے اور ان کے بزنس کو ترقی دینے کے لئے اس کی افزائش کرائی گئی۔ کاشت کو پھیلایا گیا۔ اس کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ جنگل کے جنگل سفیدے سے بھر دیے گئے۔ نہ یہ دیکھا گیا کہ اس کے کیا کیا نقصانات ہیں۔ یہ کتنا پانی پیتا ہے۔ اس کی چھاوں ہوتی ہے یا نہیں۔ اس کی لکڑی میں کتنی مضبوطی ہے۔ بس کمپنی کا مفاد تھا۔ اس کا بیج جگہ جگہ پھیلا دیا گیا۔ ہسپتال، سکول، کالج اور سرکاری دفاتر اس جنگل کی نظر کر دیے گئے۔ ان سفیدوں کی جڑیں زیر زمین دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ زیرزمین پانی اتنی زیادہ مقدار میں پی رہی ہیں کہ ہماری فصلیں جن پر ہمارا معاشی دارومدار ہے پیاسی رہ جاتی ہیں۔ ہماری زرعی آمدنی کم ہونے کی ایک وجہ غیر ملکی درخت ہیں جو بیرونی ایجنڈے کے تحت ہم پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔

ہمارے سیاسی نظام میں کئی بار اسی طرح کے درخت اگائے گئے ہیں۔ ان کی نشو و نما اتنے زور شور سے کی گئی ہے کہ وہ تن آور درخت بن گئے۔ ان کی زیر زمین جڑیں اتنی گہری اور لمبی ہو گئیں کہ درخت کٹنے کے باوجود ان کی جڑیں پھیلتی گئی ہیں۔ یہ جڑیں ملک کا خون چوس رہی ہیں۔

پہلی بار سوشلزم کا درآمد شدہ درخت لگایا گیا تھا۔ شور مچایا گیا کہ سوشلزم شجر سایہ دار ہے۔ اس کی چھتری میں چلتی ہوئی منافع بخش صنعتیں برباد کردی گئیں۔ سکولوں اور کالجوں کو بھی اس درخت کی سوکھی شاخوں سے لٹکا دیا۔ سوشلزم پاکستان میں نشونما نہ پاسکا۔ مگر اس کی جڑیں آج بھی پی پی پی کی شکل میں پورے ملک میں پڑی ہیں اور کہیں کہیں اچھے خاصے درخت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اس کی پھر چھنگائی کرنی پڑتی ہے۔

ضیا الحق نے پاکستان میں ضیائی اسلام اور جہاد کا پودہ لگایا۔ اسلام کی یہ ہائبرڈ فارم پاکستان میں بڑی تیزی سے جڑ پکڑ گئی۔ ضیا چلا گیا۔ اس کی باقیات ختم نہ ہوئیں کہ جڑیں پورے پاکستان خاص طور پر پنجاب اور کے پی کے میں خاصی گہری ہو گئیں تھیں۔

کراچی میں مہاجر پودا لگایا گیا۔ اس کی جڑیں اتنی گہری ہوگئیں اور اس کا تنا اتنا طاقتور تھا کہ کاٹتے کاٹتے کئی برس بیت گئے۔ اب بھی اس کی شاخیں جھاڑیوں کی شکل میں خود رو اگتی رہتی ہیں لیکن موافق موسمی حالات اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے چھاوں دینے والے درخت کی شکل اختیار نہیں کر پاتیں۔

آج کل ان تمام پرانے پودوں کو ملک کے لئے نقصان دہ سمجھا جا رہا ہے۔ اور اس بار کوئی غیر ملکی بیج درآمد نہیں کیا گیا۔ اس بار ملک کی اپنی لیبارٹری میں پرانے بیجوں کو اکٹھا کرکے انہیں پیس کر ایک نیا ملغوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس ملغوبے کا نام تحریک انصاف رکھا گیا ہے۔ اس کو نیب کی چٹنی جو بذات خود اکسپائر شدہ ہے لگائی گئی ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ پرانے بیج جو اب بھی موقع پا کر اپنی شاخیں نکال لیتے ہیں اور مرنے کا نام نہیں لیتے ان کو جڑ سے اکھاڑا جائے تاکہ اصلی فصل یعنی سفیدے کا دررخت پھلتا پھولتا رہے۔ اس کی جڑوں کو پورا پانی ملتا رہے۔ اس کی شاخیں جن کی بھلے چھاوں نہ ہو ہری رہیں۔ یہ کرم کش مکسچر ایکسپائر نیب چٹنی کے ساتھ مل کر پرانے بیجوں کی جڑیں تو ختم نہ کر سکے گا مگر ان کی شاخوں کو پھلنے پھولنے بھی نہ دے گا یہی ہمارا مقصد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).